• صارفین کی تعداد :
  • 8467
  • 3/6/2011
  • تاريخ :

عنصری

عنصری

استاد ابوالحسن بن احمد عنصری بلخ کے ایک تجارت پیشہ خاندان میں پیدا ہوا۔ ایک سفر میں سامان تجارت چوروں نے لوٹ لیا۔ اس کے بعد عنصری نے یہ پیشہ ترک کرکے علم وادب کی طرف توجہ دی۔ سلطان محمود کے بهائی ۔امیر نصر۔ کی وساطت سے سلطان کی بارگاه میں پہنچا۔ اپنی لیاقت، ذہانت، اور بدیہہ گوئی کی بدولت ملک الشعرا بنا جب تک محمود زنده رہا عنصری رزم و بزم میں اس کے ساته رہا اور اس نے محمود کو بڑی ہنرمندی سے اپنے قصیدوں میں پیش کیا ہے۔ بارگاه محمود میں عنصری قابل رشک مقام پر فائز تها۔ اس کے سونے چاندی کے برتنوں کا قصّہ تو کافی شہرت رکهتا ہے۔

استاد فروزانفر مرحوم نے بعض اعتبارات سے اسے فارسی کا عظیم ترین قصیده گو قرار دیا ہے۔ اس کا کلام ، الفاظ و تراکیب کے حسن استعمال کا بہترین نمونہ ہے۔

 اس کے قصیدوں میں منظر نگاری کے دلکش نمونے ملتے ہیں۔ قصائد کے علاوه عنصری نے شادبهر و عین‌الحیات، سرخ‌بت و خنگ‌ بت اور امق و عذرا کے نام سے مثنویاں بهی لکهیں لیکن عنصری کا بہت سا کلام  بدقسمتی سے ضائع ہوگیا۔ عنصری کا گم شده مثنوی وامق وعذرا کی دریافت کا فخر ڈاکٹر مولوی شفیع مرحوم کو نصیب ہوا۔ یہ مثنوی ان کے مقدمہ و حواشی کےساته  1968ء میں ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد لاہور سے شایع ہوئی ۔

ڈاکٹر محمد دبیر سیاقی کے اہتمام میں دیوان عنصری تہران سے شائع ہوچکا ہے۔

اس نے431 هج میں وفات پائی ہے۔

ترتیب و پیشکش : سید اسداللہ ارسلان


متعلقہ تحریریں:

جامی سرہ  السامی

نظامی گنجوی

حکیم سنائی

نیما یوشیج

امیر دولت شاہ