• صارفین کی تعداد :
  • 2259
  • 8/22/2011
  • تاريخ :

کيا بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے؟ (حصّہ دوّم)

بسم الله الرحمن الرحیم

ہم يہاں شيعہ اور سني دونوں فريقوں کي کتابوں ميں منقول روايات کو بيان کرتے ہيں (اور اس بات کا اعتراف کرتے ہيں کہ ان تمام کا يہاں ذکر کرنا ہماري بحث سے خارج ہے، اور مکمل طور پر ايک فقہي بحث ہے)

1- ”‌معاويہ بن عمار” جو امام صادق عليہ السلام کے چاہنے والوں ميں سے ہيں، کہتے ہيں کہ ميں نے امام عليہ السلام سے سوال کيا کہ جب ميں نماز پڑھنے کے لئے تيار ہوجا ؤ ں  تو کيا سورہ حمد کے شروع ميں بسم اللہ پڑھوں؟ تو امام عليہ السلام نے فرمايا: ہاں، ميں نے پھر سوال کيا کہ جس وقت سورہ حمد تمام ہوجائے اور اس کے بعد دوسرا سورہ پڑھنا چاہوں تو کيا بسم اللہ کا پڑھنا ضروري ہے؟ تو آپ نے فرمايا: ہاں-

2-سني عالم دين دار قطني صحيح سند کے ساتھ حضرت علي عليہ السلام سے نقل کرتے ہيں کہ ايک شخص نے آپ سے سوال کيا کہ ”‌السبع المثاني” سے مراد کيا ہے؟ تو امام عليہ السلام نے فرمايا: اس سے مراد سورہ حمد ہے، تو  اس نے سوال کيا کہ سورہ حمد ميں تو چھ آيتيں ہيں؟ تو امام عليہ السلام نے فرمايا: بسم اللہ الرحمن الرحيم بھي اس کي ايک آيت ہے-

3- اہل سنت کے مشہور و معروف عالم بيہقي، صحيح سند کے ساتھ ابن جبير اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ہيں:”‌استرَقَ الشَّيْطَان مِنَ النَّاسِ، اعظم آية من القرآن بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ” شيطان صفت لوگوں نے قرآن کريم کي سب سے بڑي آيت يعني ”‌بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ”کو چوري کرليا ہے” (اس بات کي طرف اشارہ ہے کہ سوروں کے شروع ميں بسم اللہ نہيں پڑھتے)

اس کے علاوہ ہميشہ مسلمانوں کي يہ سيرت رہي ہے کہ ہر سورے کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے ہيں اور تواتر کے ساتھ يہ بات ثابت ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) بھي ہر سورے کے شروع ميں بسم اللہ الرحمن الرحيم پڑھا کرتے تھے، اس صورت ميں کيسے ممکن ہے کہ جو چيز قرآن کا حصہ نہ ہو خود پيغمبر اکرم (ص)  اور آپ کي امت اسے قرآن کے ساتھ ہميشہ پڑھا کريں؟!-

ليکن جيسا کہ بعض لوگوں کا خيال ہے کہ بسم اللہ ايک مستقل آيت ہے اور قرآن کا جز ہے مگر سوروں کا جز نہيں ہے، يہ نظريہ بھي بہت ضعيف ہے، کيونکہ بسم اللہ کے معني کچھ اس طرح کے ہيں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کام کي ابتدا اور آغاز کے لئے ہے، نہ يہ کہ ايک مستقل اور الگ معني ، درحقيقت اس طرح کا شديد تعصب کہ اپني بات پر اڑے رہيں اور کہيں کہ بسم اللہ ايک مستقل آيت ہے ، جس کا ما قبل مبا لغہ سے کوئي ربط نہيں ہے، ليکن بسم اللہ کے معني بلند آواز ميں يہ اعلان کرتے ہيں کہ بعد ميں شروع ہونے والي بحث کا سر آغاز ہے-

صرف مخالفين کا ايک اعتراض قابل توجہ ہے اور وہ يہ ہے کہ قرآن مجيد کے سوروں ميں (سورہ حمد کے علاوہ) بسم اللہ کو ايک آيت شمار نہيں کيا جاتا بلکہ اس کے بعد والي آيت کو پہلي آيت شمار کيا جاتا ہے-

اس اعتراض کا جواب”‌فخر الدين رازي” نے اپني تفسير کبير ميں واضح کرديا کہ کوئي ممانعت نہيں ہے کہ بسم اللہ صرف سورہ حمد ميں ايک آيت شمار کي جائے اور قرآن کے دوسرے سوروں ميں پہلي آيت کا ايک حصہ شمار کيا جائے، ( اس لحاظ سے مثلاً سورہ کوثر ميں <بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اَنا اعطينکَ الکَوْثَر> ايک آيت شمار ہو-

بہر حال يہ مسئلہ اتنا واضح اور روشن ہے کہ تاريخ نے لکھا ہے کہ معاويہ نے اپني حکومت کے زمانہ ميں ايک روز نماز جماعت ميں بسم اللہ نہيں پڑھي، تو نماز کے فوراً بعد مہاجرين اور انصار نے مل کر فرياد بلند کي : ”‌اسرقت ام نسيت” (اے معاويہ! تو نے بسم اللہ کي چوري کي ہے يا بھول گيا ہے؟)

شعبہ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحريريں:

حروف تھجي کي انداز اور ادا ئيگي

علم تجويد  کي  ضرورت

علم تجويد کي عظمت

علوم قرآن پر پہلي کتاب

عُلوم الِقُرآن