• صارفین کی تعداد :
  • 3773
  • 6/20/2010
  • تاريخ :

دوستی کے اہم اصول

دوستی

ہمارے اور دوسروں کے درمیان رابطہ کی لکیر ہونی چاہئے، فاصلہ کی نہیں۔ جو چیز اس رابطہ کو وجود میں لاتی ہے اور رابطہ برقرار ہونے کے بعد اسے مضبوط و مستحکم بناتی ہے وہ  ہے دوسروں کے حقوق کو ماننا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا، لوگوں سے حق شناسانہ، متواضعانہ اور خیرخواہانہ اور میل جول اور باہمی بھائی چارہ کے ساتھ بہترین برتاؤ ۔

دینی تعلیمات میں ایسی بہت سی باتوں پر کافی زور دیا گیا ہے جو باہمی رابطہ کو مضبوط اور پائیدار بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔ انہیں میں سے بعض اہم ہدایات اس طرح ہیں:

۱۔ حسن ظن

دوسروں سے بدگمانی سے پرہیز کرنا اور ان سے حسن ظن رکھنا، آپسی روابط کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے ۔ باہمی بدگمانی تہمت، غیبت، بدگوئی اور بد خواہی کا باعث ہوتی ہے اور ایمان کو نیست و نابود کر دیتی ہے، انسان کو انسان کا دشمن بنا دیتی ہے ۔ رفتار و گفتار میں حسن ظن ان تمام خطرناک زہریلی چیزوں کا تریاق ہے ۔

یہاں تک کہ بہت سے ایسے موارد جہاں پر دوسروں کی باتیں اور حرکتیں ممکن ہے ہماری بدگمانی کا سبب ہوں وہاں پر بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کی بات اور عمل کو صحت پر حمل کریں اور اس کی کوئی دلیل تلاش کریں تاکہ بدگمانی میں مبتلا نہ ہونے پائیں۔ یہ حالت لوگوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرتی ہے اور زندگی کو مزید شیریں بنا دیتی ہے۔

۲۔ خوش کلامی

جو بات زبان پر آتی ہے وہ دوست آفریں بھی ہو سکتی ہے اور دشمن تراش بھی، باعث محبوبیت بھی ہو سکتی ہے اور سبب نفرت و بیزاری بھی، وحدت و یکجہتی بھی پیدا کر سکتی ہے اور اختلاف و تفرقہ بھی ڈال سکتی ہے، کسی مومن کو خوش بھی کر سکتی ہے اور اسے رنجیدہ بھی کر سکتی ہے۔

روایات میں طیب الکلام کے عنوان سے جو کچھ آیا ہے وہ کلام کا مثبت اور کارساز پہلو ہے اور ہر طرح کی بدگوئی، تند اور مردم آزاری سے پرہیز کرنا ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے نیک کلامی کو حسن خلق کی ایک سرحد فرمایاہے اور ایک دوسری حدیث میں مومن پر مومن کے حقوق میں سے ایک حق یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اپنے برادر مومن سے پسندیدہ اور اچھی گفتگو کرے۔

کتنے ایسے دل ہیں جو بری اور ناسنجیدہ باتوں سے ٹوٹ گئے اور کتنے ایسے دل ہیں جو پسندیدہ اور خوش کلامی کی وجہ سے آپس میں جڑ گئے اور ان میں الفت و محبت پیدا ہو گئی ہے۔

۳۔ احوال پرسی و عیادت

دوسروں کی احوال پرسی بالخصوص بیماروں کی عیادت، الفت و محبت پیدا کرنے اور روابط کو مضبوط بنانے کا بہترین ذریعہ اور مسلمانوں کے اجتماعی و سماجی حقوق میں سے ایک اہم حق ہے۔ البتہ عیادت کے متعدد آداب و احکام ہیں منجملہ: مریض کے پاس کم بیٹھنا، اس سے امیدوار کرنے والی باتیں کرنا، اسے دلداری دینا، اسے تندرستی اور سلامتی کی خوشخبری دینا، اس سے طلب دعا کرنا وغیرہ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ: ان یسلم علیہ اذا لقیہ و یعودہ اذا مرض۔جب اس سے ملاقات کرے تو اسے سلام کرے اور جب وہ مریض ہو تو اس کی عیادت کو جائے۔

﴿بحارالانوار ، ج۱۷،ص۷۴۲﴾

روایات میں آیا ہے کہ جو شخص کسی مومن سے ملاقات کے لئے جاتا ہے تو گویا وہ خدا سے ملاقات کرتا ہے اور اس کا ثواب خدا کے ذمہ ہے اور مومنین کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ باحیات ہوں تو ان سے ملاقات کو جاؤ اور جب انتقال کر جائیں تو ان کی قبروں کی زیارت کو جاؤ۔

الحسنین ڈا ٹ کام

جاری ہے


متعلقہ تحریریں:

جواں نسل اصلاح اور ہدایت کی روشن قندیل بنے

خودسازی