• صارفین کی تعداد :
  • 3703
  • 6/19/2011
  • تاريخ :

بے پردہ معاشرے ميں عورتوں کي مشکلات

حجاب والي خاتون

مغرب کا مشہور جامعہ شناس” آنتوني گيدنز “ معاشرے ميں رہنے والي خواتين کي مشکلات کو بے پردگي کي علت شمار کرتا ہے ، ہم اس مقام پر بعض نکات کي طرف اشارہ کريں گے۔

اس معاشرے ميں عورتوں کي واضح ترين تکليف جنسي تکليف ہے ۔ جنسي تکليف جو کام کرنے کي جگہ اقتدار يا قدرت کے استعمال سے عورت پر تحميل کي جاتي ہے ، ممکن ہے يہ مشکل اس وقت مزيد سخت ہو جائے جب کسي کام کرنے والي عورت سے يہ کہا جائے کہ يا جنسي عمل پر راضي ہو جائے يا کام چھوڑدے۔

اگر چہ ممکن ہے مرد نرمي کے ساتھ واقع ہونے والي جنسي مشکل کو نقصان دہ شمار نہ کريں ۔ ليکن غالبا تمام عورتيں اس کو ذلت و رسوائي سمجھتي ہيں، اور عام طور پر عورتوں سے اميد کي جاتي ہے کہ جنسي گفتگو يا اشارے يا نامطلوب قربت کو برداشت کرے اور اس کو کوئي اہميت نہ ديں۔

ظاہر ہے کہ مرد کاشرعي طريقے سے عورت کا حاصل کرنا اور اس سے قربت کرنا، غير شرعي طريقے سے الگ ہے، اس کا ايک تصور کرنا آسان نہيں ہے؛ جيسا کہ شخصي رپورٹ کي بنيا د يہ نتيجہ ديکھنے ميں آيا ہے کہ انگلينڈ ميں ہردس عورتوں ميں سات عورتيں اپنے کام کي زندگي ميں جنسي مشکلات سے دوچار رہوتي ہيں، جبکہ عملي طور جنسي تجاوز کا صحيح اندازا لگانا بہت دشوار ہے، اس لئے کہ بہت کم واقعات جنسي مشکلات کے پلس تک پہنچتے ہيں جنہيں درج کيا جاتا ہے، اور اصلي تعداد ممکن ہے اس رکورڈ کے پانچ برابر ہو ، بہر حال نتيجہ اندازے سے کہيں زيادہ ہوتا ہے .

ايک تحقيق کے مطابق لندن ميں  عورتوں نے اس بات کو آشکار کيا کہ ان ميں ہر چھ عورتوں ميں ايک عورت جنسي تجاوز کا شکار ہوئي ہے، اور باقي پانچ عورتوں ميں صرف ايک عورت اس بات پر قادر ہوئي کہ اس تجاوز کا مقابلہ کر سکے، اور تجاوز کے نصف حادثے يا عورت کے اپنے گھر ميں يا تجاوز کرنے والے کے گھر ميں پيش آئے ہيں ۔ اکثر وہ عورتيں جو جنسي تجاوز کا شکار ہوتي ہيں چاہتي ہيں کہ اس حادثہ کو اپنے ذہن سے نکال ديں ، يا اس کي شکايت کريں کہ جہاں ايک ذلت آميز طبي معاينہ اور پليس کي تحقيقات اور کورٹ جانے وغيرہ کي مشکلات سے دوچار ہونا ہوگا، جس کي اس ميں اب سکت نہيں ہوتي ہے ، اور ساتھ ساتھ کورٹ کے معاملاات غالبا بہت زيادہ وقت ليتے ہيں ممکن ہے کہ کورٹ، حادثے کے کچه مہينے کے بعد کوئي فيصلہ سنائے ، اور فيصلہ ممکن ہے پريشان کن ثابت ہو جائے، اور کورٹ کے واقعات ہميشہ علني ہوتے ہيں، کو رٹ ميں مظلوم ظالم کے رو برو ہوتا ہے ، ( جو خود ايک وحشت ناک منظر ہوتا ہے) اور اس کے علاوہ عام طور پرمرد تنھا گواہي کي بنياد پر مجرم قرار نہيں ديے جاتے اس کے لئے دوسرے محکم ثبوت در کار ہوتے ہيں،يا دوسرے مدارک جو دخول کو ثابت کرتے ہوں، تجاوز کرنے والے کي شناخت ، اس کے علاوہ يہ کہ حادثہ عورت کي مرضي کے بغير پيش آيا ہے ،ان تمام ثبوت کا فراہم کرنا ضروري ہوتا ہے۔

جاري ہے

تاليف :حجة الاسلام سيد محمد جواد بني سعيد ?


متعلقہ تحريريں :

پردے کي ضرورت پر عقلي دليل ( حصّہ دوّم )

پردے کي ضرورت پر عقلي دليل

زبردستي پردہ  کروانے کي وضاحت ( حصّہ چہارم )

 زبردستي پردہ  کروانے کي وضاحت ( حصّہ سوّم )

زبردستي پردہ  کروانے کي وضاحت (حصّہ دوّم)