• صارفین کی تعداد :
  • 2055
  • 1/18/2011
  • تاريخ :

امامت کے عام معنی (حصّہ هفتم)

بسم الله الرحمن الرحیم

چنانچہ شیعہ حضرات تعین امام کے بارے میں نص کی ضرورت پر اس آیت سے استدلال کرتے ھیں کہ ارشاد قدرت ھے:

”اور تمھارا پروردگار جو چاہتا ھے پیدا کرتا ھے اور( جسے چاہتا ھے) منتخب کرتا ھے ۔“

کیونکہ یہ آیت واضح الفاظ میں دلالت کرتی ھے کہ دین وشریعت کے محافظ ونگھبان کی ذمہ داری خداوندعالم پر ھے، بندوں کو اس سلسلہ میں ذرابھی اختیار نھیں دیا، اور اس موضوع میں فقط وفقط خداوندعالم ھی کو اختیار ھے۔

 لیکن بعض لوگوں نے اس استدلال پر اعتراض کیا کہ اس آیت میں جس اختیار کی طرف اشارہ کیا گیاھے وہ صرف نبوت سے مخصوص ھے او راگر امامت کے بارے میں بھی کوئی یھی کھے تو اس کا یہ قول قابل قبول نھیں ھے۔

   لیکن جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیں کہ مذکورہ آیت کے صدر وذیل میں کوئی ایسا اشارہ نھیں ھے جس میں اختیار کو انبیاء  (ع) سے مخصوص کردیا جائے بلکہ آیت مطلق اختیار کی بات کررھی ھے اور کسی بھی طرح کی کوئی قید اورتاویل کو قبول کرنے کے لئے تیار نھیں ھے ، اور جیسا کہ ھم نے کھا کہ امامت وھی نبوت کا استمرار ھے، اور امامت، رسالت کومکمل کرنے والی ھے لہٰذا جب نبوت کے اختیار کا حق صرف خدا کو ھے توپھر امامت میں بھی اختیار صرف خداوندعالم کی ذات ھی کو هونا چاہئے۔

   اور حق بات تو یہ ھے کہ اگر روایات واحادیث کے ذریعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیت بھی ثابت نہ هو تو صرف عقل ھی اس وصیت کو ثابت کرنے کا حکم کرتی ھے کیونکہ ھم میں سے کوئی ایک بھی اس بات پر راضی نھیں هوگا کہ اگر موت قریب ھے تو اگرچہ مال ودولت اور اولاد کم هو ، کہ ان کے بارے میں وصیت نہ کریں بلکہ ھر انسان ایسے موقع پر کسی کو اپنا وصی بناتا ھے تاکہ وہ اس کے بعد اس کی اولاد اور مال و دولت کا خیال رکھے۔

تو کیا پھر وہ نبی اعظم  جو اتنی عظیم میراث (اسلام) کو چھوڑکر جا رھا هو تو کیا وہ اپنی اس میراث کا کسی کو وصی نھیں بنائے گا، تاکہ وہ اس کی محافظت کرے اور اس میں صحیح طریقہ سے تصرف کرسکے۔؟!

بشکریہ صادقین ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

امامت کے عام معنی

امامت کے عام معنی ( دوسرا حصّہ)

امامت کے عام معنی ( تیسرا حصّہ)

امامت، قرآن و حدیث کی روشنی میں

امام کا منصوب کیا جانا استبداد نہیں