• صارفین کی تعداد :
  • 4010
  • 12/15/2011
  • تاريخ :

در جواني توبہ کردن شيوہ پيغمبري

سوالیہ نشان

عبادات کا بہترين وقت جواني ميں ہے- اپني جواني ميں عبادات کا آغاز کر دينا چاہئے- عقل مندوں کو اپني جواني کا حصہ ضائع نہيں کرنا چاہئے اور انعام سمجھنا چاہئے- يہ اس لئے کيونکہ عبادات بہت ضروري ہيں ہو سکتا ہے کہ وہ بڑھاپے تک پہنچ نہ پائے-

ہميں وہ عمل کرنا چاہيےجس سےتقويٰ ملتا ہي، ارکانِ اسلام کو پوري طرح سےاپنانا اور سچےلوگوں کےساتھ مل جاناتقويٰ ملنےکا سبب بنتا ہےانہوں نےکہا کہ ہر نيک عمل سےتقويٰ ملتاہي-انہوں نےکہا اللہ کي ہر بات ميں حکمت ہي،انسان کو اللہ تعاليٰ نےاشرف المخلوقات بنايا ہي،خداتعاليٰ نےفرمايا اگر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسول کے اسوہ حسنہ کو اپنا لو-

اللہ تعاليٰ نےانسان کو بہت سي نعمتيں عطا کي ہيں ہميں خدا کي نعمتوں کا شکرگزار ہونا چاہيے، ان نعمتوں ميں سے اللہ تعاليٰ کي سب سےبڑي نعمت يہ ہےکہ اللہ تعاليٰ نےہميں امت ِمحمد ميں سے پيدا کيا-

نوجوانوں کو درپيش زيادہ مسائل کي وجہ انسان کا سب سے بڑا دشمن انسان کا نفس ہے - ہم اس ماحول ميں رہ کر صرف شريعت محمد ي پر عمل پيرا ہو کر اس سے بچ سکتےہيں-

جواني کي عبادت ، بڑھاپےکي عبادت سےافضل ہے، ہم اپنےدلوں کو اللہ تعاليٰ کےذکر سے ہي صاف کر سکتے ہيں، جس طرح کپڑوں کي ميل کچيل صابن کےبغير صاف نہيں ہو سکتي اسي طرح ہمارے دل بھي اللہ تعاليٰ کے ذکر کے بغير صاف نہيں ہو سکتے اور قرآن پاک ميں بات بڑے واضح طريقہ سےموجود ہے کہ اللہ تعاليٰ ہر مومن کے دل ميں موجود ہوتا ہے-

بڑھاپے ميں عبادت کرنے کے آسرے پر نہيں رہنا چاہيۓ کيونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بڑھاپے تک پہنچ ہي نہ پاۓ اور چليں ہم يہ گمان کر ليتے ہيں کہ وہ بڑھاپے تک پہنچ بھي گيا تو کيا وہ ان گناہوں سے چھٹکارہ پا سکے گا جو اس دوران اس نے کئے ہيں- چليں ہم يہ گمان کر ليتے ہيں کہ وہ اپنے آپ کو بڑھاپے ميں جواني کي طاقت کي کوشش کرتا ہے تو وہ پُراني طاقت نہيں پا سکتا جس سے وہ اپنے عبادت کے معاملات سرانجام دے- وہ اسلئے کيونکہ بڑھاپے ميں جسم کمزور ہو جاتے ہيں- کمزوري فطري طور پر آ جاتي ہے- يہ جواني کے وقت ميں ہي ممکن ہے کہ ہم اپنے معاملات درست کرکے کاميابي تک پہنچ سکيں

ہم يہ دہراتے ہيں کہ عبادات زندگي کا حصہ ہيں وہ اس لئے کہ اسلام بہت آسان ہے- مطلب يہ کہ لوگ اتنے مصائب سے گزر رہے ہيں- مثلاً يونيورسٹي کے امتحانات اور زندگي کے مسائل و مشکلات - اور آخر ميں اسکا کوئي حل نہيں نکلتا- درست؟ آپ کہتے ہيں- کہ ’’ميں نے گريجويشن کرلي‘‘ تو پھر کيا ہو؟ ہم کہتے ہيں کہ آخر ميں کيا ہو؟ وہ کہتا ہے ’’ ميں اب ايک کامياب انجينئر ہوں‘‘ ما شاء اللہ بھئي اب تم کيا کر رہے ہو؟ ہم پوچھتے ہيں- وہ کہتا ہے - ’’ميں اب نوکري ڈھونڈ رہا ہوں‘‘- وہ نوکري ڈھونڈتا ہے اور آخر کار خوشي سے کہتا ہے کہ ميں نے ’’ نوکري ڈھونڈلي‘‘ اچھي تنخواہ والي نوکري مل گئي  اور کہتا ہے کہ ’’ اگر ميں محنت کروں تو  زيادہ  تنخواہ  مل جاۓ- چليں وہ محنت کرتا ہے اور ہميں خوشخبري ديتا ہے - چليں ماشاء اللہ - تو مطلب يہ ہے کہ صرف اس چيز کے لئے وہ اتنے سال محنت کرتا رہا - درست؟ مطلب کہ اس نے اپنے 20سال لگا دئيے- اور پھر آخر ميں اس کو ايک اچھي  آمدني ميسر ہوتي ہے -  جس طرح دنياوي کاموں کے ليۓ محنت کر رہے ہوتے ہيں اسي طرح اخروي زندگي کا سامان بھي کر لينا ضروري ہے کيونکہ يہ زندگي تو ہوا کا ايک جھونکا ہے جو آيا اور گزر گيا - حيات جاوداني تو  مرنے کے بعد آۓ گي جس ميں اس دنيا ميں کيے گۓ اعمال کام آئيں گے - اس ليۓ جواني کا وقت برباد کرنے کي بجاۓ اسي طاقت کے دورانيے ميں ہي رب کو راضي کرنا چاہيۓ اور اس کي خوشنودي حاصل کرنے کي کوشش کرني چاہيۓ -

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان