• صارفین کی تعداد :
  • 4667
  • 8/11/2009
  • تاريخ :

والدین اور ٹین ایجرز (حصّہ دوّم)

والدین اور ٹین ایجرز

لڑکپن میں جسمانی طور پر بہت تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ بال، چہرہ، قد، موٹاپا ہر چیز بدل رہی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چہرے پر دانے نکلتے ہیں اور بالوں میں خشکی یا سکری نمایاں ہوجاتی ہے لیکن یہ تمام تبدیلیاں عارضی ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ البتہ لڑکے اور لڑکیاں اپنا زیادہ تر وقت ان کے بارے میں سوچنے اور بات کرنے میں صرف کرتے ہیں۔اگر اُن کو یہ بتادیا جائے کہ یہ سب کچھ عارضی ہے اور اُن کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تو وہ شاید نہ مانیں اور اس بات پر ناراض ہوجائیں کہ اُن کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی۔ اس لیے والدین کو احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔بچوں کو اعتماد سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ آپ ڈاکٹر کو دکھائیں اور خود اپنا علاج نہ کریں ۔

 لڑکیاں عام طور پر نہایت جذباتی اور ذودحِس ہوتی ہیں اور اپنی سہیلیوں سے مشورہ کر کے خود اپنا علاج کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں عام طور پر مختلف قسم کی کریمیں مکس کرکے اپنی چہرے پر استعمال کرتی ہیں۔

 اُن کے خیال میں گور ارنگ اور صاف ستھرا چہرہ ہی ضروری ہیں مگر کریموں کے انتخاب میں وہ اپنے ساتھ سخت زیادتی کی مرتکب ہوتی ہیں اور اپنا چہرہ ہمیشہ کے لیے خراب کر لیتی ہیں۔ یہ ظلم اُس وقت زیادہ واضح ہوتا ہے جب منگنی یا شادی کا موقع ہوتا ہے اور لڑکی روتی ہوئی ڈاکٹر کے پاس آتی ہے کہ ڈاکٹر میرا چہرہ ٹھیک کردو۔

کریموں کے بے ہنگم استعمال کی وجہ سے چہرے پر کئی قسم کے داغ پڑ جاتے ہیں اور جلد سخت ناہموار ہوجاتی ہے۔

 ایسی صورت میں عام طور پر ڈاکٹر کسی قسم کی مدد کرنے سے عاری ہوتا ہے ۔ یہ صورتحال بہت مایوس کن اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ ایک معصوم سی خواہش ہے کہ میں سب سے زیادہ گوری نظر آﺅں۔ بڑی بہن اور والدہ عام طور پر اِس صورتحال میں مدد گار ہوسکتی ہے اگر وہ اس وقت اُن کو مستقبل کی مشکل سے آگاہ کردے کہ یہ کریمیں محض چند گھنٹوں کے لیے گورا پن دینے کے بعد ہمیشہ کے لیے بدصورتی اور بد نمائی سے چہرے کو بھر دیتی ہیں۔ اگر لڑکیوں کو یہ بتایا جائے کہ اُن کی قدرتی جلد اور خوبصورتی اُن کے لیے بہتر ہے اور وہ ہمیشہ اس کے ساتھ مطمئن رہیں تو اُن کے لیے بہتر ہوگا۔

اگر کوئی کریم استعمال کرنا ضروری ہے تو اچھے برانڈ کی پےٹنٹ کریم یقین کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے بڑی ہن اور ماں سے مشورہ کرنا نہایت ضروری ہیں۔

میک اپ کے لیے بھی برانڈ کا انتخاب ضروری ہیں۔ ہمارے معاشرے میں نقلی ڈاکٹر اور عطائی، لڑکیوں کی اس خواہش سے واقف ہیں اور وہ ایسی صورت میں چھوٹے شہروں، قصبوں اور مضافاتی آبادیوں میں رہنے والی انجان لڑکیوں کو بھاری رقم کے عوض خطرناک کریمیں دے کر اپنے جیبیں تو بھر لیتے ہیں لیکن اُن کو زندگی بھر کا رونا دے دیتے ہیں۔

ایک صورتحال اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب امتحان کے نتائج نکلتے ہیں۔ کامیابی اور کامرانی کا تاج صرف محنت اور ذہانت کی وجہ سے کسی کے سر کی زینت بنتا ہے۔ اس بات سے یہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ کہ لڑکا یا لڑکی محنت نہیں کرتے۔ ناکامی کی صورت میں سخت جذباتی اور ذہنی گھٹن کا شکار ہوکر انتہائی قدم اُٹھانا بے وقوفی کا ثبوت تو ہے لیکن اس کی مثالیں ہمارے معاشرے میں عام ملتی ہیں۔ ہسپتالوں کے شعبہ حادثات میں نوجوان لڑکے لڑکیاں ناکامی کی صورت میں خودکشی کرنے کی کوشش کے بعد لائے جاتے ہیں۔اگر والدین بروقت ان لڑکے لڑکیوں کو توجہ دیں اور اُ ن کو بتائیں کہ ناکامی دراصل کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے جو زیادہ محنت کے ساتھ ساتھ سوچ بچار بھی ما نگتی ہے تو وہ لڑکے لڑکیاں خودکشی کرنے کی بجائے اپنے اندازِ تعلیم اور تیاری کے طریقوں پر غور کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اور اپنے آپ کو اگلے امتحان میں تیار کرنے کی کوشش کرےںگے۔یہاں پر بچوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ناکامی کی صورت میں ان کے لیے محبت اور چاہت میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔ اورہر صورتحال میں اُن کو سپورٹ کیا جائے گا۔

لڑکے لڑکیاں لڑکپن کی دوستیوں کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اور جب کوئی تعلق ٹوٹتا ہے تو اُس کی وجہ سے ان کے جذبات اور احساسات مجروح ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں والدین کو چاہیے کہ بچوں سے بات کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر فاصلہ تھوڑا ہوگا تو ماں باپ سے بات کرنا آسان ہوگا۔

اپنے بچوں کو وقت دیں اور ان کی مصرفیات کے بارے میں دلچسپی کا اظہارکریں۔ کبھی کبھار تعریف کے کچھ جملے کمال کرسکتے ہیں۔ یہ چار پانچ سال کا عرصہ جلدہی گزر جاتا ہے اور پھر کوئی مڑ کرپیچھے نہیں دیکھتا کہ لڑکپن کیسا تھا۔

تحریر: ڈاکٹرعبدالرحمن خواجہ  ( آن لائن اردو  ڈاٹ کام )


متعلقہ تحریریں:

جواں نسل اصلاح اور ہدایت کی روشن قندیل بنے

مسلمان نوجوان اسلامی معاشرے کی قوّت

اسلام میں شادی بیاہ

خودسازي