• صارفین کی تعداد :
  • 4912
  • 6/24/2009
  • تاريخ :

ہمارے معاشرے میں  جہیز ایک المیہ (حصّہ اوّل)

جہیز ایک المیہ

آج کل نفسہ نفسی کا دور ہے ہمارے معاشرے میں لاتعداد مسائل نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے ان مسائل میں ایک اہم اور بڑا مسئلہ جہیز بھی ہے جو موجودہ دور میں وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ عام طور پر سلیقہ مند ،پڑھی لکھی ،خوب رو اور خوب سیرت لڑکیاں بھی قیمتی جہیز نہ ہونے کے باعث آنکھوں میں دلہن بننے کے خواب بسائے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر گزار دیتی ہیں اور پھر ایک خاص عمر کے بعد تو یہ سہانا خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں اور اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرکے بقایا زندگی اک جبر مسلسل کی طرح کاٹنے پر مجبور ہو جاتی ہیں دلہن بننا ہر لڑکی کا خواب ہی نہیں اسکا حق بھی ہے لیکن افسوس اسے اس حق سے محض غربت کے باعث محروم کر دیا جاتا ہے سرمایہ داروں کے اس دور میں‌ لڑکیوں کو بھی سرمایہ سمجھا جاتا ہےاور اس سرمایہ کاری کے بدلے انکے گھر والے خصوصا مائیں بہنیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کےلئے سرگرداں رہتی ہیں۔ وہ لڑکی کا رشتہ لینے جاتی ہیں یا یوں کہیں اپنے بیٹے ،بھائی کا کاروبار کرنے نکلتی ہیں لڑکی سے زیادہ اس کی امارات دیکھتی ہیں، لڑکی والوں کے ہاں جا کر انکا زہنی کیلکولیٹر بڑی تیزی سے حساب کتاب مکمل کر لیتا ہے اور وہاں‌ سے کچھ ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں وہ پوری طرح سے آگاہ ہوجاتی ہیں گاڑی،کوٹھی اور دیگر قیمتی سازوسامان تو ان کی فہرست میں‌لازمی مضامین کی طرح شامل ہوتے ہیں ان کے بعد کہیں جا کر لڑکی کی باقی خوبیوں (جن میں اسکا خوش شکل ہونا بھی شامل ہے) کو پرکھا جاتا ہے چنانچہ جس خوش قسمت لڑکی کے پاس دینے کو قیمتی اور‌ڈھیر سارا جہیز ہو نیز خوبصورت بھی ہو وہ تو بیاہی جاتی ہے اور جن بدقسمت لڑکیوں کے پاس یہ سب کچھ موجود نہیں ہوتا وہ سوائے اپنی تقدیر سے گلہ کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔

ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی با اخلاق و مذہبی ہیں اور اٹھتے بیٹھتے آیات قرآنی اور ‌احادیث نبوی بیان کرتے نہیں تھکتے لیکن معاملہ اپنے بیٹے کی شادی کا ہو تو ساری آیتیں ،حدیثیں بھلا کر اس کے دام وصول کرنے لگتے ہیں ۔

میرے ایک دوست شکستہ دلی کے ساتھ بتا رہے تھے کہ ان کی خوش شکل و نیک سیرت بیٹی(جو فائنل ائیر کی طالبہ ہے ،کو دیکھنے لڑکے کے ماں باپ اور انکی شادی شدہ بیٹی اپنے شوہر سمیت ان کے گھر گئے لڑکے کے ماں باپ پانچ وقت کے نمازی ہیں اور دوران گفتگو زیادہ تر اسلام ہی کے حوالے سے باتیں کرتے رہتے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اور ان کی شادی شدہ بیٹی گھر کے درودیوار اور ہر چیز کا بغور جائزہ بھی لیتے رہے خوب خاطر تواضع کروا کر بغیر کوئی جواب دیئے واپس چلے گئے ۔

بعد ازاں انہوں‌نے کسی کے ذریعے کہلوا بھیجا کہ انہیں لڑکی اور ٌرکی کے گھر والے تو بے حد پسند آئے لیکن لڑکی پڑھی لکھی زیادہ ہے اس لئے وہ رشتہ نہٰيں کر رہے حالانکہ انکے بقول انکا بیٹا ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے۔ پھر خود وہ یعنی لڑکے کے ماں باپ بھی علمی ذوق رکھتے تھے۔

سوچنے کی بات ہے کہ لڑکی اگر ان پڑھ مہذب ہوتی ہے تو اس قسم کی پڑھی لکھی فیملی کا اسے اپنی بہو بنانے سے انکار  ایک معقول وجہ ہوسکتی تھی لیکن اسکا تعلیم یافتہ ہونا ہی ایک عیب کیوں بن کر رہ گیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

پاک ڈاٹ نیٹ


متعلقہ تحریریں:

اسلام میں طلاق (حصّہ چہارم )

بیٹی  رحمت ہے