• صارفین کی تعداد :
  • 3443
  • 7/27/2009
  • تاريخ :

انسانی زندگی پر قیامت کا اثر ( حصّہ اوّل )

قیامت

بے شک اللہ اور روز قیامت پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے انسان اپنے آپ کوتیار اور محفوظ رکھتا ھے، کیونکہ یہ عقیدہ انسانی نفس میں ایک ایسی طاقت بخشتا ھے جو خواہشات نفسانی کا مقابلہ کرتی ھے، اور اس دنیا میں دھوکہ دینے والی چیزوں سے محفوظ رہتا ھے اور عقیدہ معاد انسان کے لئے ایسی سپر ھے جس کی وجہ سے انسان خواہشات نفسانی ،دنیاپرستی اور ھوا وھوس سے مصون رہتا ھے کیونکہ اکثر وہ لوگ جو معاد پر ایمان نھیں رکھتے بلکہ ان کا اعتقاد ھے کہ جب انسان مرجائے گا تو اس کا جسم ریزہ ریزہ ھوکر نابود ھوجائے گا اور اس کی حیات بعد از مرگ تمام ھو جائے گی ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی چیز نھیں ھے جو دنیا میں اس کو سرکشی اور ھوا و ھوس سے روکے رکھے اور ان کو باطل پرستی و فعل قبیح کے اتیان سے باز رکھے۔

لیکن روز آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص اس دنیاوی چند روزہ زندگی کو ایک مدرسہ اور معرفت و فضیلت اور کمال تک پہنچنے کا وسیلہ اور آخرت میں آرام سے زندگی گزارنے اور سرمدی اور ھمیشگی زندگی کا ذریعہ سمجھتا ھے، کیونکہ انسان اس دنیا میں رہ کر اپنے کو گناھوں اورلغزشوں سے محفوظ رکھتا ھے،  فضیلت و عدالت کو اپناتا ھے اور شرع و عقل کی مخالف چیزوں کا مقابلہ کرتا ھے تاکہ انسان کمال کی بلندی کو طے کرتا ھوا روحی اطمینان تک پہنچ جائے، جیسا کہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:

<یَااَیْتُھَاالنَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةَ ارْجِعِیٓ اِلَیٰ رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً فَادْخُلِی فِی عِبَادِی وَادْخُلِی جَنَّتِی> (1)

”اے اطمینان پانے والی جان اپنے پرور دگار کی طرف چل تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی تو میرے (خاص)بندوں میں شامل ھوجا ،اور میرے بہشت میں داخل ھوجا“۔

اور انسان اس قیامت پر ایمان رکھے بغیر (جو برائی اور بھلائی کا روز جزا و سزا ھے)ان تمام اقدار اور بلندیوں کو نھیں چھو سکتا اور اسی عقیدہ معاد کی وجہ سے انسان کے نفس میں ایسی طاقت پیدا ھو جاتی ھے کہ جس سے انسان نیکیوں اور اچھائیوں کا دوستدار بن جاتا ھے اور گناھوں سے دور ھوتا چلاجاتا ھے، کیونکہ برائیوں کے ارتکاب سے انسان کے اندر شرمندگی، حسرت اور روز قیامت کی ذمہ داری کا احساس بڑھتا جاتاھے۔

اور پھر روز قیامت کا اعتقاد انسان کو برائیوں سے ھی نھیں روکتا بلکہ نفس کو مطمئن بھی کردیتا ھے اور خطرات کے موقع پر انسان میں چین و سکون پیدا کردیتا ھے، اسی کے ذریعہ  امانت کی خاموش نہ ھونے والی شمع روشن ھوجاتی ھيں، انسان کی آرزوئیں صرف حق و کمال کی تلاش میں رہتی ھیں اس وقت انسان بافضیلت ھو جاتا ھے، اور فضیلت کے اس مقام تک پہنچنے کی وجہ سے اس کا عذاب خدا سے ڈرنا یا امید ثواب نھیں ھے ،بلکہ اس معاد کے عقیدہ کی وجہ سے انسان رذیلت کی لذت سے فضیلت کی لذت محسوس کرنے لگتا ھے،اور وہ کسی ڈر یا لالچ میں اللہ کی عبادت نھیں کرتا بلکہ وہ خداکو عبادت کا مستحق سمجھتا ھے، جیسا کہ حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”الھی ما عبد تک خوفاً من عقابک ولا طمعا فی ثوابک ،ولکن وجدتک اھلا للعبادة فعبدتک“۔ (2)

”پالنے والے! میں تیری عبادت تیرے عذاب کے خوف سے کرتا ھوں نہ تیرے ثواب کے لالچ سے، بلکہ تجھے عبادت کا اہل پاتا ھوں تو تیری عبادت کرتا ھوں“۔

 یھی عبادت آزاد افراد اور مخلص مومنین کی ھے۔

حوالہ جات :

(1) سورہٴ فجر آیت۲۷۔۳۰۔

(2) بحا رالانوار /علامہ مجلسی،ج۴۱،ص۱۴

https://www.alimamali.com  


متعلقہ تحریریں:

موت کی ماہیت

حیات اخروی پر ایمان کی بنیاد