• صارفین کی تعداد :
  • 2826
  • 12/19/2010
  • تاريخ :

سورۂ یوسف ( ع) کی آيت نمبر 76 کی تفسیر

بسم الله الرحمن الرحیم

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

 سورۂ یوسف ( ع) کی آيت چھیتر میں ارشاد ہوتا ہے :

فبدا باوعیتہم قبل وعاء اخیہ ثمّ استخر جہامن وّعاء اخیہ کذلک کدنا لیوسف ما کان لیاخذ اخاہ فی دین الملک الّا ان یّشاء اللہ نرفع درجات مّن نّشاء و فوق کلّ ذی علم علیم

( یعنی ملازمین نے ) ان کے بھائی ( بنیامین ) کے سامان سے پہلے ان لوگوں کے بار کا معائنہ کیا اور پھر ان کے بھائی کے سامان سے (گم شدہ ) پیالہ باہر نکالا ، اس طرح ہم نے یوسف (ع) کے لئے ایک حیلہ پیدا کر دیا ( ورنہ ) وہ [ یوسف ( ع ) ] مصر پر حکمراں قانون کے تحت اپنے بھائی ( بنیامین ) کو اپنے پاس نہیں روک سکتے تھے مگر یہ کہ خدا کو یہی منظور ہو ، ہم جس کے چاہیں درجات بلند کر دیں اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک دوسرا صاحب علم موجود ہے ۔

عزيزان محترم ! جناب یوسف علیہ السلام اپنے مادری بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک کر چاہتے تھے کہ اپنے والدین کو بھی مصر ک جانب ہجرت کرنے پر مجبور کر دیں تاکہ انہیں ان کا دیدار نصیب ہو جائے اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنا منصوبہ بنیامین کو بتا کر انہیں اپنا ہم نوا بنا لیا تھا چنانچہ جس وقت ان کے بھائیوں نے اونٹوں پر اپنے بار لاد کر کوچ کا ارادہ کیا سرکاری ملازمین نے اپنا سرکاری پیمانہ چرانے کا الزام لگا کر مسافرین کے سامان کی تلاشی لینا شروع کردی یوسف (ع) کے بھائیوں نے احتجاج کیا کہ تمہیں معلوم ہے ہم چور نہیں ہیں ہم اس سے پہلے بھی یہاں آ کر تمہارے مہمان رہ چکے ہیں حتی انہیں چونکہ یقین تھا کہ انہوں نے چوری نہیں کی ہے اس لئے چور کی سزا بھی سنا دی کہ ہمارے یہاں [ حضرت یعقوب ( ع) کے آئین میں ] جو چوری کرتا ہے اسے اس کے بدلے میں صاحب مال اپنا معاوضہ وصول کرنے کے لئے اپنے قبضے میں لے سکتا ہے اور چونکہ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت تھا لہذا آیت کے مطابق ان کے ملازمین نے پہلے تو دوسرے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی تاکہ انہیں شک نہ ہو اور پھر یوسف (ع) کے مادری بھائی بنیامین کے سامان سے شاہی پیمانہ برآمد کر لیا اور اس طرح جناب یوسف (ع) کا اپنے بھائی کو مصر میں روک لینے کا منصوبہ کارگر ہو گیا جس کے لئے خدا کہتا ہے کہ اگر خدا نہ چاہتا تو حیلہ کبھی کامیاب نہ ہوتا کیونکہ مصر کے شاہی نظام میں اس طرح کا کوئی قانون نہیں تھا مصری قانون کے مطابق وہ اپنے بھائی کو مصر میں نہیں روک سکتے تھے ۔بنیامین کے سامان سے پیالہ نکلا تو ان کے بھائیوں کے بیان کردہ قانون کے تحت یوسف (ع) نے بنیامین کو روک لیا اور بھائیوں کے پاس چوری کی اس سزا کو قبول کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا بہرحال آیت میں یوسف (ع) کے اس حیلے کو خدا نے خود اپنا حیلہ قرار دے کر یوسف (ع) کے درجات بلند کرنے کا اعلان کیا ہے کہ مصر میں یوسف (ع) کو جو مقام حاصل ہوا ہے الہی منصوبے کے تحت ہے اور اس علم کا نتیجہ ہے جو اللہ نے ان کو دیا ہے اور پھر دنیا کے علماء کو ایک نصیحت بھی کر دی کہ وہ کبھی اپنے علم و دانش پر غرور نہ کریں کیونکہ بلندی خدا عطا کرتا ہے اور ہر صاحب علم سے بالاتر جاننے والے موجود ہیں، خدائے علیم کے سامنے، کہ جس کا علم ذاتی ہے اور کوئی بھی علم میں اس سے برتر نہیں ہے، کسی بھی صاحب علم کو اکڑنا نہیں چاہئے ۔

بشکریہ آئی آر آئی بی


متعلقہ تحریریں:

سورۂ یوسف کی آیت نمبر 70 کی تفسیر

سورۂ یوسف کی آیت نمبر 69 کی تفسیر

سورۂ یوسف (ع) کی 68 ویں آیت کی تفسیر

سورۂ یوسف (ع) کی 67 ویں آیت کی تفسیر

سورۂ یوسف (ع) کی 66 ویں آیت کی تفسیر

اور اب سورۂ یوسف (ع) کی ( 62 تا 65 ) وین آيات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ

سورۂ یوسف ( ع ) کی 65 ویں آیت کی تفسیر

سورۂ یوسف ( ع ) کی 63، 64 ویں آیات کی تفسیر

سورۂ یوسف ( ع ) کی 62 ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ ( 61-56) ویں آیات کی تفسیر