• صارفین کی تعداد :
  • 5721
  • 8/9/2009
  • تاريخ :

جنگ آزادی (1857ء ) کا تنقیدی جائزہ

سوالیہ نشان

 آیا یہ جنگ آزادی تھی، انقلاب تھا، مذہبی جنگ یا ایک بغادت تھی، نسل، مذہب وفرقہ کی بنیاد پر اختلافات موجود ہونے کی وجہ سے اس علاقے کی تاریخ صحیح معنوں میں مرتب کرنا اتنی آسان بات نہیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں نے گیارہویں صدی میں برصغیر پاک و ہند کے ساحل پر پہنچنے کے بعد اٹھارہویں صدی میں پورے خطے پر قتدار اعلیٰ حاصل کرلیا۔ درحقیقت 1757ء کی جنگ پلاسی انگریزوں کے عروج کی بنیاد بنی۔ اس خطے کے لوگ ان تاجروں کی بالاستی کو روک نہ سکے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی خوفناک تشدد پسندانہ پالیسی پر گامزن رہی۔

بہرحال وہ محکوم لوگوں میں آزادی حاصل کرنے کی خواہش کو دبا نہ سکے اور ان کو وقتاً فوقتاً مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن 1857ء کی جنگ آزادی انگریزوں کے خلاف سب سے زیادہ منظم کوشش تھی ۔ برصغیر کے تقریباً تمام علاقوں کے لوگ اس جنگ آزادی میں شامل ہوئے۔

  درحقیقت 1857ء کی جنگ آزادی برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی ختم ہو گئی اور صدیوں پرانی سماجی تہذیب پر کاری ضرب پڑی۔ بلاشبہ یہ جنگ آزادی ایک کثیر الجہتی اہمیت کی حامل تھی۔ جس کے کئی پہلو اب بھی محققین کو غور و خوض کی دعوت دیتے ہیں۔ دوسری جانب اس جنگ آزادی نے برصغیر میں انگریزوں کی تاریخ کارخ بھی بدل دیا ہے۔

   اب بھی اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا یہ جنگ آزادی تھی" انقلاب تھا" مذہبی جنگ یا ایک بغادت تھی" نسل"مذہب و فرقہ کی بنیاد پر اختلافات موجود ہونے کی وجہ سے اس علاقے کی تاریخ صحیح معنوں میں مرتب کرنا اتنی آسان بات نہیں۔ مختلف اقوام نے برصغیر پر حملے کئے اور ان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مختلف لوگوں نے تاریخ کو مختلف انداز میں دیکھنے کی کوشش کی۔

وی ڈیسورکار نے کہا کہ یہ جنگ آزادی ایک منظم قومی تحریک تھی۔ بقول ""وی ڈیسورکار"" جنگ آزادی کے عظیم اصول دراصل اپنے مذہب اور اپنی حکومت پر مبنی تھے۔

اشوکا مہتا نے کہا کہ اگرچہ سپاہیوں کی مزاحمت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی لیکن اسکوسیاسی بغادت کہنا درست نہیں۔ بقول ""اشوکا مہتا"" سپاہیوں سے زیادہ عام لوگ اس جنگ آزادی میں مارے گئے ۔ انگریزوں نے اس کو بغادت کہا اور برصغیر کے لوگوں نے اس کو جنگ آزادی کا نام دیا، بہرحال محققین کی نظر میں ایک تنقیدی جائزہ اس بڑے واقعے کو صحیح انداز میں پیش کرسکتا ہے۔

  انگریزوں نے ڈاکٹرین آف لیپس کی طاقت کے ذریعے 19ویں صدی کے شروع میں یہاں کی مختلف ریاستوں پر قبضہ جما لیا اور اس صدی کے اوائل میں پنجاب پیگو سکم پر بھی فتح پا لی اور اس کے ساتھ ساتھ شانہ" جے پور" بھگت اودھ پور" جانسی" ناگ پور وغیرہ پر ڈاکٹرین آف لیپس کے ذریعے قبضہ کرلیا گیا۔ لارڈ ڈلہوزی اور لارڈ کیننگ نے مغل خاندان کے افراد کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا۔ جس کے نتیجے میںبرصغیر کے تمام مسلمان ناصرف غمزدہ ہوئے بلکہ ان کے اندر انگریزوں کے خلاف غم و غصہ بھی بڑھتا چلا گیا۔

   فخرالدین کو مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی جگہ تخت پربٹھا دیا گیا اور ان کے مرنے کے بعد اس وقت کے وائسرائے لارڈکیننگ نے کہا کہ فخر الدین نے جانشین برائے نام مقام  بھی کھو دیں گے اور ان کو محل میں بھی رہنے نہیں دیا جائے گا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی۔ نتیجتاً مسلمانوں کی مشہور یاد گاروں کو بھی خطرہ لاحق ہوا۔ انگریزوں نے ان کو بھی تباہ کرنے کی سازش کی۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک تاجربرادری تھی۔ مغلوں نے ان کو تجارت کی سہولت فراہم کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارتی امور پر بالاستی حاصل کرلی۔ تمام بڑے بڑے عہدوں پر انگریز قابض ہو گئے۔ چھوٹے اور برائے نام عہدے مقامی لوگوں کے پاس رہ گئے۔ سٹیم ایکٹ کے ذریعے غریبوں کے حالات اور بھی تشویش ناک ہوگئے۔

   مشہور تاریخ نویس آئی ایچ قریشی نے کہا کہ ""مغلوں کے زرعی نظام کے بارے میں انگریزوں کو غلط فہمی تھی۔ انہوں نے اس زرعی نظام کی جگہ ایک غلط نظام رائج کرنا چاہا جس کی بنیاد حقیقت سے نا آشنائی تھی۔"" انگریزوں کے ان اقدامات سے مقامی لوگوں میں غم و غصہ اور بے چینی بڑھتی رہی۔ درحقیقت یہ ایک آتش فشاں پہاڑ کے لاوے کی صورت لوگوں میں بڑھتا رہا اور کسی بھی وقت کسی بھی جگہ یہ لاوا پھٹ سکتا تھا۔

1857ء جنگ آزادی کی فوری وجہ چربی دار کارتوس بنے۔ انگریزوں نے 1857ء میں این فیلڈ نامی نئی رائفل متعارف کروائی جس میں استعمال ہونے والے کارتوس کا منہ دانت سے کاٹ کر استعمال کرنا پڑتا تھا۔ اسی اثناء میں یہ افواہ پھیل گئی کہ گائے اور سور کی چربی سے یہ کارتوس بنائے گئے۔

  لہذا اس کارتوس کااستعمال مسلمانوں اور ہندو دونوں کیلئے اپنے مذہب کو کھونے کے مترادف تھا۔ سپاہیوں نے اسے ایک سازش سمجھا کہ اس کو مذہب سے دور کرنے کیلئے یہ کارتوس متعارف کروایا گیا ہے۔ برصغیر میں بنگال میں بہرام پور اور بیراک پور میںجنوری سے مارچ 1858ء کے دوران یہ تحریک کی صورت میں اٹھی لیکن وہاں اکا دکا واقعات ہوئے جس کے نییجے میں دوسرے علاقوں میں بھی یہ تحریک بھرپور طریقے سے پھیلنے کا سبب بنی۔

سب سے زیادہ بھرپور طریقے سے یہ تحریک میرٹھ سے اٹھی۔ وہاں پر 10مئی 1858ء کو سپاہی یکجا ہو کر دہلی کی جانب گامزن ہوئے۔ اس سے پہلے 9 مئی کو کارتوس کے استعمال سے انکار پر فوج کی ایک کمپنی کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ 10 مئی کو 3 مقامی رجمنٹ کے کچھ سپاہیوں نے اپنے افسروں کو مار کر ان سپاہیوں کو رہا کروایا۔ جن پر کورٹ مارشل کیا گیا تھا۔

   یہ تمام سپاہی مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر ایک بہت بڑے گروہ کی صورت میں دہلی پہنچے اور آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کا بادشاہ تسلیم کرتے ہوئے اس تحریک کو آگے بڑھانا شروع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ برصغیر کے تمام علاقوں میں انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے گئے۔ اودھ " کانپور" بندل کھنڈ اور جھانسی سمیت مختلف علاقوں میں یہ تحریک پھیل گئی۔ اس تحریک میں اگرچہ بے شمار سپاہی اور مقامی لوگ شامل تھے لیکن یہ تحریک منظم نہیں تھی ۔انگریزی فوج کیونکہ منظم اور جدید ترین اسلحہ سے لیس تھی۔ اس لئے جلد ہی انگریز اس تحریک کودبانے میں کامیاب ہوگئے۔

   1857ء کی جنگ آزادی اگرچہ فوری ناکامی کا شکار ہوئی لیکن اس تحریک نے رنگ بدل بدل کر برصغیر کو آزاد کروانے میں بالاآخر فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ حالانکہ مقامی لوگوں کو زیر تسلط رکھا گیا لیکن ان کے دلوں میں آزادی کا جذبہ ہمیشہ زندہ رہا جس کے نییجے میں مختلف تحریکیں اٹھتی رہیں۔

   1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اقتدارایسٹ انڈیا کمپنی سے حکومت برطانیہ کے حوالے کیا گیا۔ انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی پالیسیوں پر نظر ثانی کی۔ جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کو ایک نئے انداز میں دیکھا گیا۔ ان کے نتیجے میں آگے چل کر یہ تحریک سیاسی روپ اختیار کرگئی اور بالآخر اگست 1947ء میں انگریزوں کو برصغیر سے کوچ کرنا پڑا۔

تحریر: ڈاکٹر غضنفرمہدی

بشکریہ: نوائے وقت