• صارفین کی تعداد :
  • 2736
  • 12/18/2010
  • تاريخ :

سورۂ یوسف کی آیات   69 تا 75  سے حاصل سبق کا خلاصہ

قرآن

جھوٹ بولنا منع ہے لیکن ہر سچی بات ہر جگہ کہدینا لازم نہیں ہے ممکن ہے بعض جگہ خاموشی بہتر ہو اور کہیں توریے سے کام لینا پڑے ۔ چنانچہ جب تک حضرت یوسف (ع) نے لازم و مناسب نہ سمجھا اپنا تعارف بھائیوں سے نہیں کیا صرف اپنے مادری بھائی بنیامین کو حقیقت سے آگاہ کردیا تھا ۔

جب بھی کوئی نعمت ہاتھ آئے اپنی محرومیوں کو بھول جانا چاہئے ۔ اسی لئے یوسف علیہ السلام نے اپنا تعارف کرا کے بنیامین سے کہا تھا اب اپنے دوسرے بھائیوں کے ذریعے پہنچنے والی تلخیوں کو بھول جاؤ تمہارا بھائی یوسف تمہارے سامنے ہے اب اور کیا چاہئے !

کسی بلندتر مقصد کے لئے منصوبہ بندی کرتے وقت اگر کسی پر ظلم نہ ہو تو " حسن تدبیر " سے کام لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ البتہ اس کے لئے متعلقہ شخص کو اعتماد میں لے لینا چاہئے ۔

اپنے دوستوں اور ساتھیوں پر بھی نظر رکھنا چاہئے ممکن ہے ایک کی خلاف ورزی باعث بنے کہ تمام لوگ مشتبہہ ہو جائیں ۔

مفید و کارآمد افراد کی تشویق اور باہمی رقابت کے لئے انعام و غیرہ کا اعلان، ایک پسندیدہ چیز ہے اور قران و سنت کی رو سے جائز ہے البتہ انعام عصری تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے جیسا کہ قحط کو پیش نظر رکھ  کر حضرت یوسف (ع) نے اونٹ کا ایک بوجھ غلہ انعام میں معین کیا تھا ۔

چوری بھی زمین پر فساد پھیلانے کے مترادف ہے کیونکہ اس سے علاقے کے نظم میں خلل پڑتا ہے اور بعض وقت چوری تباہی کا باعث بنتی ہے ۔

بشکریہ اردو ریڈیو تہران

 


متعلقہ تحریریں:

سورۂ یوسف کی آیت نمبر 70 کی تفسیر

سورۂ یوسف کی آیت نمبر 69 کی تفسیر

سورۂ یوسف (ع) کی 68 ویں آیت کی تفسیر

سورۂ یوسف (ع) کی 67 ویں آیت کی تفسیر

سورۂ یوسف (ع) کی 66 ویں آیت کی تفسیر

اور اب سورۂ یوسف (ع) کی ( 62 تا 65 ) وین آيات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ

سورۂ یوسف ( ع ) کی 65 ویں آیت کی تفسیر

سورۂ یوسف ( ع ) کی 63، 64 ویں آیات کی تفسیر

سورۂ یوسف ( ع ) کی 62 ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ ( 61-56) ویں آیات کی تفسیر