• صارفین کی تعداد :
  • 3809
  • 8/7/2011
  • تاريخ :

سورۂ رعد کي آيت  نمبر  17-16  کي تفسير

بسم الله الرحمن الرحیم
قل من رّبّ السّموات و الارض قل اللہ قل افا تّخذتم مّن دونہ اولياء لايملکون لانفسہم نفعا" وّ لا ضرّا" قل ہل يستوي الاعمي والبصير ام ہل تستوي الظّلمات و النّور ام جعلوا للہ شرکاء خلقوا کخلقہ فتشا بہ الخلق عليہم قل اللہ خالق کلّ شيء وّ ہو الواحد القہّار (اے پيغمبر!) آپ ان سے کہديں زمين اور آسمانوں کا پروردگار کون ہے؟ ( ہاں ہاں ) کہ ديں اللہ ہي ہے ( اور ہاں ) کہ ديں تم لوگوں نے ( کيوں ) اس کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولي و سر پر ست بناليا جبکہ وہ خود اپنے فائدے اور نقصان کے مالک نہيں ہيں اور کہديں کيا اندھے اور آنکھ والے ايک جيسے ہوسکتے ہيں؟! يا ظلمتيں اور نور يکساں کہے جا سکتے ہيں يا انہوں نے خدا کا شريک ايسوں کو بنايا ہے جنہوں نے خدا کي طرح ( کوئي کائنات) خلق کي ہے اور ان پر خلقت کا مسئلہ مشتبہ ہوگيا ہے آپ کہہ ديجئے اللہ ہي نے سب کچھ خلق کيا ہے اور وہ يکتا و يگانہ اور سب پر غالب ہے -

 يہ بات واضح ہوجانے کے بعد کہ آسمانوں اور زمين اور ان کے درميان جو کچھ بھي ہے ان سب کا خالق و پروردگار اور منتظم و کارساز خداوند عليم و قدير ہے وہي سب کا خالق اور سب کا مالک ہے سب اس کے محتاج و ضرورتمند ہيں اور وہ ہر ايک سے بے نياز ہے ، نظم و تدبير عالم خدا کے علم و قدرت و رحمت کا نتيجہ ہے سب کے سب اسي کي مخلوق ہيں اور دنيا کے تمام لوگ خود اپنے نفع و ضرر کے مالک نہيں ہيں کسي اور کو فائدہ کيا پہنچائيں گے صرف اور صرف اللہ ہي سب کا پروردگار ہے اب اس آيت ميں خدا اپنے نبي (ص) کو حکم ديتا ہے کہ ذرا ان ( مشرکين) سے پوچھئے تو کہ تمام آسمانوں اور زمين کا پروردگار کون ہے ؟ اور پھر حکم ديتا ہے کہ آپ ہي جواب بھي ديديجئے کہ اللہ کے سوا کون ہوسکتا ہے اللہ ہي سب کا پروردگار ہے کيونکہ اللہ مشرکين کي ضد اور ہٹ دھرمي سے اچھي طرح واقف ہے کہ وہ کبھي خدائے يگانہ کو اپنا پروردگار ماننے پر تيار نہيں ہوں گے ان کے لئے کوئي بھي حجت و استدلال بيکار ہے- اس کا ثبوت يہ ہے کہ انہوں نے ايسوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جو خود اپنے فوائد اور نقصانات کے مالک نہيں ہيں اور يہ مشرک يہ بات جانتے ہوئے بھي ان کو اپنا معبود کہتے ہيں - ظاہر ہے اس آيت ميں رسول اعظم (ص) کو خطاب کرکے کہ ديجئے ، کہ ديجئے کي تکرار بتاتي ہے کہ قرآن اس طرح کے ضدي اور کينہ پرور جاہلوں سے براہ راست خطاب کرنا بھي پسند نہيں کرتا اور علامہ طباطبائي کے بقول يہ بھي قرآن کريم کے نظم و لطائف ميں سے ہے - چنانچہ مشرکين پر اپني حجت تمام ہوجانے کے بعد ان کي عقلوں پر ماتم کرتے ہوئے نبي اکرم (ص) کي ہي زباني قرآن نے دو مثاليں بھي استفہام انکاري کے لہجے ميں بيان کي ہيں ايک ميں مومن اور کافر کي حالتيں اور ايک ميں ان کے ايمان و کفر کي حالتيں الگ الگ پيرائے ميں مجسم کي ہيں کہ کافر تمام دلائل حقہ کے باوجود حق کو تسليم نہيں کرتے يہ دليليں ان کو اندھا کرديتي ہيں اور مومن يہ دليليں سن کر بينا اور بصير ہوجاتے ہيں اور کوئي بھي عاقل اندھے اور آنکھ والے کو ايک جيسا نہيں کہہ سکتا اور حق سے انکار تاريکي اور حق پر ايمان نور ہے لہذا کوئي عاقل صاحب ظلمات کافر کو اور صاحب نور مومن کو مساوي اور يکساں نہيں کہہ سکتا معلوم ہوا کہ کفار بھي اگر عقل سليم رکھتے ، جيسا کہ وہ دعوي کرتے ہيں، تو باطل سے دستبردار ہوکر وہ بھي خدائے واحد پر ايمان لے آتے - بہرحال، مطالب بيان کرنے کا ايک قرآني طريقہ يہ ہے کہ سوال و جواب کے انداز ميں موافق يا مخالف يا پھر خود پيغمبر (ص) کي زبان سے، خدا موضوع کي وضاحت کرديتا ہے اس آيت ميں بھي خدا نے مشرکين سے بحث و استدلال کا ايک طريقہ تعليم ديا ہے کہ بات کہاں سے شروع کي جائے اور کہاں ختم کي جائے - مکہ کے بت پرست مشرکين چونکہ اللہ کو خالق ہستي مانتے تھے لہذا سواليہ انداز ميں گفتگو شروع ہوئي کہ تم ہي بتاؤ اس کائنات کا، جس کو اللہ نے خلق کيا ہے، مالک و مدبر کون ہوسکتا ہے؟ عالم ہستي کا مالک و مختار بھي وہي خالق ہستي ہے کيسے ممکن ہے خلق اللہ نے کہا ہو اور نظم و تدبير لکڑي اور پتھر کے بے جان و بے اختيار بتوں کے سپرد کردے جنہيں تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے ؟! جو خود اپنے فوائد اور نقصانات کے مالک نہيں ہيں وہ تم کو فائدہ يا نقصان کيا پہنچائيں گے - کيا يہ مشرکين جو خدا کو خالق مانتے ہيں کسي شبہ ميں پڑگئے ہيں اور اللہ کے بجائے اوروں کو معبود بناليا ہے؟! جبکہ اللہ خالق بھي ہے اور صاحب اقتدار قوي و قاہر بھي ہے -اور اب سورۂ رعد کي آيت سترہ ، خدا فرماتا ہے: 

انزل من السّماء ماء فسالت اوديۃ بقدرہا فاحتمل السّيل زبدارّابيا و ممّا يوقدون عليہ في النّار ابتغاء حليۃ اومتاع زبد مّثلہ کذلک يضرب اللہ الحقّ والباطل فامّا لزّبد فيذہب جفاء و امّا ما ينفع النّاس فيمکث في الارض کذلک يضرب اللہ الامثال -يعني( اللہ نے ہي ) آسمان سے پاني برسايا تو وسعت و گنجائش کے مطابق پہاڑي دروں ميں (تيزي سے ) بہنے لگے پھر سيلان آب کے سبب پاني اپني اوپري سطح پر آئے جھاگ کو اٹھائے بہتا رہا ، اور اس دھات سے بھي جھاگ اٹھتا ہے جو زيور يا کوئي اور چيز بنانے کے لئے آگ ميں ڈال کر پگھلائي جاتي ہے ، خدا حق و باطل کے اثبات کے لئے اسي طرح مثال ديتا ہے جھاگ پاني کے کنارے لگ کر ختم ہوجاتا ہے ليکن وہ چيز جو لوگوں کے لئے مفيد ہے زمين ميں باقي رہ جاتي ہے ، اللہ اسي طرح سے مثل بيان کرتا ہے -

 قرآن کريم کے معجزاتي کلام کي ايک خصوصيت يہ بھي ہے کہ وہ مثالوں اور مثلوں کے ذريعے گہرے مطالب آسان انداز ميں بيان کرديتا ہے حق و باطل کي شناخت کے لئے خدا نے يہي راہ اپنائي ہے لوگ آساني سے جس بات کو محسوس کرتے ، اپني آنکھوں سے ديکھتے اور شب و روز سروکار رکھتے ہيں ان ہي کو مقام مثال ميں لاکر اپني بات واضح کردي ہے حق کو آسمان سے برسنے والے پاني اور باطل کو دروں کے کناروں سے ٹکڑا کر پيدا ہونے والے جھاگ سے تشبيہ دي ہے کہ پاني جو سэشمۂ حيات ہے زمين اپنے اندر جذب کرليتي يا دريا ؤں  کي صورت ميں جاري کرديتي ہے تا کہ لوگ حسب ضرورت سالہا سال اس سے استفادہ کريں ليکن موجوں کے ٹکراؤ کے سبب جو جھاگ پيدا ہوتا ہے اس ميں کوئي دوام اور افاديت نہيں ہے پاني کے دوش پر کچھ عرصے کے لئے نمايان ہوتا ہے اور ہچکولے مارکر پاني اسے کنارے لگاديتا ہے اور اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے يا دھات کے کسي کارخانے ميں، جس وقت دھات کو آگ کي بھٹي ميں ڈالتے ہيں اس کے اندر کي ميل اور کيچڑ جھاگ کي صورت ميں اوپر آجاتا ہے اور ديکھتے ديکھتے ہي ختم ہوجاتا ہے خالص دھات زيورات يا کسي اور وسيلے کي شکل ميں باقي رہ جاتي ہے گويا باطل پاني يا دھات کے جھاگ کي مانند ختم ہوجانے والي چيز ہے اور اس کي کوئي حقيقت و حيثيت نہيں ہے ممکن ہے موجوں کے خروش يا آتشيں جوش کے سبب تھوڑي دير کے لئے نماياں ہوجائے مگر ماحول جيسے ہي پرسکون ہوگا، جوش سرد پڑےگا باطل کا وجود محو و نابود ہوجائے گا جبکہ حق ميں پاني کي طرح دوام ہے اور دھات کي طرح استحکام پايا جاتا ہے - اور حق کبھي فنا نہيں ہوتا اور اب زير بحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا ايک خلاصہ:  بيجا تعصب ، ضد اور ہٹ دھرمي دل کي آنکھوں کو اندھا کرديتي ہے اور انسان کسي نابينا کي طرح دنيا کے اندھيرے ميں بھٹکتا رہتا ہے آنکھوں کے نور يعني ديکھنے اور سمجھنے کي قوت سے محروم ہوجاتا ہے-  دنيا کي کوئي بھي مخلوق اپنے خالق سے بے نياز نہيں ہے اور نہ ہي اپنے فائدے اور ضرر پر اختيار رکھتي ہے لہذا عقل اس بات کي اجازت نہيں ديتي کہ خدائے قادر و قاہر کو چھوڑکر کسي ايسے کو اپنا معبود و پروردگار بنايا جائے جو خود محتاج ہے اور ضرر و فائدے پر اختيار نہيں رکھتا - الہي لطف و عنايت کي نہريں حق کي شکل ميں ہميشہ جاري و ساري رہتي ہيں اور ہر شخص اپنے ظرف ميں وسعت اور گنجائش کے مطابق اس نہر سے فائدہ اٹھاتا ہے جبکہ  باطل قوتيں حق سے ٹکراکر جھاگ پيدا کرتي ہيں ليکن جلد ہي ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے - تلخ و شيريں حوادث کي بھٹي ميں تپ کر جو لوگ صحيح و سالم ايمان کے ساتھ باہر نکل آتے ہيں وہي اللہ کے خالص بندے ہيں ورنہ عالم حالات ميں خالص کو ملاوٹي سے الگ کرنا اور حق و باطل ميں تميز کرنا آسان نہيں ہے -

بشکريہ آئي آر آئي بي


متعلقہ تحريريں:

سورۂ رعد کي آيت  نمبر 5-3 کي تفسير

سورۂ رعد کي آيت  نمبر 2-1 کي تفسير

سورۃ يوسف کي تفسير

سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 111- 110 کي تفسير

سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 109-107کي تفسير