• صارفین کی تعداد :
  • 1771
  • 6/2/2009
  • تاريخ :

دہشت گردوں اور اہل سنت کے درمیان حد فاصل

ایران کا جهنڈا

 اسلامی جمہوریۂ ایران کے جنوب مشرقی شہر زاہدان میں واقع ایک مسجد میں عین مغرب کی نماز کے وقت ہونے والا بم کا خوفناک دھماکہ ایک بار پھر اپنے پیچھے ہزاروں سوال چھوڑگیا کہ کون ملوث تھا، مقصد کیا تھا؟ کس کا ہاتھ ہے؟ کس کو نقصان پہنچا؟ کون شہید ہوا اور کون مارا گیا؟ اس طرح کے اور بھی بہت سے سوالات ، مساجد اور مذہبی مقامات پر ہونے والے بم دھماکے اور خودکش حملوں کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے حالیہ ایک عشرے کے دوران پڑوسی ملک پاکستان میں اس کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اسی لئے زاہدان شہر میں ہونے والا حالیہ بم دھماکہ کم از کم اس خطے کے لوگوں کے لئے کوئی حیرت اور تعجب کا مقام نہیں ہے ۔ ان دھماکوں اور خودکش حملوں میں ملوث افراد کی فکر اور قابلیت سب پر عیاں ہے اور اس قسم کے حملوں میں جو لوگ ملوث ہیں ان کی شخصیت اور حیثیت بھی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے ۔ جہالت اور تعصب کے ساتھ غیر ملکی ایجنسیوں کی نگرانی میں پلنے والے افراد اس طرح کے کاموں میں پیش پیش رہے ہیں ، لیکن یہاں جو افسوس ناک پہلو مورد بحث ہے وہ یہ ہے کہ مختلف مکاتیب فکر کے علماء اور مفتیوں نے مذہب کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کھل کر مذمت نہیں کی اور اپنی خاموشی سے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں شیعہ مسلک کی مساجد اور زیارتگاہوں میں دھماکے ہوتے رہے اور بے گناہ لوگ مارے جاتے رہے۔ شیعہ مسلک کے عمائدین اور ڈاکٹرز اور حتی عام شہری چن چن کے قتل کئے گئے۔ آج کی رائج صحافتی اصطلاح کے مطابق ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی لیکن کوئی بھی مفتی اور موثر مذہبی قیادت سامنے نہیں آئی جو ان دہشت گردوں کے قتل کو حرام قرار دیتی اور جب کچھ علما نے ہمت کی اور خودکش حملوں کو حرام قرار دیا تو بعض افراد نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ۔

بہرحال رویت ہلال  کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان صاحب اس میدان کے واحد عالم دین ہیں  کہ جنہوں نے ایک ایسا فتوی جاری کیا کہ جس پر ان کے دیگر ہم فکر علماء کے دستخط تھے اور ان کا اقدام یقینا" قابل ستائش ہے ۔

چنانچہ دیر آید درست آید کے مقولے کے تحت جناب مفتی منیب الرحمان صاحب کے اس اقدام کو عوامی حلقوں میں کافی سراہا گیا۔لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اگر شروع ہی میں مذہب کے نام پر ایک خاص ملک کے لوگوں کو نشانہ بنائے جانے کے اقدام کی مذمت کی جاتی ، مسلمانوں کے قتل کو فعل حرام اور گناہ کبیرہ قرار دے دیا جاتا تو شاید بات آگے نہ بڑھتی لیکن چونکہ ایسا نہیں کیا گیا لہذا دہشت گردوں نے، کہ جن کے ہاتھ سیکڑوں بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگین ہو چکے تھے مزید پر پھیلائے اور بغیر کسی تخصیص کے پورے پاکستان میں خودکش حملوں کا جمعہ بازار لگا دیا۔ کیا شیعہ اور کیا سنی کوئی بھی تو ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہا ۔ یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ خاص طور پر مورد بحث دہشت گرد جو مسلمہ طور پر اسلام دشمن قوتوں سے وابستہ ہیں وہ بھلا  کیوں کسی پر رحم کرنے لگے ۔ چنانچہ زاہدان کے تعلق سے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جو پیغام جاری کیا اس میں یہ نکتہ واضح طور پر موجود ہے کہ اس جرم میں ملوث عناصر نے جہالت اور تعصب کی وجہ سے اس گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرونی مداخلت پسند طاقتیں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ ان بے گناہوں کے قتل عام میں ملوث ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے زاہدان کے اہلسنت علماء  پر زور دیا ہے کہ وہ ابھی سے ہی اس قسم کے بھیانک جرائم میں ملوث گروہ کی مذمت کرکے اہلسنت اور دہشت گرد گروہوں کے درمیان حد فاصل کھینچ دیں ۔

                                      اردو ریڈیو تہران