• صارفین کی تعداد :
  • 4369
  • 5/2/2010
  • تاريخ :

اصالتِ روح (حصّہ پنجم)

استاد شہید مرتضیٰ مطہری

اس منزل پر پہنچنے كے بعد اس بحث كو انسانی روح اور اس كے ظواہر پر معمول كے مطابق منحصر كرنا ضروری نہیں، ہم اسے نچلے درجے سے شروع كركے زندگی كے تمام آثار و ظواہر میں پھیلاؤ دے سكتے ہیں۔

فكری اور حیاتی آثار كے درمیان اگر كسی فرق كے قائل ہوسكے ہیں تو وہ صرف تجرد اور عدم تجرد كی بنا پر جو فی الحال مورد بحث نہیں، فی الحال زیر بحث مسئلہ یہ ہے كہ:

"روح مادہ كی خاصیت و اثر نہیں، بلكہ وہ جوہری كمال ہے جو مادّے میں ظاہر ہو كر مادّے سے كہیں زیادہ اور متنوع آثار كی تشكیل كرتی ہے۔"

یقیناً یہ خصوصیت صرف انسان و حیوان ہی میں نہیں پائی جاتی بلكہ ہر ذی حیات میں ہوتی ہے۔

حیات اور زندگی كی حقیقت كچھ بھی سہی، اس كی ماہیت و كنہ كا ادراك ہمارے لئے خواہ ممكن ہو یا نہ ہو۔ یہ بات قطعی اور ناقابل تردید ہے كہ وہ ذی حیات موجودات جنہیں ہم حیوان و نباتات كے نام سے جانتے ہیں، ان میں ایك قسم كی فعالیت ہوتی ہے جو دوسری بے جان اور مردہ اشیاء میں نہیں ہوتی۔

اس گروہ كے موجودات میں "ذاتی تحفّظ" كی خاصیت پائی جاتی ہے اور وہ خود كو ماحول كے اثرات سے محفوظ ركھتے ہیں، یعنی (جاندار) ذی روح موجودات جس ماحول میں رہتے ہیں، اس كی مناسبت سے اپنے داخلی انتظامات و قویٰ كو اس طرح تیار ركھتے ہیں كہ اس فضا میں جدوجہد كركے اپنی بقا كو محفوظ ركھ كر اس سے مستفید ہوسكیں۔

جاندار موجود میں "ماحول كے ساتھ ہم آہنگ ہونے" كی خاصیت ہوتی ہے۔ جو داخلی فعالیت پر مبنی ہے، بے جان چیزوں كو یہ خاصیت ہرگز میسر نہیں ہوتی، اگر كوئی بے جان چیز ایسی فضایا ایسے ماحول میں قرار پائے جو اس كی تباہی كا باعث ہو، تو وہ اپنی بقا كو محفوظ ركھنےكے لئے كسی قسم كی كوشش نہیں كرتی۔

جاندار موجود میں "عادت" كی خصوصیت پائی جاتی ہے، مثلاً اگر كوئی جاندار نامساعد ماحول اور ناموافق فضا كا شكار ہوتا ہے تو شروع میں اسے سخت ناگوار گذرتا ہے اور وہ بہت بے چین ہوتا ہے۔ لیكن رفتہ رفتہ اسی فضا كا عادی ہوجاتا ہے اور اس میں امن و امان محسوس كرنے لگتا ہے۔ یہ مان و امان اپنی داخلی فعالیت اور خاصیتِ انطباق كے نتیجہ میں پیدا كرتا ہے اگر كوئی پودا، یا جانور كا بدن، یہاں تك كہ جسم كا كوئی بھی عضو اس ناہموار ماحول (وفضا) میں آجائے، جو اس كی حیات و بقا كے لئے باعث نقص و خطر ہو، تو رفتہ رفتہ وہ اپنے تئیں اتنا تیار و مستعد بنالیتا ہے كہ اس ماحول میں رہتے ہوئے ممكن خطرے سے نپٹ سكے۔ انسان كا ہاتھ اگر چہ نرم و نازك ہے اور پہلی بار كسی بھاری پتھر یا بوجھ كی تاب نہیں لاتا، لیكن رفتہ رفتہ یہی ہاتھ اس بوجھ كا عادی ہوجاتا ہے، یعنی ایك داخلی طاقت اس كی بناوٹ میں اس بوجھ كی مناسبت سے تغیر و تبدیلی لاتی ہے، تاكہ نئے عوامل كے سامنے ڈٹ كر مقابلہ كرسكے۔

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری

مترجم: خادم حسین

(تنظیم و پیشكش گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)


متعلقہ تحریریں :

اصالتِ روح (حصّہ چهارم)

انسان کمال طلب ھے