• صارفین کی تعداد :
  • 2154
  • 6/18/2011
  • تاريخ :

کتاب و سنت کي روشني ميں اہل بيت عليہم السلام سياسي اور ديني مرجعيت

بسم الله الرحمن الرحيم

اہل تشيع «غدير» کي معروف و مشہور حديث سے سمجھتے ہيں کہ رسول خدا (ص) کے بعد سياسي مرجعيت امام علي (ع) کو منتقل ہوئي ہے. حديث غدير رسول اللہ (ص) کي حديث ہے اور احاديث متواترہ ميں سے ہے يا پھر کم از کم مستفيضہ حديث ہے جس کا صحيح سلسلہ سند اہل تسنن اور اہل تشيع کے منابع ميں مسلم اور مستند ہے.

شيعيان اہل بيت (ع) حديث ثقلين کي بنياد پر اصول اور فروع ميں اہل بيت (ع) کي ديني مرجعيت کا ادراک کرتے ہيں.

نيز آيت تطہير کي نزول کے بعد رسول اللہ (ص) سے وارد ہونے والي روايات صحيحہ سميت متعدد روايات ميں تصريح ہوئي ہے کہ آيت شريفہ ميں «اہل بيت» سے مراد فقط رسول خدا، علي، فاطمہ، حسن و حسين (عليہم السلام) ہيں. اور اللہ تعالي نے انہيں ہرقسم کي پليدي سے پاک کرديا ہے؛ جھوٹ عظيم ترين پليديوں ميں سے ہے؛ پس وہ اصول و فروع ميں جو بھي کہتے ہيں سچ ہے اور اپنے کلام ميں سچّے ہيں. عصمت کي اتني ہي مقدار – جھوٹ سے عصمت – ہے اس حقيقت کا ادراک کرنے کے لئے کافي ہے کہ رسول خدا (ص) کے بعد ديني اور سياسي مرجعيت اہل بيت رسول (ص) کو منتقل ہوئي ہے. [مگر وہ مجتہدين نہيں ہيں].

اہل بيت (ع) خود بيان کرتے ہيں کہ وہ مجتہدين کے زمرے ميں شامل نہيں ہيں؛ اور کتاب و سنت سے شرعي احکام کے استنباط کے لئے اجتہاد کے وسائل و ذرائع سے استفادہ نہيں کرتے، بلکہ وہ پيغمبر اکرم (ص) کے کلام کو سينہ بہ سينہ منتقل کرتے ہيں؛ پس اگر اصول و فروع ميں کسي موضوع کے لئے حکم جاري کريں تو يہ اجتہاد کي رو سے نہ ہوگي بلکہ ان کا حکم رسول اللہ (ص) کي سنت کي اصلي اور حقيقي ميراث پر مبني ہے وہي ميراث جو انہيں بغير کسي واسطے کے رسول اللہ (ص) سے ورثے ميں ملي ہے، اور چونکہ قرآن کريم ميں خداوند جلّ‏شأنہ نے ان کو جھوٹ کي پليدي سے مبرّا قرار ديا ہے لہذا کوئي بھي مسلمان ان کي باتوں کو جھٹلا نہيں سکتا.

ان تين نکتوں ميں شيعہ نقطہ نظر کي وضاحت ہوگئي اور آيت تطہير، حديث غدير اور حديث ثقلين کي دلالت بھي روشن اور صريح ہے. ان تينوں دلائل کے صدور و نزول کا مقصد اہل بيت (ع) کي ديني اور سياسي مرجعيت کا اثبات ہے اور اس ‎سلسلے ميں سينکڑوں کتابيں لکھي گئي ہيں اور ان کتابوں ميں شيعہ عقائد و آراء کو دلائل و براہين کے ہمراہ بيان کيا گيا ہے. يه کتابيں شائع بھي ہوئي ہيں اور دستياب بھي ہيں.

علاوه ازيں خواه جناب قرضاوي يه دلائل پڑھ کر قائل ہوں خواه قائل نہ ہوں؛ کتاب و سنت سے استفادہ کرتے ہوئے اہل بيت (ع) کي ديني اور سياسي مرجعيت کے اثبات کے لئے شيعيان اہل بيت (ع) کا استدلال علمي اصول اور شيووں پر استوار ہي جيسا کہ ديگر مجتہدين فتوا ديتے ہوئے اسي روش سے استفادہ کرتے ہيں، چاہے ديگر مجتہدين اس فتوے کو قبول کريں چاہے قبول نہ کريں؛ کيونکہ ديگر مجتہدين کي عدم قبوليت کا مطلب يہ نہيں ہے کہ اس مجتہد کا فتوي غير شرعي ہے اور دوسروں کي عدم قبوليت اسے کتاب و سنت کے دائرے سے خارج نہيں کرتي. کم از کم کہا جا سکتا ہے کہ اہل بيت (ع) کي ديني اور سياسي مرجعيت کے حوالے سے شيعہ استدلال اہل بيت (ع) کے اقوال سے مستند ہے اور اس استناد کے لئے مشہور اور معروف علمي اصول بروئے کار لائے گئے ہيں اور يہ اصول محض قرضاوي صاحب کے قائل نہ ہونے سے تبديل نہيں ہوتے.

اس وقت ميں استدلال و اثبات نہيں کرنا چاہتا بلکہ يادآوري اور تذکر کے عنوان سے بعض نکات ذکر کرتا ہوں:

فرقہ ناجيہ (نجات‌يافتہ فرقہ):

قرضاوي صاحب کيونکر اپنے لئے يہ کہنے کے حق کے قائل ہوئي ہيں کہ «صرف اہل سنت» فرقہ ناجيہ ہے جبکہ شيعيان اہل بيت (ع) کے لئے اس حق کے قائل نہيں ہيں؟ جبکہ شيعيان اہل بيت (ع) نے رسول اللہ (ص) کے کلام، بالفاظ ديگر سنت رسول (ص)، سے تمسک کيا ہے؛ اور تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اس کلام سے مراد اہل بيت (ع) ہيں. اہل تشيع نے حديث ثقلين سے استناد کيا ہے کو بخاري اور مسلم کے ہاں بھي صحيح بخاري اور سنن ترمدي ميں منقول ہے اور اس حديث ميں ديني اور مرجعيت کي اہل بيت (ع) کو منتقلي پر تصريح ہوئي ہے اور شيعيان اہل بيت (ع)، اہل بيت (ع) کي تعليمات سے تجاوز نہيں کرتے ?

کيا يہ صحيح ہے کہ جب کتاب و سنت کے ادراک کے سلسلے ميں ہمارے درميان اختلاف واقع ہؤا ہے تو ہم ايک دوسرے پر بدعت گذاري کي تہمت لگائيں؟

فرقہ ناجيہ سے مراد وہ فرقے کيوں نہيں ہيں جنہوں نے کتاب اور سنت سے استناد کيا ہے خواہ اجتہاد کي روش ميں فرق ہي کيوں نہ ہو؟ حالانکہ بدعت اور گمراہي اور ہلاکت سے مراد کتاب و سنت کي پيروي سے خروج اور ان سے روگرداني ہے. ليکن جو روش قرضاوي نے فرقہ ناجيہ کے اثبات کے لئے اپنائي ہے جس کے مطابق وہ دوسروں کي نفي کرتي ہيں؛ يہ بہت ہي بےجا روش ہے اور اس طرح کوئي بھي چيز کسي جگہ ٹھک نہيں سکے گي.

ان کا کہنا ہے: فرقہ ناجيہ والي حديث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت والجماعت کے سوا باقي تمام فرقے گمراہ اور ہلاک ہوئي ہيں کيونکہ فرقہ حقہ ايک ہي ہے اور متعدد نہيں ہيں!

اگر اہل سنت و الجماعت فرقہ ناجيہ ہيں – جيسا کہ قرضاوي صاحب نے دعوي کيا ہے –

پس ديگر تمام فرقے گمراہ، بدعت گذار اور ہلاکت پانے والے ہونگے اور ان ہي فرقوں ميں ايک شيعہ فرقہ ہے کيوں کہ بقول ان کے فرقہ ناجيہ کي حديث سے يہي ثابت ہوتا ہے.

گر ان کي يہ بات صحيح ہو تو يقيناً اس کي زد ميں ديگر سني فرقے بھي آئيں گے اور وہ بھي بدعت گذار اور گمراہ کہلائيں گے کيونکہ اہل سنت کے مختلف فرقے آپس ميں بھي اصول اور فروع کے لحاظ سے مختلف اور متفاوت ہيں.

اہل سنت فقہ اور اصول مذہب کے لحاظ سے ايک نہيں ہيں بلکہ متعدد ہيں اور ايک مذہب کے پيروکار نہيں ہيں.

اول يہ کہ جناب قرضاوي نے فروع کو کيوں مستثني قرار ديا ہے جبکہ خداوند متعال کے احکام فروع ميں متعدد نہيں ہيں جيسا کہ اصول ميں بھي حق ايک ہي ہے اور اہل سنت آپس ميں فروع کے لحاظ سے وسيع اختلافات رکھتے ہيں؟

دوئم يہ کہ وہ اصول ميں اہل سنت کے آپس کے اختلافات کو نظرانداز کرتے ہيں؟

چنانچہ بدعت اور بدعت گذاري کا مسئلہ اہل سنت کو بھي سرايت کرتا ہے اور شيعہ مکتب تک ہي محدود نہيں رہتا؟

حقيقت يہ ہے کہ مسئلہ ايسا نہيں ہے اور يہ درست نہيں ہے کہ اتنا واضح مسئلہ آپ کي نظروں سے مخفي رہے.

جو بھي – نص کي بنياد پر يا پھر اجتہاد کي بنياد پر – کتاب و سنت کا سہارا لے وہ نجات يافتہ فرقے کا فرد شمار ہوگا اور جو شخص کتاب و سنت کے دائرے سے نکل جائے گا اور کلّي يا جزئي طور پر کتاب و سنت سے روگرداني کرے گا وہ گمراہوں اور ہلاک شدہ لوگوں ميں شمار ہوگا. البتہ يہاں ہم نے اجتہاد کا جو ذکر کيا ہے يہ وہ اجتہاد ہے جو علمي بنيادوں پر استوار ہو اور علمي قواعد و ضوابط و اصول کے تحت انجام پائے نہ وہ اجتہاد جو ہوا و ہوس اور سياسي ضرورت کے تحت انجام پاتي ہے (جبکہ نہ تو قرآن ميں اس کي سند ہوتي ہے اور نہ ہي سنت ميں) جيسا کہ صدر اول کے خوارج اور زمانہ معاصر کے تکفيريوں کا شيوہ ہے اور وہ نفساني خواہشات يا پھر بعض دوسروں کے سياسي اہداف کے تحت خون مسلم حلال کرتے ہيں اور مسلمان کا خون غير حق بہانے کي حرمت پر دلالت کرنے والي حديث نبوي کو تنقيض کرتے ہيں جبکہ بغير کسي دليل کے مسلم کا قتل بھي حرمت کے زمرے ميں آتا ہے.

قرآن  ڈاٹ ال شيعہ


متعلقہ تحريريں:

شيعوں کے صفات ( حصّہ پنجم )

شيعوں کے صفات ( حصّہ چہارم )

شيعوں کے صفات ( حصّہ سوّم)

شيعوں کے صفات (حصّہ دوّم)

شيعوں کے صفات