• صارفین کی تعداد :
  • 2789
  • 8/10/2009
  • تاريخ :

کپاس کا پھول (حصّہ دوّم)

کپاس کا پھول

     اس پر راحتاں نے زور سے ہنس کے آس پاس پھیلی ہوئی کفن اور کافور کی بُو سے پیچھا چُھڑانے کی کوشش کی مگر کفن اور جنازے سے مفر نہ تھا۔ یہی تو مائی کے محبوب موضوع تھے۔ ویسے راحتاں کو مائی تاجو سے اُنس ہی اس لیے تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے مرنے کی ہی باتیں کرتی تھی جیسے مرنا ہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہو اور جب مذاق میں ایک بار راحتاں نے مائی سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اسے یہی کفن پہنا کر اپنے باپ کی منت کرے گی کہ مائی کا بڑا ہی شاندار جنازہ نکالا جائے تو مائی اتنی خوش ہوئی تھی کہ جیسے اُسے نئی زندگی مل گئی ہے۔ راحتاں سوچتی تھی کہ یہ کیسی بدنصیب ہے جس کا پوری دُنیا میں کوئی بھی اپنا نہیں ہے اور جب مری تو کسی آنکھ سے ایک بھی آنسو نہیں ٹپکے گا۔ بعض موتی کتنی آباد اور بعض کتنی ویران ہوتے ہیں۔ خود راحتاں کا ننھا بھائی کنویں میں گِر کر مر گیا تھا تو کیا شاندار ماتم ہوا تھا ! کئی دن تک بین ہوتے رہے تھے۔ اور گھر سے باہر چوپال پر دور دور سے فاتحۃ خوانی کے لیے آنے والوں کے ٹھٹ لگے رہے تھے اور پھر انہی دنوں کریمے نائی کا بچہ نمونئے سے مرا تو بس اتنا ہوا کہ اس روز کریمے کے گھر کا چولھا ٹھنڈا رہا۔ ااور تیسرے ہی روز وہ چوپال پر بیٹھا چودھری فتح دین کا خط بنا رہا تھا۔ موت میں ایسا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ مر کر تو سب برابر ہوجاتے ہیں۔ سب مٹی میں دفن ہوتے ہیں۔ امیروں کے دفن کے لیے مٹی ولایت سے تو نہیں منگائی جاتی سب کے لیے یہی پاکستان کی مٹی ہوتی ہے۔

   ۔ “ کیوں مائی “۔ ایک دن راحتاں نے پوچھا۔ “ کیا اس دُنیا میں سچ مچ تمھارا کوئی نہیں؟“۔

   ۔ “ واہ، کیوں نہیں ہے !“۔ مائی مسکرائی۔

   ۔ “ اچھا!“۔ راحتاں کو بڑی حیرت ہوئی۔

   ۔ “ ہاں ایک ہے “۔ مائی بولی۔

راحتاں کو بڑی خوشی ہوئی کے مائی نے اسے ایک ایسا راز بتا دیا ہے جس کا گاؤں کے بڑے بوڑھوں تک کو علم نہیں۔ “ کہاں رہتا ہے وہ؟“۔ اس نے بڑے شوق سے پوچھا۔

   ۔ “ وہ؟“۔ مائی مسکرائی جا رہی تھی۔ “ وہ یہاں بھی رہتا ہے وہاں بھی رہتا ہے۔ دُنیا میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ نہ رہتا ہو۔ وہ بارڈر کے اُدھر بھی رہتا ہے بارڈر کے ادھر بھی رہتا ہے۔ وہ تو“۔

راحتاں نے بیقرار ہو کر مائی کی بات کاٹی۔ “ ہائے ایسا کون ہے وہ؟“۔

اور مائی نے اُسی طرح مسکراتے ہوئے کہا۔ “ خُدا ہے بیٹی، اور کون ہے!“۔

مصنف : احمد ندیم قاسمی


متعلقہ تحريريں:

کفن

چڑيل

روشنی

مٹی کا بھوجھ