• صارفین کی تعداد :
  • 5332
  • 6/13/2009
  • تاريخ :

بابائے اردو مولوی عبدالحق

مولوی عبدالحق

مولوی عبدالحق نے ہاپر میں 1870ء میں جنم لیا۔ کھاتے پیتے خاندان کے فرد تھے۔ ابتدائی تعلیم پنجاب میں حاصل کی۔ ادبی زندگی کا آغاز 1887ء میں کیا۔ اسی زمانے میں بہترین مضمون لکھنے پر لارڈ لینس ڈاؤن سے تمغہ حاصل کیا۔ سرسید کی دور اندیش نگاہوں نے مولوی عبدالحق میں وہ سب کچھ پا لیا جسے وہ دیکھنا چاہتے تھے۔ رسالہ تہذیب الاخلاق میں ان سے کام لینا شروع کیا۔ بی اے کرنے کے بعد مولوی عبدالحق سرسید کی ہدایت پر 1895ء میں حیدرآباد دکن پہنچے۔ مدرسہ آصفیہ میں درس و تدریس پر مامور ہوئے۔ 1914ء میں مہتمم تعلیمات اورنگ آباد ہوئے۔ 1919ء میں صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ بنے۔

1928ء تک انہی خدمات پر مامور رہے اور اسی سال وظیفہ پر سبکدوشی حاصل کرکے دہلی منتقل ہو گئے۔ انہوں نے حیدرآباد میں 43 سال تک قیام کیا۔ ان کی زندگی کا بقیہ حصہ اردو کے فروغ اور اس کی ترویج کے لئے مخصوص رہا، اسی لئے قوم نے انہیں بابائے اردو کے نام سے نوازا۔ بابائے اردو عبدالحق نے اردو زبان کی ایسی خدمت انجام دی جس کی مثال دوسری زبان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق ماہر لسانیات تھے اور تحقیق و تنقید کے ماہر بھی۔ انہوں نے لغت اور تاریخ زبان ترتیب دی۔ انہوں نے کراچی میں اردو کالج کی بنیاد رکھی اور ایک ٹیم بنا کر اس کے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے رہے۔ ان کی خواہش رہی

کہ اپنی زندگی میں اردو یونیورسٹی کی بنیاد رکھ دیں مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اردو یونیورسٹی قائم ہو چکی ہے اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔اردو کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں مولوی عبدالحق نے برصغیر کے چپے چپے کا دورہ کیا۔ ان کی زندگی کا ہر دور مسلسل جدوجہد اور عمل سے بھرپور ہے۔ سستی اور کاہلی ان کو سخت ناپسند تھی۔ تدبر کوشش اور محنت کو فرائض و واجبات کا درجہ دیتے تھے۔

بابائے اردو مطالعے، مشاہدے اور مکالمے کے عادی تھے۔ مطالعے کی عادت ان کی زندگی کا جز تھی۔ تمام زندگی کے مشاہدات کو انہوں نے یکجا کیا اور قوم کے مطالعے کے لئے انہیں چھوڑ دیا۔

اخبارات رسالے اور تاریخ پر انکی گہری نگاہ تھی۔ صدق اور نگار دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ جب پڑھتے پڑھتے تھک جاتے تو احباب سے پڑھوا کے سنتے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ پڑھنے کے بھی اوقات تھے اور لکھنے کے بھی، انکی عادت تھی کہ وہ مضمون کو ایک ہی نشست میں پورا لکھتے۔انجمن ترقی اردو کی بنیاد 1902ء دہلی میں رکھی گئی جس کے پہلے مہتمم اعلیٰ مولانا شبلی نعمانی تھے، جو حیدرآباد میں بیٹھ کر انجمن کے انتظامات دیکھتے تھے۔ انجمن کی پہلی کتاب مئی 1904ء میں شائع ہوئی۔ اسی سال مولانا شبلی نے معتمدی کا چارج حبیب الرحمن شیروانی کو دیا۔ جناب حبیب الرحمن شیروانی نے 1909ء میں معتمدی کی مسند پر مولوی عبدالحق کو نوازا۔ اس وقت انجمن ترقی اردو کے لئے مولوی صاحب لازم و ملزوم تھے۔ ان کا نام عبدالحق تھا اور انجمن کا نام ترقی اردو، 1913ء میں انجمن کا دفتر حیدرآباد منتقل ہو چکا تھا۔ مولوی صاحب نے اپنی کار گزاری سے انجمن کو ہندوستان کی باوقار انجمن بنا دیا۔ انجمن کا سب سے شاندار کام قدیم دکنی ادب اور شعرائے اردو کے تذکروں کی اشاعت ہے۔ مختلف علوم کے تراجم تصانیف، تالیفات، نصابی کتب اور انگریزی اردو لغت کی تدوین ایسے کارنامے ہیں جو تاریخ اور اردو کی کتاب میں ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔ ودیامندر اسکیم کے محاذ پر انجمن ترقی اردو کی یلغاروں اور فتوحات کی فہرست بڑی طویل ہے اور یہ صرف ایک ہی مرد مجاہد کا کام ہے جسے ہم بابائے اردو کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

تحریر:  تحریر : ڈاکٹر نظر کامرانی


متعلقہ تحریریں :

پطرس بخاری بحیثیت مزاح نگار

احمد فراز