• صارفین کی تعداد :
  • 3069
  • 1/26/2010
  • تاريخ :

حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) (حصّہ هفتم)

بسم الله الرحمن الرحیم

حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام)

حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) ( حصّہ دوّم )

حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) ( حصّہ سوّم )

حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) ( حصّہ چهارم )

حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) (حصّہ پنجم)

حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) (حصّہ ششم)

ليكن قرآن كى دوسرى آيات نشاندہى كرتى ہيں كہ ابراہيم عليہ السلام نے اپنى آخرى عمر ميں خانہ كعبہ كى تعمير كے بعد اپنے باپ كے لئے طلب مغفرت كى ہے(البتہ ان آيات ميں جيسا كہ آئندہ بيان ہوگا، باپ سے''اب''كو تعبير نہيں كيا بلكہ''والد''كے ساتھ تعبير كيا ہے جو صراحت كے ساتھ باپ كے مفہوم كو ادا كرتا ہے)_

جيسا كہ قرآن ميں ہے:

''حمدوثنا اس خدا كے لئے ہے كہ جس نے مجھے بڑھاپے ميں اسماعيل اور اسحاق عطا كيے ،ميرا پروردگار دعائوں كا قبول كرنے والا ہے، اے پروردگار مجھے ،ميرے ماں باپ اور مومنين كو قيامت كے دن بخش دے ''_ 

( سورہ ابراہيم آيت39و41)

سورہ ابراہيم كى اس آيت كو سورہ توبہ كى آيت كے ساتھ ملانے سے جو مسلمانوں كو مشركين كےلئے استغفار كرنے سے منع كرتى ہے اور ابراہيم كو بھى ايسے كام سے سوائے ايك مدت محدود كے وہ بھى صرف ايك مقدس مقصدوہدف كے لئے روكتى ہے، اچھى طرح معلوم ہوجاتاہے كہ زيربحث قرآنى آيت ميں ''اب''سے مراد باپ نہيں ہے بلكہ چچايانانا يا كوئي اور اسى قسم كارشتہ ہے دوسرے لفظوں ميں '' والد'' باپ كے معنى ميں صريح ہے جب كہ'' اب'' ميں صراحت نہيں پائي جاتى _

قرآن كى آيات ميں لفظ'' اب'' ايك مقام پرچچا كے لئے بھى استعمال ہوا ہے مثلا

سورہ بقرہ آيت133:

يعقوب (ع) كے بيٹوں نے اس سے كہا ہم تيرے خدا اور تيرے آباء ابراہيم واسماعيل واسحاق كے خدائے يكتا كى پرستش كرتے ہيں_

ہم يہ بات اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ اسماعيل (ع) يعقوب (ع) كے چچا تھے باپ نہيں تھے _

مختلف اسلامى روايات سے بھى يہ بات معلوم ہوتى ہے ،پيغمبر اكرم (ص) كى ايك مشہور حديث ميں آنحضرت(ص) سے منقول ہے:

''خداوند تعالى مجھے ہميشہ پاك آبائو اجداد كے صلب سے پاك مائوں كے رحم ميں منتقل كرتارہا اور اس نے مجھے كبھى زمانہ جاہليت كى آلود گيوں اور گندگيوں ميں آلودہ نہيں كيا ''_

اسمانوں ميں توحيد كے دلائل

 

اس سر زنش اور ملامت كے بعد جو ابراہيم عليہ السلام بتوں كى كرتے تھے ،اور اس دعوت كے بعد جو اپ نے ازر كو بت پرستى كو ترك كرنے كے لئے كى تھى يہاںخدا ابراہيم عليہ السلام كے بت پرستوں كے مختلف گروہوں كے ساتھ منطقى مقابلوں كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ان كے واضح عقلى استدلالات كے اس ميں شك نہيں ہے كہ زمانہ جاہليت كى واضح ترين آلودگى شرك وبت پرستى ہے اور جنہوں نے اسے آلودگى كوزنا ميں منحصر سمجھا ہے ان كے پاس اپنے قول پر كوئي دليل موجود نہيں ہے خصوصا جبكہ قرآن كہتا ہے: ''مشركين گندگى ميں آلودہ اور ناپاك ہيں''_

(سورہ توبہ ايت 28)

طبرى جوعلماے اہل سنت ميںسے ہے اپنى تفسير جامع البيان ميں مشہور مجاہد سے نقل كرتا ہے _وہ صراحت كے ساتھ يہ كہتا ہے كہ ازر ابراہيم عليہ السلام كا باپ نہيں تھا_

اہل سنت كا ايك دوسرا مفسر الوسى اپنى تفسير روح المعانى ميں مندرجہ ذيل قرآنى گفتگو ميں كہتا ہے كہ جو لوگ يہ كہتے ہيں كہ يہ عقيدہ كہ ازر، ابراہيم عليہ السلام كا باپ نہيں تھا شيعوں سے مخصوص ہے ان كى كم اطلاعى كى وجہ سے ہے كيونكہ بہت سے علماء (اہل سنت) بھى اسى بات كا عقيدہ ركھتے ہيں كہ ازر ابراہيم عليہ السلام كا چچا تھا_

''سيوطي''مشہور سنى عالم كتاب ''مسالك الحنفاء'' ميں فخر الدين رازى كى كتاب ''اسرارالتنزيل''سے نقل كرتا ہے كہ پيغمبر اسلام (ص) كے ماں باپ اور اجداد كبھى بھى مشرك نہيں تھے اور اس حديث سے جو ہم اوپر پيغمبر اكرم (ص) سے نقل كر چكے ہيں استدلال كيا ہے ،اس كے بعد سيوطى خود اضافہ كرتے ہوئے كہتا ہے : ہم اس حقيقت كو دوطرح كى اسلامى روايات سے ثابت كر سكتے ہيں :

پہلى قسم كى روايات تو وہ ہيں كہ جو يہ كہتى ہيں كہ پيغمبر كے اباء واجداد حضرت ادم عليہ السلام تك ہر ايك اپنے زمانہ كا بہترين فرد تھا (ان احاديث كو''صحيح بخاري''اور ''دلائل النبوة''سے بيہقى وغيرہ نے نقل كيا ہے)_

اور دوسرى قسم كى روايات وہ ہيں جو يہ كہتى ہيں كہ ہر زمانے ميں موحد و خدا پرست افراد موجود رہے ہيں ،ان دونوں قسم كى روايت كو باہم ملانے سے ثابت ہوجاتا ہے كہ اجداد پيغمبر (ص) كہ جن ميں سے ايك ابراہيم (ع) كے باپ بھى ہيں يقناً موحد تھے.

طريق سے اصل توحيد كو ثابت كر نے كى كيفيت بيان كرتا ہے _

قرآن پہلے كہتا ہے :''جس طرح ہم نے ابراہيم عليہ السلام كو بت پرستى كے نقصانات سے اگاہ كيا اسى طرح ہم نے اس كے لئے تمام اسمانوں اور زمين پر پرودگار كى مالكيت مطلقہ اور تسلط كى نشاندہى كي''_ (1)

اس ميں شك نہيں ہے كہ ابراہيم عليہ السلام خدا كى يگانگيت كا استدلال و فطرى يقين ركھتے تھے،ليكن اسرار آفرينش كے مطالعہ سے يہ يقين درجہ كمال كو پہنچ گيا ،جيسا كہ وہ قيامت اور معاد كا يقين ركھتے تھے ،ليكن سربريدہ پرندوں كے زندہ كرنے كے مشاہدہ سے ان كاايمان''عين اليقين''كے مرحلہ كو پہنچ گيا _

اس كے بعد ميں اس موضوع كو تفصيلى طور پر بيان كيا ہے جو ستاروں اور افتاب كے طلوع و غروب سے ابراہيم عليہ السلام كے استدلال كو ان كے خدا نہ ہونے پر واضح كرتا ہے _

پہلے ارشاد ہوتا ہے:''جب رات كے تاريك پردے نے سارے عالم كو چھپا ليا تو ان كى آنكھوں كے سامنے ايك ستارہ ظاہر ہوا ،ابراہيم عليہ السلام نے پكا ر كر كہا كہ كيا يہ ميرا خدا ہے ؟ليكن جب وہ غروب ہو گيا تو انھوں نے پورے يقين كے ساتھ كہا كہ ميں ہرگز ہرگز غروب ہوجانے والوں كو پسند نہيں كرتا اور انھيں عبوديت و ربوبيت كے لائق نہيں سمجھتا''_ (2)

انھوں نے دوبارہ اپنى انكھيں صفحہ اسمان پر گاڑديں ،اس دفعہ چاند كى چاندى جيسى ٹكيہ وسيع اور دل پذير روشنى كے ساتھ صفحہ اسمان پر ظاہر ہوئي،جب چاند كو ديكھا تو ابراہيم عليہ السلام نے پكار كر كہا كہ كيا يہ ہے ميرا پروردگار ؟ليكن اخر كار چاند كا انجام بھى اس ستارے جيسا ہى ہوااور اس نے بھى اپنا چہرہ پر دہ افق ميں چھپا ليا ،تو حقيقت كے متلاشى ابراہيم عليہ السلام نے كہا كہ اگر ميرا پروردگار مجھے اپنى طرف رہنمائي نہ كرے تو ميں گمراہوں كى صف ميں جا كھڑا ہو ں گا_ (3)

اس وقت رات اخر كو پہنچ چكى تھى اور اپنے تاريك پردوں كو سميٹ كر اسمان كے منظر سے بھاگ رہى تھى ،افتاب نے افق مشرق سے سر نكالا اور اپنى زيبا اور لطيف نور كو زر بفت كے ايك ٹكڑے كى طرح دشت و  كوہ و بيابان پر پھيلا ديا،جس وقت ابراہيم عليہ السلام كى حقيقت بين نظر اس كے خيرہ كرنے والے نور پر پڑى تو پكار كر كہا :كيا ميرا خدا يہ ہے ؟جو سب سے بڑا ہے اور سب سے زيادہ روشن ہے ،ليكن سورج كے غروب ہوجانے اور افتاب كى ٹكيہ كے ہيولائے شب كے منہ ميں چلے جانے سے ابراہيم عليہ السلام نے اپنى اخرى بات ادا كى ،اور كہا:''اے گروہ (قوم) ميں ان تمام بناوٹى معبودوں سے جنھيں تم نے خدا كا شريك قرار دے ليا ہے برى و بيزار ہوں ''_ (4)

اب جبكہ ميں نے يہ سمجھ ليا ہے كہ اس متغير و محدود اور قوانين طبيعت كے چنگل ميں اسير مخلوقات كے ماوراء ايك ايسا خدا ہے كہ جو اس سارے نظام كائنات پر قادر و حاكم ہے،'' تو ميں تو اپنا رخ ايسى ذات كى طرف كرتا ہوں كہ جس نے آسمانوں اور زمين كو پيدا كيا ہے اور اس عقيدے ميں كم سے كم شرك كو بھى راہ نہيں ديتا،ميں تو موحد خالص ہوں اور مشركين ميں سے نہيں ہوں''_ (5) (6)

حوالہ جات:

(1)سورہ انعام ايت 76

(2)سورہ انعام ايت 76

(3)سورہ انعام ايت 77

 (4) سورہ انعام ايت 78

(5)سورہ انعام آيت79

(6) جناب ابراہيم عليہ السلام جيسے موحد و يكتا پرست نے كس طرح اسمان كے ستارے كى طرف اشارہ كيا اور يہ كہا كہ يہ ميرا خدا ہے مفسرين نے بہت بحث كى ہے، ان تمام تفاسير ميں سے دو تفسير يں زيادہ قابل ملاحظہ ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك كو بعض بزرگ مفسرين نے اختيا ر كيا ہے ہم ان ميں سے ايك كو بيا ن كرتے ہيں كہ حضرت ابراہيم عليہ السلام نے يہ بات ستارہ پرستوں اور سور ج پرست لوگوں سے گفتگو كرتے ہوئے كى اور احتمال يہ ہے كہ بابل ميں بت پرستوں كے ساتھ سخت قسم كے مقابلے اور مبارزات كرنے اور اس زمين سے شام كى طرف نكلنے كے بعد جب ان اقوام سے ان كا سامنا ہوا تو اس وقت يہ گفتگو كى تھى ،حضرت ابراہيم عليہ السلام بابل ميں نادان قوموں كى ہٹ دھرمى كو ان كى غلط راہ ورسم ميں ازما چكے تھے لہذا اس بنا پر كہ افتاب و ماہتاب كے پجاريوں اور ستارہ پرستوں كو اپنى طرف متوجہ كريں، پہلے ان كے ہم صدا ہو گئے اور ستارہ پرستوں سے كہنے لگے كہ تم يہ كہتے ہو كہ يہ زہرہ ستارہ ميرا پروردگار ہے ،بہت اچھا چلو اسے ديكھتے ہيں يہاں تك كہ اس عقيدے كا انجام تمہارے سامنے پيش كروں ، تھوڑى ہى دير گزرى تھى كہ اس ستارے كا چمكدار چہرہ افق كے تاريك پردے كے پيچھے چھپ گيا،يہ وہ مقام تھا كہ ابراہيم عليہ السلام كے ہاتھ ميں ايك محكم ہتھيار اگيا اور وہ كہنے لگے ميں تو كبھى ايسے معبود كو قبول نہيں كر سكتا ،اس بنا پر''ھذاربي'' كا مفہوم يہ ہے كہ تمہارے عقيدے كے مطابق يہ ميرا خدا ہے ،يا يہ كہ اپ نے بطور استفہام فرمايا: ''كيا يہ ميرا خدا ہے ''؟

ستارہ سے كون سا ستارہ مراد ہے ؟اس بارے ميں مفسرين كے درميان اختلاف ہے ليكن زيادہ تر مفسرين نے زہرہ يا مشترى كا ذكر كيا ہے اور كچھ تواريخ سے معلوم ہوتا ہے كہ قديم زمانوں ميں ان دونوں ستاروں كى پرستش كى جايا كرتى تھى اورخداو ںكے حصہ شمار ہوتے تھے ليكن اس حديث ميں جو امام على بن موسى رضا عليہ السلام سے عيون الااخبار ميں نقل ہوئي ہے يہ تصريح ہوئي ہے كہ يہ زہرہ ستارہ تھا ،تفسير على بن ابراہيم ميں بھى امام جعفر صادق عليہ السلام سے يہى بات مروى ہے _

 

قصص القرآن

منتخب از تفسير نمونه

تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي

مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم

تنظيم فارسى: حجة الاسلام و المسلمين سير حسين حسينى

ترتيب و تنظيم اردو: اقبال حيدر حيدري

پبليشر: انصاريان پبليكيشنز - قم