• صارفین کی تعداد :
  • 4557
  • 7/18/2009
  • تاريخ :

اسلام میں طلاق (حصّہ هفتم)

طلاق

امریکہ نے عورت و مرد کو طلاق کے سلسلے میں ضرورت سے زیادہ آزادی دے رکھی ھے اس لئے وھاں طلاق بکثرت ھوتی ھے۔ یہ بے حساب آزادی اور مساوی طور سے مرد و عورت کو حق طلاق دینے کی وجہ سے ارکان خانوادہ تزلزل کا شکار ھو گئے ھیں اور اس کے تلخ ترین نتائج ظاھر ھونے لگے ھیں ۔ عورتیں معمولی معمولی بھانوں سے جب جی چاھتا ھے مرد سے الگ ھو جاتی ھیں در حقیقت مغربی دنیا خانوادے اور عورتوں کی خدمت کرنے کے بجائے جنایت کی مرتکب ھوئی ھے ۔

 جن ممالک میں عورتوں کو حق طلاق دیا گیا ھے ان کے اجمالی اعداد و شمار کو دیکہ کر ھر عقلمند انسان محو حیرت ھو جاتا ھے ۔ عورتوں کی خواھش پر مغربی دنیا میں ھونے والی طلاقوں کی کثرت اور طلاق لینے کی دلیلوں کو دیکہ کر اسلام کی ژرف نگاھی روز روشن کی طرح آشکار ھو جاتی ھے ۔ متمدن مغربی دنیا میں ھونے والی طلاقوں کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے ایک مشھور ھفتہ وار اخبار لکھتا ھے :

 شھر اسٹرا سبورگ میں ھونے والی چوٹی کانفرنس کے صدر نے مختلف ممالک میں ھونے والی طلاقوں کے اعدادو شمار افراد کانفرنس کے سامنے اس طرح بیان کئے:

 اس اعداد و شمار کے مطابق آخری ایک سال کے اندر فرانس میں ۲۷/ فیصد طلاق عورتوں کی ” مد پرستی “ کے افراط کی وجہ سے ھوئی اور یھی تعداد جرمنی میں ۳۳/ فیصد اور ھالینڈ میں ۳۶ /فیصد اور سوئیڈن میں ۱۸/ فیصد ھوئی ۔

 پیرس کی ھر عورت جو مد پرستی کی عادی ھو چاھے افراط کی حد تک نہ بھی ھو پھر بھی ایک سال کے اندر تقریبا ًپانچ ھزار دروپئے بیکار و بیھودہ مصرف میں خرچ کر دیتی ھے ۔

 اور یہ کثیر رقم نہ تو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ھے اور نہ اسکی شخصیت کو بلند و بالا کرتی ھے اور نہ خانوادے کے فلاح و بھبود پر خرچ ھوتی ھے ۔

 براہ راست عورت کو حق طلاق دینے کا یہ نتیجہ ھوتا ھے کہ جب صرف ایک مدپرستی جیسی بے ارزش چیز کی وجہ سے اتنی طلاقیں ھوتی ھیں تو دوسرے اسباب کی بناء پر کیا عالم ھو گا ۔؟

 عورتوں کو حق طلاق دینے کے جو برے نتائج بر آمد ھوتے ھیں انھوں نے ذمہ داران حکومت میں عجیب و حشت پیدا کر دی ھے اب وہ لوگ اس کے محدود کرنے کے طریقے پر غور و فکر کر رھے ھیں ۔ گذشتہ سال فرانس میں تیس ھزار طلاقیں ھوئیں اور چونکہ ھر سال اس تعداد میں اضافہ ھی ھو رھا ھے اس لئے فرانسیسی خانوادوںکے فیڈ ریشن نے حکومت سے درخواست کی ھے کہ ۱۹۴۱ءء کے مخصوص قانون کو جو ۱۹۴۵ءء میں ختم کر دیا گیا تھا دوبارہ لاگو کیا جائے ۔ اس قانون کے مطابق شادی سے تین سال تک کسی بھی وجہ سے طلاق نھیں دی جا سکتی اور نہ لی جا سکتی ھے ۔ یھی قانون انگلستا ن میں بھی نافذ ھے صرف اس میں دو صورتوں کو مستثنیٰ کر دیا گیا ھے ۔

 ۱۔ مرد کی طرف سے فوق العادة سختی و وحشت گری ۔

 ۲۔ عورت کی طرف سے خیانت اور بے اندازہ فساد

امریکی دانش مند لوسون ( LOSUN)تحریر کرتا ھے : جس کے اندر ذرہ برابربھی انسان دوستی موجود ھے وہ اس وحشت ناک اعدادو شمار سے رنجیدہ ھے اور اس کے علاج کی فکر میں ھے ۔ سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ھے کہ ۸۰ فیصد طلاق عورتوں کی خواھش سے واقع ھوئی اور ھو رھی ھیں۔کثرت طلاق کی علت بھی اسی جگہ تلاش کرنا چاھئے اور قطعی طور پر اس کو محدود کر دینا چاھئے ۔

یھاں پر معاشرے کے اندر (VOLTAIRE) کے قانون طلاق کے سلسلے میں اسلام کی جامعیت کے اعتراف کا ذکر کرنا بھی مناسب ھے ۔ وہ لکھتا ھے :

 محمد ایسے عقل مند واضع قانون ھیں جو بشریت کو جھل و فساد و بد بختی سے نجات دینا چاھتے تھے ۔ اپنی خواھش کی تکمیل کے لئے انھوں نے دنیا کے تمام انسانوں، عورت۔ مرد ، چھوٹا۔ بڑا ، عاقل و دیوانہ ، سیاہ و سفید ، زرد و سرخ کے نفع کا خیال رکھا ۔ انھوں نے تعداد ازواج کی اجازت ھرگز نھیں دی ۔ بلکہ اس کے بر خلاف ایشیائی ممالک کے حکمرانوں اور باشاھوں کی بے حساب شادیوں پر پابندی لگا کر چار عورتوں تک محدود کر دیا ۔ شادی بیاہ اور طلاق کے سلسلے میں ان کے قوانین ،آج کے قوانین سے بدر جھا بھتر ھیں ۔ شاید طلاق کے سلسلے میں قرآن سے زیادہ مکمل قانون اب تک نھیں بنایا جا سکا ۔


متعلقہ تحریریں:

اسلام میں طلاق (حصّہ سوّم )

اسلام  میں طلاق  (حصّہ دوّم )

اسلام  میں طلاق (حصّہ اوّل )