• صارفین کی تعداد :
  • 3679
  • 5/5/2009
  • تاريخ :

اور اب سورۂ یوسف (ع) کی 36 ویں آیت ، ارشاد ہوتا ہے :

قرآن مجید

اور اب سورۂ یوسف (ع) کی 36 ویں آیت ، ارشاد ہوتا ہے :

" و دخل معہ السّجن فتیان قال احدہما انّی ارانی اعصر خمرا" و قال الآخر انّی ارانی احمل فوق راسی خبزا" تاکل الطّیر منہ نبئّنا بتاویلہ انّا نریٰک من المحسنین "

یعنی [ یوسف (ع) کے ] ہمراہ دو دوسرے جوان بھی زندان میں آئے تھے ان میں سے ایک نے [ یوسف (ع) سے ] کہا :

میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں ( شراب کے لئے ) انگور نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا : میں نے خواب میں دیکھا ہے روٹی ( کا ٹوکرا) سر پر رکھ کر ڈھورہا ہوں اور پرندے اس کو کھارہے ہیں ، ہمیں اس کی تعبیر بتائیے ( کیونکہ ) ہم کو آپ کوئی نیکوکار آدمی نظر آرہے ہیں ۔

عزیزان گرامی ! عزیز مصر کے فیصلے کے تحت جس وقت حضرت یوسف (ع) قیدخانے میں ڈال دئے گئے اسی دوران دو اور شخص جو مصر کے درباری تھے کسی خطا کے تحت جیل خانے مین لائے گئے -

انہوں نے یوسف (ع) کو دیکھا تو ان کی پاکیزگی چہرے سے ظاہر تھی اس لئے انہوں نے سوچا یہ کوئی خدا رسیدہ شخص ہے یا ممکن ہے یوسف (ع) کی پاکدامنی کا قصہ انہوں نے بھی سنا ہو لہذا دونوں نے اپنے اپنے خواب کی تعبیر جناب یوسف (ع) سے پوچھی ، دونوں کے خواب کچھ عجیب سے تھے اور انہیں لگتا تھا کہ ان کا خواب ضرور کوئی خاص مفہوم رکھتا ہے، جناب یوسف (ع) نے ان کے خواب سنے تو جو شخص خواب میں شراب کےلئے انگور نچوڑ رہا تھا اس کی بھی تعبیر بتائی اور جو شخص سر پر روٹی کا خوان لئے پھر رہا تھا اور پرندے اس کو اپنی غذا بنارہے تھے اس کو بھی تعبیر بتادی ۔

اس منزل میں اہم ترین بات یہ ہے کہ نیکوکار انسان ہرجگہ اپنی شخصیت اور مقام بنالیتا ہے جناب یوسف (ع) نے اپنے طور طریقوں سے دوسرے قیدیوں کے دل میں بھی اپنا احترام پیدا کرادیا اور ان پر اس قدر اثر ڈالا کہ وہ اپنے خواب تک ان سے بیان کرنے پر تیار ہوگئے چنانچہ روایات میں ملتا ہے کہ یوسف (ع) نے یہ مقام اور اعتماد و اطمینان لوگوں کے دلوں میں اپنی خدمت سے حاصل کیا تھا وہ جیل خانے میں بیمار قیدیوں کی تیمارداری کرتے ضرورت مندوں کی مدد کرتے اور دوسرے کے کام خود انجام دے دیا کرتے تھے ۔قید میں تھے مگر ان کے انسانی جوہر اور اخلاقی فضائل لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے ۔

اور اب زیر بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

اگر ہم اپنی عفت و پاکدامنی کی حفاظت کریں تو اللہ بھی ہماری مدد کرتا ہے اور ہماری دعا سخت حالات میں قبول کرتا ہے ۔

زلیخا یوسف (ع) کو قید میں ڈالنے پر مصر تھی اور ان کو نافرمانی کی سزا دینا چاہتی تھی مگر یہ قید یوسف (ع) کی نظر میں سرمایۂ نجات اور تقرب الہی کا وسیلہ بن گئی ۔

پاک ہونا اور پاک باقی رہنا دونوں آسان کام نہیں ہے کیونکہ دنیا کے طاغوتی نظام میں پاکیزہ افراد کے لئے دنیا تنگ کردی جاتی ہے جو جتنا زیادہ پاکیزگی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے اتنی ہی زیادہ مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہے ۔

گناہ سے آلودہ معاشروں میں اہل ہوس و اقتدار کے لئے ہر طرح کی آزادی ہے اور صاحبان تقوی و پاکیزگی کے لئے قید و بند کی زندگی ہے ۔

نیکوکار افراد کو ہر جگہ تعریف و ستائش اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے حتی قید خانے میں جرم و گناہ کی سزا بھگتنے والے افراد بھی ان کا احترام کرتے ہیں ۔

قیدیوں کی خدمت اور نیکی راہ حق میں تبلیغ سے متعلق یوسف (ع) کا وہ پہلا قدم ہے جو انہوں نے خدائے یگانہ کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کی راہ میں اٹھایا تھا ۔

اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

سورہ یوسف  ۔ع ۔ (32) ویں  آیت کی تفسیر

سورہ یوسف  ۔ع۔ (31) ویں  آیت کی تفسیر