• صارفین کی تعداد :
  • 3454
  • 3/9/2010
  • تاريخ :

لڑكیوں كی تربیت (حصّہ هفتم)

مسلم لڑكیاں

 

لڑكیوں كی تربیت ( حصّہ چهارم )

لڑكیوں كی تربیت ( حصّہ پنجم )

لڑكیوں كی تربیت ( حصّہ ششم )

آج تمام لوگوں كے لئے، معاشروں كے اخلاقی فسادات، تماماً قابل دید ہے كہ تاریخ بشریت میں ایسا فساد كبھی نہیں دیكھا گیا ہے ۔ اگر انسان كی حیات اور ترقی، شہوت كے دلدل میں پھسنا ہی ہے؛ تو ایك ایسی طرز حیات منتخب كرنا چاہئے جو كہ تمام بڑے انسانی فطریات جیسے ناموس كے بارے میں غیرت ركھنا اور شرف و عفت و  پاكدامنی كو دوست ركھنا، ان سب كو ختم كر دینا چاہئے۔

اگر انسان كی خلقت جانوروں كی طرح اور ان جیسی شرائط كے ساتھ ہوتی تو ظاہر سی بات ہے كہ جانوروں كی طرح زندگی گذارتا لیكن انسان، انسان خلق ہوا ہے ۔ وہ اس كے باوجود كہ شہوت كو اپنے اندر محسوس كرتا ہے ۔ لیكن اس كے ساتھ ساتھ كچھ معنوی برتریاں اپنے اندر دیكھتا ہے كہ قطعاً جن سے جانور محروم ہے۔ جو لوگ بیحیائی كو مباح تصور كرتے ہیں بہكانے والے بہانوں كے ذریعے چاہتے ہیں كہ حقیقتوں كو پردہ كے نیچے چھپائے ركھیں اور تصور كرتے ہیں كہ عورتون كی عفت كا مطلب ان كا محدود كرنا ہے ۔ كہنا چاہئے: كیا عورتوں كا اپنی طبیعت كی مناسبت سے ظریف ذمہ دار یوں میں مشغول ہونا، ان كا محدود كرنا ؟ تو اس صورت میں چاہئے كہ جو بھی اپنی ذمہ داریاں پر عمل كرتا ہے، محدود ہے اور تنگنی میں ہے۔

لیكن عورت كے استقلال كا مسئلہ ۔ ایك طرح سے۔ اس بات كے خلاف ہے كہ وہ ایك مرد كی زوجہ ہو، اس لئے كہ مرد اور عورت كے درمیان كچھ ایسے التزام اور پابندیاں متقابلاً موجود ہیں جو كہ ان كے استقلال كی مخالفت كرتے ہیں۔ لیكن چونكہ لكھنے والے اور قصہ گو افراد محبت اور عشق كے علاوہ اور مرد اور عورت كی خیانت كے قصوں كے علاوہ كوئی اور بیان ان كے پاس نہیں ہے، اس استقلال كی عورتوں كو لالچ دیتے ہیں تاكہ اس كو میاں بیوی اور زوجیت كے مابین التزامات اور تعہدات سے كا درج كر دیں ۔

بعض لوگ كہتے ہیں كہ عورتوں كو مادی فعالیت اور وسائل زندگی كے حصول سے محروم نہیں ہو نا چاہئے ۔ اگر چہ ہم یہ جانتے ہیں كہ اسلام نے عورت كو مالی استقلال دیا ہے لیكن ان لوگوں كے جواب میں كہہ سكتے ہیں كہ عورت، شادی كے ذریعہ متعلق اسلام میں ۔ اپنی زندگی كے خرچ كو شوہر كے وسیلہ سے چلا سكتی ہے اور چونكہ خدا نے عورتوں كی تعداد كو  تھوڑے سے فرق كے ساتھ۔ مردوں كی تعداد كے برابر قرار دیا ہے، تو عورت اگر حد سے زیادہ آزد ہو اور مردوں سے معاشرت كرتی رہے، تو وہ زندگی اور دانہ پانی سے محروم ہو جائے گی، اس لئے كہ یہ عمل، غیر مستقیم طریقے سے، عزوبت كو رواج دیتی ہے، اور عزوبت كا رواج معاشرے میں عورتوں كا ایك گروہ وجود میں لائے گا كہ جن كے پاس زندگی كا خرچ نہیں ہے۔ لہٰذ وہ مبور ہو جائیں گی كہ مردوں كے ساتھ ساری امور میں تعاون كریں۔ اور ان كا مردون كے ساتھ ساتھ رہنا متعاقبا عزوبت كو ایجاد كرنے كے عوامل میں سے ہے، اور یہ نكتہ كسی سے چھپا ہو انہیں ہے ۔ ایسی صورت میں عورت طاقت گھٹانے والے كام كو انجام دیتے ہوئے اپنے ظرافت اور عورت كی عزت كو كھو دے گی اس لئے كہ عورت دكان چلا نے اور سامان اٹھانے اور ڈڑائیور بننے كے لئے پیدا نہیں كی گئی ہے ۔ بلكہ پیدا كی گئی ہے تاكہ اپنے شور كے لئے ایك اچھی بیوی اور گھر میں بچوں كی تربیت دینے والے ماں بنے ۔ اور گھر اگر ایك ناچیز چھونپڑی بھی ہو تو عورت كے لئے ایك وسیع محل كی حیثیت ركھتی ہے ۔ وہ گھر كے اندر بہتر اپنے امتیازات كی حفاظت كر سكتی نہ كہ تب جب وہ سامان اٹھانے والی ہو یا گاڑی ڈرائیور ہو۔

تو عورت اپنی مناسبت سے جو وظائف ہیں جیسے كہ بچوں كی پرورش اور داخل حوائج كو پورا كرنا اور ایسے معاشرتی مسائل میں شركت كرنا جسے اسلام نے تجویز كیا ہے ۔ ان كے انجام دے كر بہتر اپنی حثیت كی حفاظت كر سكتی ہے ۔

ہمیں بلند آواز سے كہنا چاہئے كہ انسانی فطرت ایك عجیب و غریب مھلكہ میں  پڑچكی ہے اس لئے كہ حدود و نوامیس الٰہی سے كوسوں دور ہو چكی ہے ۔ اور جلد ہی و تمدن جو كہ بہت زمانہ بیتنے كے بعد بشر كی انتھا كوششوں سے بنا ہے، متلاشی ہو جائے گا۔ (من یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ)

جو حدود خداوندی سے گذر جائے، اس نے اپنے آپ پر ظلم كیا ہے ۔

                                                                                                                                                                ختم شد.

ڈاكٹر سید محمد باقر حجتی

مترجم: زہرا حیدری

(گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)