• صارفین کی تعداد :
  • 2555
  • 10/9/2010
  • تاريخ :

انسان اورتوحید تک رسائی ( حصّہ دوّم )

الله

تصوریت (Idealism)

اس نظریے کا تعلق انسان کی روح و باطن اور نفس کے ساتھ اس کے رابطے سے ہے‘ اور اسی کو بنیاد اور اساس قرار دیتا ہے۔ اس نظریے کے تحت اگرچہ تعلق اور رابطہ وحدت کی راہ میں رکاوٹ کثرت کا موجب اور اجتماع کو نابود کر دیتا ہے۔ انسان کو نفسیاتی و روحانی طور پر تباہ کر دیتا ہے اور معاشرے کو مختلف گروہوں میں بانٹ دیتا ہے لیکن ہمیشہ جس سے تعلق پیدا کیا جاتا ہے اور رشتہ جوڑا جاتا ہے وہی تعلق پیدا کرنے والے کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے نہ کہ تعلق پیدا کرنے والا اپنے متعلق کی وحدت کو منقسم کرتا ہے۔ انسان کے ساتھ اشیاء کا تعلق (مثلاً مال و دولت‘ عورت اور مقام و منصب و غیرہ) روح انسانی اور انسانی معاشرے کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا موجب نہیں بنتا بلکہ اشیاء کے ساتھ انسان کا اندرونی اور قلبی رابطہ اور تعلق انسان کو اپنے سے بیگانہ بنانے اور اس کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ انسان کی "مالکیت" نے اسے اپنے معاشرے سے جدا کر دیا ہے۔ جو چیز انسان کی یکتائی کو اخلاقی اور اجتماعی لحاظ سے تقسیم کر دیتی ہے‘ وہ "میرا مال"، "میری عورت" اور میرا مقام و منصب" نہیں ہے بلکہ وہ مال‘ عورت اور مقام و منصب کی جدا جدا حیثیت اور ان چیزوں کی… میں… ہے۔

"میں" کے "ہم" میں بدلنے کے لئے انسان کے ساتھ اشیاء کا تعلق ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق ٹوٹنا چاہئے۔

انسان کو اشیاء کی قید سے رہا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی انسانی حقیقت کی طرف لوٹ آئے نہ کہ انسان کی قید سے اشیاء کو رہا کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کو معنوی و روحانی آزادی دیں‘ اشیاء کو آزاد اور رہا کرنے کا کیا فائدہ؟ انسان کو وحدت و اجتماعیت اور آزادی و نجات کی ضرورت ہے نہ کہ کسی "چیز" کی انسان کے لئے اجتماعی و اخلاقی توحید کی عامل تعلیم و تربیت خاص کر روحانی تعلیم و تربیت کے عوامل میں سے ہے نہ کہ اقتصادی عوامل کی مانند۔ انسان کا اندرونی ارتقاء اس کا عامل توحید ہے نہ کہ اس کا خارجی اور بیرونی نقص و عیب نہ یہ کہ اس سے مادیت کو چھین لیا جائے۔ انسان پہلے حیوان ہے پھر انسان۔

انسان بالطبع حیوان ہے اور بالاکتساب انسان۔ انسان‘ ایمان اور صحیح تعلیم و تربیت کے عوامل کے زیراثر اپنی پوشیدہ اور فطری انسانیت کو پا لیتا ہے جب تک انسان موثر روحانی عوامل کے تحت اپنی معنویت کو حاصل نہیں کر لیتا اور انسانی صورت میں نہیں آ جاتا اس وقت تک وہ حیوان بالطبع ہی رہتا ہے۔ یہاں پر روحوں اور جانوں کی وحدت و یگانگت کے امکان کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ اس بات کو مولانا روم نے یوں نظم بند کیا ہے:

جان حیوانی ندارد اتحاد

تو مجو این اتحاد از جان باد

گر خورد این نان‘ نگردد سیدآن

ورکشد بار این نگردد آن گران

بلکہ این شادی کند از مرگ آن

از حسد میرد چون بیند برگ آن

جان گرگان و سگان ازہم جدا است

متحد جانھای شیران خدا است

مومنان معدود لیک ایمان یکی

جسمشان محدود لیکن جان یکی

غیر فہم و جان کہ در گاو و خر است

آدمی را عقل و جانی دیگر است

وہ چراغ از حاضر آری در مکان

ھریکی باشد بہ صورت غیر آن

فرق نتوان کرد نور ھریکی

چون بہ نورش روی آری بی شکی

اطلب المعنی من القرآن قل

لانفرق بین احد من رسل

گر تو صد سیب و صد آبی بشمری

صد نما یہ یک شور چون بفشری

در معانی قسمت و اعداد نیست

در معانی تجزیہ و افراد نیست

مادے کو انسان کے اختراق و اجتماع کا عامل سمجھنا یعنی مادے کو یکجا کرنے سے انسان کا یکجا ہو جانا اور متفرق اور منقسم ہونے سے انسان کا متفرق اور منقسم ہونا اور مادے کو ایک ہو جانے سے انسان کا ایک ہو جانا اور اس اخلاقی و اجتماعی شخصیت کو پیداواری اور معاشی صورت حال کے تابع سمجھنا دراصل انسان کو نہ پہچاننے اور اصالت انسان اور اس کی قوت عقل اور ارادے پر ایمان نہ لانے کا نتیجہ اور مسلک انسانیت (Humanism) کا مخالف نظریہ ہے۔

اس کے علاوہ انسان سے مربوط اور متعلق اشیاء کا اس سے رابطہ ٹوٹنا ایک ناممکن امر ہے کیوں کہ اگر بالفرض مال و دولت کے سلسلے میں ایسا ہو بھی جائے تب بھی بیوی‘ بچوں اور خاندان کے سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟

کیا اس سلسلے میں اشتراکیت کو زیربحث لاتے ہوئے جنسی کمیونزم کا قائل ہوا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو پھر کیوں وہ ممالک مخصوص خاندانی نظام سے چمٹے ہوئے ہیں جو دولت و ثروت کے سلسلے میں کئی سال سے شخصی ملکیت کو کالعدم قرار دے چکے ہیں؟ اگر بالفرض خاندان کا مخصوص فطری نظام بھی اشتراکی ہو جائے تو مقام و منصب‘ شہرت اور اعزازات کے سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے‘ کیا انہیں بھی یکساں طور پر تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ لوگوں کی مخصوص بدنی و جسمانی صلاحیتوں نیز ان کی ذہنی و روحانی صلاحیتوں کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟

یہ وہ واقعات ہیں جو انسان کے وجود کا حصہ ہیں اور انہیں نہ تو اس سے جدا کیا جا سکتا ہے اور نہ برابر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

بشکریہ اسلام ان اردو ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

توحید صفاتی

 توحید افعالی

 خداشناسی (پہلا سبق)

خداشناسی (دوسرا سبق)

خداشناسی (تیسرا سبق)

خداشناسی (چوتھاسبق)

خداشناسی (پانچواں سبق)

خدا شناسی (چھٹا سبق)

قادر متعال کا وجود

عقیدۂ  توحید