• صارفین کی تعداد :
  • 2483
  • 7/22/2011
  • تاريخ :

سورهء يوسف (ع) کي يت نمبر 105-102 کي تفسير

بسم الله الرحمن الرحیم
يہ غيب کي خبروں ميں سے ہے جو ہم نے آپ پر وحي کي ہے آپ تو ان کے پاس نہيں تھے جس وقت ( يوسف ع) کے بھائيوں نے ) اپنے درميان ( مل کر) ايک بات ٹھان لي تھي اور وہ لوگ فريب و نيرنگ سے کام لے رہے تھے - " ذلک من انباء الغيب نوحيہ اليک و ما کنت لديہم اذا جمعوا امرہم و ہم يمکرون" ( يعني اے ہمارے نبي ص) يہ غيب کي خبروں ميں سے ہے جو ہم نے آپ پر وحي کي ہے آپ تو ان کے پاس نہيں تھے جس وقت ( يوسف ع کے بھائيوں نے ) اپنے درميان ( مل کر) ايک بات ٹھان لي تھي اور وہ لوگ فريب و نيرنگ سے کام لے رہے تھے -

خدا کے برگزيدہ نبي حضرت يوسف عليہ السلام کي داستان بيان کرنے کے بعد خداوند متعال اپنے حبيب اور آخري رسول حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو خطاب کرکے فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے اس داستان ميں بيان کيا ہے لوگوں کے درميان رائج و مشہور داستانوں کي بنياد پر يا کسي تحريف شدہ کتاب سے اقتباس کرکےبيان نہيں کيا ہے بلکہ ان تمام اطلاعات کا سرچشمہ ہم ہيں ، يہ باتيں " وحي" کے ذريعہ ہماري جانب سے ہي جبرئيل نے آپ تک پہنچائي ہيں ظاہر ہے خداوند عالم غيب کي باتوں سے بھي پوري طرح آگاہ ہے اور وہ تمام باتيں جو دوسروں سے پنہاں اور پوشيدہ ہيں خدا کے علم ميں ہيں اور اس نے اپنے علم کي بنياد پر ہي يہ باتيں اپنے نبي (ص) سے نقل کي ہيں ورنہ پيغمبر (ص) وہاں کہاں تھے جب يوسف (ع) کے بھائيوں نے ان کو يعقوب (ع) سے جدا کردينے کي سازش رچي تھي اور انہيں کنويں ميں ڈال آئے تھے اور يوسف (ع) کي قميص کسي جانور کے خون سے رنگين کرکے باپ کو فريب دينے کي کوشش کي تھي کہ يوسف (ع) کو بھيٹريا کھاگيا ہے البتہ آيت ميں " مرسل اعظم (ص) کےعالم الغيب ہونے سے انکار کرنا " مقصود نہيں ہے بلکہ قرآن مشرکين مکہ کے سامنے نبي اکرم (ص) کي نبوت کو ثابت کرنا چاہتا ہے کيونکہ سب جانتے ہيں آپ حضرت يوسف عليہ السلام کے زمانے ميں نہيں تھے اور نہ ہي کسي سے پڑھکر يا پوچھ کر يہ داستان بيان کي ہے يہ تمام معلومات وحي کے ذريعہ اللہ نے آپ کو فراہم کي ہيں اور يہ آپ کے سچے نبي ہونے کي دليل ہے چنانچہ اس کے بعد سورۂ يوسف (ع) کي آيات ايک سوتين اور چار ميں خدا فرماتا ہے : " و ما اکثر النّاس و لوحرصت بمؤمنين و ما تسئلہم عليہ من اجر ان ہو الّا ذکر للعالمين "  ( يعني اے ہمارے نبي ص) زيادہ تر لوگ ايمان لانے والے نہيں ہيں چاہے آپ کتنا ہي کيوں نہ چاہيں ، اور ( يہ اس وقت ہے کہ ) آپ ان لوگوں سے ( تبليغ رسالت کے عوض) کوئي اجر بھي نہيں چاہتے ہيں اور يہ ( قرآن) تو دنيا والوں کےلئے سوائے پند و نصيحت کے اور کچھ نہيں ہے -عزيزان محترم! حضرت يوسف عليہ السلام کي پوري داستان بيان کردينے کے بعد قرآن نے خود مرسل اعظم (ص) اور مسلمانوں کے درميان تعلقات کي نوعيت پر روشني ڈالي ہے ،کہ اے ہمارے رسول آپ کي پوري کوشش يہ ہوتي ہے کہ امت کے تمام لوگ ايمان سے آئيں اور ايمان کے اس مرتبہ پر پہنچ جائيں کہ جہاں توحيد خالص ہوجاتي ہے مگر يہ کيسے ممکن ہے؟ يہ بڑي ہي فضيلت و عظمت کي منزل ہے جو سب کو حاصل نہيں ہوتي کچھ ہي لوگ توحيد خالص پر فائز ہوتے ہيں -اولا" سب ايمان نہيں لاسکتے اور جو ايمان لاتے بھي ہيں وہ اس مقام پر نہيں پہنچ پاتے جو مخلصين کي منزل ہے - در اصل نبي اکرم(ص) اپني امت کو پوري بصيرت کے ساتھ خالص توحيد کي طرف دعوت ديتے تھے کہ ان کي امت کے مؤمنين ہر طرح کي ہلاکت اور مہلکوں سے نجات حاصل کرليں خدا ان کے پيرووں کي مدد کرے ويسے ہي جيسے خدا نے اپنے مخلص بندہ يوسف(ع) کي مدد کي ہے اور بلندي و سرافرازي عطا کي ہے مگر عام طور پر لوگ دنيا کے حريص اور زينت دنيا کے دلدادہ ہوتے ہيں اپني الہي فطرت سے منحرف ہوکر آيات خدا کا انکار کرديتے ہيں اسي لئے خدا فرماتا ہے اے ہمارے نبي آپ لاکھ چاہيں کہ سب ايمان والے بن جائيں مگر ايسا نہيں ہوگا اور پھر لوگوں کي بے حسي کي مزيد وضاحت کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ يہ اس وقت ہے کہ آپ ان لوگوں سے اپني تبليغ کے سلسلے ميں کوئي معاوضہ طلب نہيں کرتے کہ کوئي دولت کا لالچي يہ کہے ہم مالي نقصان اٹھاکر کيسے ايمان لائيں ؟ اور آخر ميں يہ بھي اعلان ہے کہ رسول اسلام (ص) کي رسالت اور ان پر نازل شدہ کتاب قرآن کريم کا کام صرف تذکر اور ياد دہاني ہے ان کا مقصد صرف اہل دنيا کي نصيحت و موعظت ہے اور کچھ نہيں ہے -اور اب سورۂ يوسف(ع) کي آيات ايک سو پانچ اور ايک سو چھ ارشاد ہوتا ہے : " وکايّن مّن ايہ في السّموات و الارض يمرّون عليہا و ہم عنہا معرضون و ما يومن اکثرہم باللہ الّا و ہم مّشرکون " اور ( اے ہمارے نبي ، آپ دلتنگ نہ ہوں ) آسمانوں اور زمين ميں بہت سي نشانياں ہيں جن سے بہت سے لوگ ( ايسے ہي منہ موڑ کر ايمان لائے بغير ) گزرجاتے ہيں اور ( خدا کا ) انکار کرتے رہتے ہيں اور ان ميں ( بہت سے لوگ) اللہ پر ايمان لانے کے بعد بھي مشرک ہي رہتے ہيں- عزيزان محترم! مرسل اعظم (ع) سے اپنے سلسلۂ گفتگو کو جاري رکھتے ہوئے ان آيات ميں بھي خدا نے فرمايا ہے کہ اے ہمارے نبي (ص) آپ ان کے ايمان نہ لانے سےغمگين و دلتنگ نہ ہوں کيونکہ دنيا ميں بہت سے ايسے لوگ ہيں جو زمين اور آسمانوں کے درميان اللہ کي بے شمار نشانياں ديکھتے ہيں ليکن اللہ پر ايمان لائے بغير ہي دنيا سے چلے جاتے ہيں کبھي يہ سوچنے کي توفيق نہيں ہوتي کہ گرد و پيش کي ہر چيز حتي خود اپنا وجود بھي ايک پيدا کرنے والے کے وجود پر دلالت کرتا ہے اور کائنات کا ہر نظام اللہ کے مدبر و ناظم اور قادر مطلق ہونے کي دليل ہے چنانچہ کائنات کے بارے ميں غور و فکر الہي معرفت ميں اضافے کا سبب بنتي ہے توجب اتني واضح نشانيوں کے لوگ منکر ہيں ارو سب کچھ ديکھ کر خدا پر ايمان نہيں لاتے تو اگر تبليغ رسول (ص) کے باوجود لوگ ايمان نہ لائيں تو تعجب کي کيا بات ہے اور پھر خدا فرماتاہے : يہي نہيں کہ بہت سے لوگ ايمان نہيں لائيں گے بلکہ جو ايمان لائيں گے ان کے يہاں بھي خالص توحيد کا فقدان ہوگا اور ايمان و شرک کے درميان ادني درجے کے مسلمان ہوں گے - خدا پر ايمان کے ساتھ ، عقيدہ ميں ضعف کے سبب زندگي کے امور ميں دوسروں کا سہارا ليں گے - خداپر ايمان کا دعوا کريں گے اور معمولي معمولي مصيبتوں سے اس طرح ڈريں گے کہ پورا بدن لرزتا نظر آئے گا - خدا کو روزي رساں کہيں گے اور ہر کس و ناکس کا در کھٹکھٹاتے نظر آئيں گے - کہتے ہيں کہ خدا سب کچھ ديکھ رہا ہے اور پھر بھي گناہ کرنے ميں کوئي ہچکچاہٹ محسوس نہيں کرتے چنانچہ آيت ميں ، ايمان لانے کے باوجود شرک ميں مبتلا ہونے کي جو بات کي گئي ہے اسي جہت سے ہے جس کو اصطلاح ميں شرک خفي سے تعبير کيا گيا ہے - فرزند رسول امام رضا عليہ السلام اس آيت کے سلسلے ميں فرماتے ہيں : شرک سے مراد بت پرستي نہيں ہے بلکہ غير خدا کي طرف توجہ اور توکل و بھروسہ کرنا ہے " اور اس طرح شرک کے سلسلے ميں امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے : شرک انسان کے اندر، رات کي تاريکي ميں سياہ پتھر پر رينگنے والي کالي چيونٹي سے بھي زيادہ مخفي انداز ميں، سرايت کرتا ہے -اور اب زير بحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا ايک خلاصہ :

انبياء عليہم السلام وحي کے ذريعہ غيب سے آشنا ہوتے ہيں ، رياضت يا سحر و جادو کے ذريعہ خيال بافياں نہيں کرتے - کسي بھي قسم کي سازش مکر و فريب اور دھوکا دھڑي چاہے کتنا ہي مخفيانہ طور پر انجام پائے خدا سے چھپي نہيں رہ سکتي و سب کچھ جانتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس سے باخبر کرديتا ہے - کبھي کبھي مصلحت کے تحت اللہ دشمنوں کي سازشيں برملا کرکے انہيں ذليل و رسوا بھي کرديتا ہے - مرسل اعظم(ص) لوگوں کي ہدايت و رہنمائي کے سلسلے ميں بہت ہي زيادہ اخلاص و محبت سے کام ليتے تھے يہ اور بات ہے لوگ بے مہري اور بے التفاطي سے کام ليتے تھے- لوگوں کا ايمان نہ لانا، انبياء (ع) کي طرف سے کوتاہي کي دليل نہيں ہے بلکہ امتوں کي سرکشي اور اپنے انتخاب و اختيار کے حق سے غلط فائدہ اٹھانے کي وجہ سے ہے -

دنيا کي تمام مخلوقات اللہ کي نشاني ہيں اور اس کے اقتدار و عظمت کي دليل ہيں مگر بے بصيرت متوجہ نہيں ہوتے -

غافل ممکن ہے کبھي ايمان لے آئے مگر حقيقت کو جان بوجھ کر انکار کرنے والے ہرگز ايمان نہيں لاتے اللہ ان کي توفيق کو سلب کرليتا ہے -

ايمان کے درجے ہيں ، توحيد خالص ، جس ميں کوئي نقص و عيب نہ ہو بہت ہي کم لوگوں کے نصيب ميں آتي ہے -

اسي طرح شرک کے بھي درجے ہيں بت پرستي کھلا شرک ہے ليکن خدا کے سوا دوسروں پر اعتماد و بھروسہ کرنا شرک خفي کے زمرہ ميں آتا ہے -

بشکريہ آئي آر آئي بي


متعلقہ تحريريں:

سورهء يوسف (ع) کي آيت نمبر 88-91  کي تفسير

سورۂ يوسف (ع) کي آيت نمبر  87 - 85 کي تفسير

سورۂ يوسف ( ع) کي آيت نمبر 84 - 80 کي تفسير

زير بحث آيات 76 تا 79 سے جو سبق ملتے ہيں ان کا خلاصہ

سورۂ يوسف ( ع) کي آيت نمبر 78-79  کي تفسير