• صارفین کی تعداد :
  • 4867
  • 9/2/2009
  • تاريخ :

آئی لمب ٹیکنالوجی اورمصنوعی جسمانی اعضاء

مصنوعی جسمانی اعضاء

ان کے لئے روزمرہ کے ایسے معمولات جنہیں وہ اس حادثے سے قبل انجام دیا کرتے تھے اور انہیں کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا تھا اب ان کے لئے ناممکنات کی سی صورت اختیار کر چکے تھے۔

جدید سائنسی ایجاد آئی لمب ، ایوان رینالڈ کے فوجی بننے کے خواب کو تو پورا نہیں کر پائی مگران کے لئے روزمرہ کے معمولات کواس حد تک آسان ضرورکر دیا ہے کہ شاید انہیں اب اپنا ضائع شدہ بازو کم کم ہی یاد آتا ہو۔

انیس سالہ ایوان رینالڈ کا کہنا ہے، ہم اکثر سوچتے بھی نہیں کہ ہمارے بازو ایسے بے شمار افعال انجام دیتے ہیں جنہیں ان کی غیر موجودگی میں انجام دینا ناممکن ہے۔ ہم عموما اپنے روزمرہ کے افعال کو بہت عام سی نظر سے دیکھتے ہیں۔

  برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایوان رینالڈ ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جن کو سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایک بار پھر معمول کی زندگی کی طرف لوٹا دیا۔

آئی لمب ٹیکنالوجی کے ذریعے مصنوعی بازو کو جسم سے منسلک کر کے روزمرہ زندگی کے بے شمار افعال سر انجام دئے جا سکتے ہیں۔ یہ بازو جسم سے منسلک کر دیا جاتا ہے اور وہی اعمال سرانجام دیتا ہےجو دماغ اعصابی نظام کے ذریعے صادر کرتا ہے۔

  مصنوعی جسمانی اعضاء کی ایجاد کا کام برسوں سے چل رہا ہے اور اس حوالے سے سب سے بڑا چیلنج یہی تھا کہ کس طرح ان الیکٹرانک اعضاء کو انسانی اعصابی نظام سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔

انسانی جسمانی اعضاء دماغ سے ایک مربوط اعصابی نظام کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں یہ نظام جسم میں پھیلے ہوئے نیورونز اور پٹھوں کی مدد سے ریڑھ کی ہڈی اور وہاں سے حرام مغز سے جڑا ہوتا ہے۔ دماغ تمام جسمانی اعضاء کو کوئی بھی حکم بذریعہ حرام مغز ہی دیتا ہے اور یہ احکامات الیکٹرک سگنلز یا برقی اشاروں یا کے ذریعے دئے جاتے ہیں۔

  انسانی حسیات کا تمام تر دارومدار اسی نظام پر قائم ہے اور جسم کے کسی بھی حصے سے یہ دماغی کنٹرول، اعصاب کٹ جانے یا کسی وجہ سے ان کے ناکارہ ہوجانے پر اس جسمانی عضوکے بے کار یا مفلوج ہو جانے کا باعث ہوتا ہے۔

ہاتھوں ہی کی مثال لے لیجے، کسی چیز کو چھوتے ہوئے ہمارے ہاتھ ان نیورانز کے ذریعے دماغ کو یہ بتاتے ہیں کہ کوئی چیز کیسی اور کتنی وزنی ہے۔ دماغ اس حوالے سے تفصیلات اور معلومات کے مطابق، جائزہ لے کر ہاتھ کو یہ حکم دیتا ہے کہ اس چیز کو کس قوت اور کیسی گرفت کے ذریعے اٹھانا ہے اور اسے پکڑنے کے لئے مناسب ترین جگہ کون سی ہوگی۔ ہاتھ ان تمام احکامات کی بنیاد پر اپنا فعل انجام دیتے ہیں۔ یہ ایک طویل عمل ہے مگر زبردست انسانی دماغی رفتار اور موثر اعصابی نظام کے باعث چند مائکروسیکنڈز میں یہ تمام عمل انجام دے دیا جاتا ہے۔ 

  آئی لمب ٹیکنالوجی کی مدد سے مصنوعی جسمانی عضو جسم سے منسلک ہوتے ہی چند منٹوں کے اندر اندر خود بخود اعصابی نظام کے ذریعے دماغ کے تابع ہو کر افعال انجام دینے لگتا ہے۔ ابھی اس حوالے سے مزید تحقیق اور ترقی کا سلسلہ جاری ہے اور دن بدن ان مصنوعی اعضاء کی کارکردگی میں اضافے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

آئی لمب ٹیکنالوجی کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔رینالڈ کا کہنا ہے کہ اس بازو کو جسم سے منسلک کر لینے کے بعد جب کوئی شے اٹھانی ہو تو یہ بازو خود بخود دماغی احکامات کے مطابق عمل پیرا ہونے لگتا ہے اور انہیں اس بات کا کم ہی احساس ہوتا ہے کہ یہ بازو مصنوعی ہے۔

سائسنی حلقوں میں آئی لمب کو گزشتہ سال کی پچاس عظیم ایجادات میں سے ایک کہا جا رہا ہے۔

عاطف توقیر


متعلقہ تحریریں:

خود سے ملتے جلتے چہرے اپنے اپنے لگتے ہیں

دنیا کا پہلا شمسی توانائی سے چارج ہونے والا موبائل فون سیٹ