• صارفین کی تعداد :
  • 3489
  • 2/8/2012
  • تاريخ :

سورۂ بقره کي آيات  نمبر 21-19  کي تفسير

بسم الله الرحمن الرحیم

آنکھ اور کان کي مانند فہم و ادراک کے جو ذرائع اللہ نے انسان کو عطا کئے ہيں علمي اور عملي سعادتوں کا عظيم سرمايہ ہيں ان سے صحيح استفادہ اللہ کا سب سے بڑا شکر ہے سورۂ نحل کي آيت اٹہتر کے مطابق " اللہ نے ہي تمہارے لئے کان آنکھ اور دل قرار دئے کہ شايد تم شکرگزار بن جاؤ" مگر منافقين نے اس سرمائے کو ضايع کرديا اور اپني اصل فطرت کي طرف بازگشت سے بھي محروم کردئے گئے کيونکہ انہوں نے آنکھ کان اور دل سے صحيح کام نہيں ليا- يوں تو تمام انسانوں کے پاس آنکھيں ہيں ليکن جو نگاہ بتوں کو احترام کي نظر سے ديکھتي ہے يا نامحرم کي طرف خيانت کے ساتھ اٹھتي ہے سورۂ غافر کي انيسويں آيت کے مطابق : "يَعلَمُ خَائنَۃَ الاَعيُن وَ مَا تُخفِي الصّدُور " خدا ان نگاہوں کي خيانت اور دلوں کے رازوں سے واقف ہے، يہ آنکھيں نابينا اور دل اندھے ہوجاتے ہيں چنانچہ منافقوں کي بے فروغ زندگي کو ايک دلنشيں مثال کے ذريعہ بيان کرنے کے بعد عمل و رفتار کے لحاظ سے بھي قرآن نے ان کي حرماں نصيبي کا ذکر کرتے ہوئے سورۂ بقرہ کي انيسويں اور بيسويں آيت ميں فرمايا ہے : " اَو کَصَيّبٍ مِّنَ السّماءِ فِيہِ ظُلُمَاتٌ وَ رَعدٌ وَ بَرقٌ يَجعَلُونَ اَصَابِعَہُم فِي اذَانِھِم مِّنَ الصّوَاعِقِ حَذَرَ المَوتِ وَ اللہُ مُحِيطٌ بِالکَافِرِينَ ، يَکَادُ البَرقُ يَخطَفُ اَبصرَھُم کُلّمَا اَضَاءَ لَہُم مَشَوا فِيہِ وَ اِذَا اَظلَمَ عَلَيھِم قَالُوا وَ لَو شَاءَ اللہُ لَذَھَبَ بِسَمعِھِم وَ اَبصَارِھِم ، اِنّ اللہَ عَلي کُلِّ شَيءِ قَدِيرٌ " يا يہ ( منافقين ، اس شخص کي طرح ہيں جو ) آسمان سے تيز و تند بارش کے وقت پھيل جانے والي تاريکيوں اور بجلي کي چمک اور بادلوں کي گرج ميں گھر جانے کے سبب بجليوں کي کڑک سے ڈرکر کانوں ميں انگلياں ڈال ليتے ہيں جبکہ خدا نے کافروں کو اپنے گھيرے ميں لے رکھا ہے ( جس سے بچکر وہ کہيں نہيں جا سکتے) قريب ہے کہ بجلي کي چمک سے ان کي آنکھوں ميں ايسي چکاچوندھ پيدا ہو کہ جب تاريکي ميں بجلي چمکے تو قدم اٹھائيں پھر اندھيرا پھيل جائے تو ٹھٹک کر رکنا پڑجائے اگر خدا چاہے تو ان کي سماعت اور بصارت کو چھين سکتا ہے بيشک اللہ ہرچيز پر قدرت و اختيار رکھتا ہے -دين حق سے برگشتہ منافقين راہ سے بھٹک جانے والے ايک مسافر کي مانند ہيں جو اندھيرے بيابان ميں موسلادھار بارش ميں گھرا ، تيرہ و تار بادلوں کي شديد بارش، بجلي کي تڑک اور چمک اور بادلوں کي گرج اور کڑک سے خوف زدہ کانوں ميں انگلياں دئے کھڑا ہوکہ کہيں موت بجلي بنکر پيکر وجود کو بھسم نہ کردے بجلياں چمکتي ہيں تو چند قدم آگے بڑھاتا ہے اور پھر اندھيرا پھيل جاتا ہے تو ٹھٹک کر رک جاتا ہے - در اصل منافقين اپنے ظاہري ايمان کے سبب اسلامي معاشرے ميں جب سياسي اور معاشرتي ماحول سازگار ہو آرام و سکون کي زندگي گزارتے ہيں ليکن شک کا اندھيرا اور کفر و نفاق کي گرج اور چمک، سختياں آتے ہي ان کے باطن کو جو کفر سے معمور ہے ظاہر و آشکار کرديتي اور ان کي تمام قوت عمل کو سلب کرليتي ہے چنانچہ اگر خدا چاہتا تو آغاز کار ميں ہي ان کے نور کو چھپن ليتا اور لباس اسلام پہننے سے پہلے ہي وہ معاشرے ميں برہنہ ہوجاتے مگر آزمائش کے لئے خدا نے کچھ دنوں کي مہلت ديدي اور انہيں اپنے اقتدار و اختيار کے گھيرے ميں ليکر آزاد چھوڑديا تا کہ ان کا باطن پوري طرح آشکار ہوجائے چنانچہ حق کي کرنيں راہ ميں اجالے بکھيرتيں تو وہ چند قدم چل پڑتے ليکن نفاق کي ظلمتيں انہيں جلد ہي تاريکيوں ميں ڈھکيل ديتي تھيں اور اسلامي معاشرے کي مشکلات کا خوف انہيں بہانے بنانے اور راہ سے بے راہ کردينے پر مجبور کرديتا تھا اسي لئے منافقين کا ايک گروہ آخر وقت تک گومگو کا شکار رہا اور خدا نے ان کو قبول حق سے محروم کرديا -امير المؤمنين حضرت علي عليہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبے ايک سوبانوے ميں مسلمانوں کو منافقين کي طرف سے ہوشيار کرتے ہوئے ان کي کچھ اہم خصوصيات کي طرف اشارہ کيا ہے فرماتے ہيں: وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والے ، بے راہ اور بے راہي پر لگانے والے ہيں وہ رنگ پہ رنگ بدلتے رہتے ہيں اور ہر روز ايک نئے حيلے اور جداگانہ پينترے کے ساتھ ميدان ميں اترتے ہيں --- زہد اور دنيا سے مايوسي کي باتيں کرکے اپنے مفادات حاصل کرتے ہيں اور چاہتے ہيں خود اپنا بازار گرم کريں اور اپنے سامان کو رواج ديں باتيں کرتے ہيں تو ايسي جو حق سے ملتي جلتي ہوں ( نہ کہ حق ہوں ) تعريف کرتے ہيں تو ظاہري آرائش کي اور باطل کے جسم پر حق کا لباس پہناديتے ہے وہ سخت اور باريک راستے کو آسان کہتے ہيں ليکن اسي باريک راہ کو منحرف کرکے رہرووں کو حيران و سرگرداں کرديتے ہيں يہ لوگ شيطان کے چيلے اور آلہ کار ہيں اور جہنم کي آگ کے شعلے ہيں ، يہ شيطان کے گروہ ہيں اور شيطان کا گروہ ہي خسارہ ميں ہے-اور اب سورۂ بقرہ کي اکيسويں آيت خدا فرماتا ہے : " يَا اَيّہَا النّاسُ اعبُدُوا رَبّکُمُ الّذِي خَلَقَکُم وَ الّذِينَ مِن قَبلِکُم لَعَلّکُم تَتّقُونَ" ( يعني) اے لوگو! اپنے پروردگار کي عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے والوں کو بھي خلق کيا ہے کہ شايد تم لوگ متقي و  پرہيزگار بن جاؤ-عزيزان گرامي! قرآن کريم نے الہي احکام بيان کرنے ميں عام طور پر تخاطب کا انداز رکھا ہے تاکہ ہر انسان ذمہ داري کا احساس کرے اور اپنے معبود و پروردگار سے ہم کلام ہونے کي لذت اٹھا سکے ظاہر ہے بندوں سے بلاواسطہ خطاب خدا اور انسان کے درميان گہرے رابطے کي دليل ہے چنانچہ سورۂ بقرہ کي گزشتہ بيس آيتوں ميں انسانوں کو تين گروہوں ميں تقسيم کرکے تينوں گروہ مومنين، کافرين اور منافقين کے خصوصيات و حالات ذکر کرنے کے بعد اس آيۂ کريمہ ميں پروردگار عالم نے تمام انسانوں کو اپنا مخاطب قرار ديتے ہوئے اپنے پروردگار کي عبادت و پرستش کرنے کا حکم ديا ہے ،کفار کو غير اللہ کي عبادت چھوڑ کر خدا کي عبادت شروع کرنے ، منافقين کو خدا کي عبادت ميں خلوص پيدا کرنے اور مومنين کو خدا کي عبادت ہميشہ جاري رکھنے کي دعوت دي گئي ہے اور اعلان کيا گيا ہے کہ تم بھي اور زمانۂ ماضي ميں تم سے پہلے بھي تمہارے آباؤ اجداد اور تمام اقوام و ملل خدا کے ہي خلق کئے ہوئے ہيں اول سے آخرتک تم سب کا خالق و پروردگار ايک ہے اسي خدائے يگانہ کي عبادت کرو تا کہ تم سب کے سب قرآن کے بيان کردہ پہلے گروہ ، متقي و پرہيزگار مومن، کي صف ميں شامل ہوکر قرآن سے فائدہ اٹھاو اور راہ نجات حاصل کرلو-يہاں يہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن کريم کي يہي وہ سب سے پہلي آيت ہے جو " يَا اَيّہَا النّاس" يعني اے لوگو سے شروع ہوئي ہے اور اللہ نے اس آيت ميں اپنے تمام بندوں کو صرف اور صرف اپني عبادت کا حکم ديا ہے جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حامل قرآن مرسل اعظم محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلّم کي رسالت اور قرآن کريم کے پيغامات تمام انسانوں کے لئے عموميت رکھتے ہيں اور آپ نے قرآن کے ذريعہ تمام انسانوں کو توحيد کي دعوت دي ہے اور آيت کے مطابق اولا" انسان کا فريضہ ہے عبادت کرے دوم يہ کہ اس کا معبود وہي اس کا پروردگار ہو تيسرے يہ کہ اس کا پروردگار اس کے خالق يگانہ کے سوا کوئي اور نہيں ہے اور چوتھي بات يہ کہ عبادت کے ذريعے ہي انسان متقي بن سکتا ہے -اپنے بندوں سے تخاطب کا لہجہ اپنا کر خدا نے انسانوں کو عظمت و شخصيت عطا کي ہے اور ان کو ايک ذمہ دار حيثيت ديدي ہے اور براہ راست گفتگو ميں جو لذت ہے انسان کو اس مزہ سے بھي آشنا بناديا ہے تا کہ عملي طور پر عبادت کرتے وقت انسان تھکن کا احساس نہ کرے مگر افسوس انسان اپني غفلت اور بے توجہي کے سبب تقرب الہي کے اس رشتے کو بعض وقت کمزور اور بعض وقت توڑليتا اور لطف الہي سے خود کو محروم کرليتا ہے -

معلوم ہوا منافقين اپنے ظاہر و باطن ميں اختلاف کے باعث ہميشہ پريشاں اور سرگرداں رہتے ہيں اور آخرت کے عذاب سے قطع نظر اسي دنيا ميں وہ الجھن اور اضطراب کے عذاب ميں اسير ہوجاتے ہيں -

·   موت کا خوف ہر وقت منافقين کے کانوں ميں گونجتا اور انہيں بے چين رکھتا ہے فطري " اسلام" کبھي دل ميں نور بن کر چمکتا بھي ہے اور راہ اسلام ميں چند قدم آگے بڑھنے کي طرف مائل بھي ہوتے ہيں تو کفر و نفاق کي ہوائيں ان پر غلبہ حاصل کرليتي ہيں اور وہ اندھيروں ميں ڈوب جاتے ہيں -

·  خداوند عالم چونکہ ان پر محيط ہے وہ ان کي سازشوں اور خفيہ سرگرميوں کو برملا کرديتا ہے اور منافق معاشرے ميں اپني ساکھ کھوديتا ہے اور ذليل و رسوا ہوجاتا ہے-

·  منافق کي نگاہيں " نور الہي " سے ديدہ ملانے کي جرات نہيں رکھتيں کلام الہي کي روشني سے چکا چوندھ ہوجاتي ہيں اور وہ ميدان علم و معرفت ميں پريشان  و سرگرداں رہتے ہيں -

·  مرسل اعظم (ص) کے ذريعے ، اسلام کي دعوت بالکل عام ہے کسي قوم اور قبيلے يا زمانے اور جگہ سے مخصوص نہيں ہے اسي لئے قرآن حکيم ميں تقريبا" بيس مقامات پر "يا ايّہا الناس " سے خطاب کيا گيا ہے -

·  ہماري پيدائش اللہ کي سب سے بڑي نعمت ہے اور پيدائش کے بعد اللہ ہي ہميں پالتا اور پروان چڑھاتا بھي ہے لہذا ہميں اپنے خالق و پروردگار کي عبادت کرنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا چاہئے -

 ·  عبادت کا ايک بڑا فائدہ يہ ہے کہ عبادت سے تقوي اور پرہيزگاري پيدا ہوتي ہے جو گناہوں سے پاک کرديتي ہے -

بشکريہ آئي آر آئي بي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان