• صارفین کی تعداد :
  • 2187
  • 7/13/2009
  • تاريخ :

گربچن چندن کی شخصیت

اخبار

قلندرانہ طبیعت کے مالک جناب گربچن چندن کی شخصیت اردو حلقہ میں محتاج تعریف نہیں ہے، وہ ملک کی آزادی کے خاطر سنہ 1942 میں ''ہندوستان چھوڑو'' تحریک کے دوران گرفتار بھی ہوئے اور ایک ''باغیانہ خبر نامہ'' لکھنے کی پاداش میں جیل بھی گئے۔ موصوف بنیادی طور پر انگریزی صحافی رہے ہیں۔ وہ لاہور کے ایک مقام باغبان پورہ میں 08/اکتوبر سنہ1922 کو پیدا ہوئے۔پنجاب یونیورسٹی میں انگریزی لٹریچر میں ایم۔ اے کے بعد وہی سے انہوں نےجرنلزم میں ڈپلومہ کیا اور سنہ1945 میں لاہور کے ایک انگریزی روزنامہ''سویل اینڈ ملٹری گزٹ'' میں سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود موصوف اردو، ہندی اور انگریزی میں خاصہ عبور رکھتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد وہ دہلی میں سکونت پزیر ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے نیشنل کانگریس ''ویکلی'' کی ادارت سنبھالی۔ مئی سنہ 1948 میں وہ حکومت ہند کے محکمہ پی آئی بی ''پریس انفارمیشن بیورو'' سے وابستہ ہوئے۔ اگست سنہ1980 میں اس محکمہ سے ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ چاہتے تو ریٹائرڈ ہونے کے بعد سکون کی زندگی بتا سکتے تھے لیکن اردو زبان کی ترویج و اشاعت اور اردو صحافت کی ترقی کے لئے وہ خاموشی سے کام کرتے رہے۔ ان کو اردو صحافت پر اتھارٹی بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ کراچی نیوزسٹی نے ان کو صحافت کے موضوع پر پی ایچ۔ڈی کرنے والے طلبہ کا ممتحن مقرر کیا تھا۔ بقول چندن صاحب '' اردو''دنیا کی پہلی زبان ہے جس میں انگریزی سے قبل اخبار''نیوز پیپر'' کا لفظ اور تصور آیا۔

  اس پس منظر میں زیر نظر کتاب ''اردو صحافت کا سفر '' کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چندن صاحب اردو کے نوجوان صحافیوں سے بڑی محبت کرتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کی معترف بھی ہیں۔ اس کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ خود اس اہم کتاب کا دیباچہ انہوں نے نوجوان اردو صحافی سید عبدالباری مسعود ''سابق چیف ریڈرای ٹی وی اردو'' سے لکھوایا ہے۔ اس میں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے چندن صاحب کا بھرپور تعارف  کرایا ہے اور ان کی خدمات کو اجاگر کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا ہے۔ کتاب کے مشتملات پر غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے بڑی پر مغز گفتگو کی ہے۔انہوں نے کتاب کے مضامین کا علمی تجزیہ کرتے ہوئے چندن صاحب کی صحافتی خدمات کو اجاگر کیا ہے۔ یہ مضمون چندن صاحب کی حیات وخدمات کا مرقع معلوم ہوتا ہے اور مصنف کو سمجھنے کے لئے یہ مضمون کافی ہے۔

https://www.akhbaroafkar.com


متعلقہ تحریریں:

اشفاق احمد

ابن انشاء