• صارفین کی تعداد :
  • 3285
  • 11/24/2009
  • تاريخ :

حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) ( حصّہ دوّم )

بسم الله الرحمن الرحیم

حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام)

دور نبوت

حضرت ابراہيم عليہ السلام كب مبعوث نبوت ہوئے، اس سلسلے ميں ہمارے پاس كوئي واضح دليل موجود نہيں ہے_ البتہ سورہ مريم سے بس اتنا معلوم ہوتا ہے كہ جب آپ(ع) نے اپنے چچا آزر سے بحث چھيڑى تو آپ (ع) مقام نبوت پر فائز ہوچكے تھے_ آيت كہتى ہے كہ :""اس كتاب ميں ابراہيم عليہ السلام كو ياد كرو،وہ خداكا بہت ہى سچا نبى تھا_جب اس نے اپنے باپ(چچا) سے كہا:""اے بابا تو ايسى چيز كى كيوں عبادت كرتا ہے كہ جو نہ سنتى ہے اور نہ ہى ديكھتى ہے اور تيرى كوئي مشكل بھى حل نہيں كرتي""_ (1)

ہم جانتے ہيں كہ يہ واقعہ بت پرستوں كے ساتھ شديد معركہ آرائي اور آپ كو آگ ميں ڈالے جانے سے پہلے كا ہے_ بعض م ورخين نے لكھا ہے كہ آگ ميں ڈالے جانے كے وقت حضرت ابراہيم عليہ السلام كى عمر 16/سال تھي_ ہم اس كے ساتھ يہ اضافہ كرتے ہيں كہ يہ عظيم كار رسالت آغاز نوجوانى ميں آپ(ع) كے دوش پر آن پڑا تھا_

حضرت ابراہيم عليہ السلام كے پانچ برجستہ صفات

قرآن مجيد ميں خدا كى شكر گزارى ايك كامل مصداق يعنى مكتب توحيد كے مجاہد اور علمبردار حضرت ابراہيم عليہ السلام كا ذكر ہے ان كا ذكر اس لحاظ سے بھى خصوصيت كاحامل ہے كہ مسلمان با لعموم اور عرب بالخصوص حضرت ابراہيم كو اپنا پہلاپيشوا اور مقتداء سمجھتے ہيں _

اس عظيم اور بہادر انسان كى صفات ميں سے يہاںصرف پانچ صفات كى طرف اشارہ كيا گيا ہے :

پہلے فرمايا گيا ہے :"" ابراہيم اپنى ذات ميں ايك امت تھے""_ (2)

اس سلسلے ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام كو""امت "" كيوں قرار ديا گيا ، مفسرين نے مختلف نكات بيان كيے ہيں ان ميں سے چارقابل ملاحظہ ہيں :

1_ابراہيم عليہ السلام انسانيت كے عظيم رہبر، مقتداء اور معلم تھے اسى بناء پر انھيں امت كہا گيا ہے كيونكہ "" امت "" اسم مفعول كے معنى ميں اسے كہا جاتاہے جس كى لوگ اقتداء كريں اور جس كى رہبرى لوگ قبول كريں _

2_ ابراہيم عليہ السلام ايسى شخصيت كے مالك تھے كہ اپنى ذات ميں ايك امت تھے _كيونكہ بعض اوقات كسى انسان كى شخصيت كا نور اتنى وسيع شعاعوں كا حامل ہوتا ہے كہ اس كى حيثيت ايك دويا بہت سے افراد سے زيادہ ہوجاتى ہے اور اس كى شخصيت ايك عظيم امت كے برابر ہوجاتى ہے _

ان دونوں معانى ميں ايك خاص روحانى تعلق ہے كيونكہ جو شخص كسى ملت كاسچا پيشوا ہوتا ہے وہ ان سب كے اعمال ميں شريك اور حصہ دار ہوتا ہے اور گويا وہ خود امت ہوتا ہے _

3_ وہ ماحول كہ جس ميں كوئي خدا پرست نہ تھا اور جس ميں سب لوگ شرك وبت پرستى كے جوہڑميں غوطہ زن تھے _اس ميں ابراہيم عليہ السلام تن تنہاموحد اور توحيد پرست تھے پس آپ تنہا ايك امت تھے اور اس دور كے مشركين ايك الگ امت تھے _

4_ ابراہيم عليہ السلام ايك امت كے وجودكا سرچشمہ تھے اسى لئے آپ كو ""امت "" كہا گيا ہے _ اس ميں كوئي اشكال نہيں كہ يہ چھوٹا سالفظ اپنے دامن ميں يہ تمام وسيع معانى لئے ہوئے ہو _

جى ہاں، ابراہيم ايك امت تھے_

__وہ ايك عظيم پيشوا تھے _

__وہ ايك امت سازجوانمرد تھے _

__جس ماحول ميں كوئي توحيد كا دم بھر نے والا نہ تھا وہ توحيدكے عظيم علمبردار تھے_

2_ ان كى دوسرى صفت يہ تھى كہ"" وہ اللہ كے مطيع بندے تھے ""_ (3)

3_ ""وہ ہميشہ اللہ كے سيدھے راستے اور طريق حق پر چلتے تھے""_ (4)

4_"" وہ كبھى بھى مشركين ميں سے نہ تھے ""_ (5)

ان كے فكر كے ہر پہلو ميں ، ان كے دل كے ہر گوشے ميں اور ان كى زندگى كے ہر طرف اللہ ہى كانور جلوہ گرتھا _

5_ان تمام خصوصيات كے علاوہ ""وہ ايسے جواں مرد تھے كہ اللہ كى سب نعمتوں پر شكر گزار تھے""_ (6)

ان پانچ صفات كو بيان كرنے كے بعد ان كے اہم نتائج بيان كيے گئے ہيں :

1_"" اللہ نے ابراہيم كو نبوت اور دعوت كى تبلغ كے لئے منتخب كيا ""_ (7)

2_"" اللہ نے انھيں راہ است كى ہدايت كي""_ (8)

(1)سورہ مريم آيت 41/42

(2) سورہ نمل آيت120

(3) سورہ نمل آيت 120

(4) سورہ نمل آيت 120

(5)  سورہ نمل آيت120

(6) سورہ نمل آيت 121

(7) سورہ نمل آيت 121

(8)سورہ آيت 121

قصص القرآن

منتخب از تفسير نمونه

تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي

مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم

تنظيم فارسى: حجة الاسلام و المسلمين سير حسين حسينى

ترتيب و تنظيم اردو: اقبال حيدر حيدري

پبليشر: انصاريان پبليكيشنز - قم