• صارفین کی تعداد :
  • 2493
  • 4/27/2009
  • تاريخ :

اسلامي ادب كي ترويج ميں اقبال كا كردار (حصّہ سوّم )

علامه اقبال

تسخير و تازگي،‌برق تابي و شعلہ نوشي، بلند نگہي و سخت كوشي، روشن بيني و جہاں باني اور حريت كيشي و بلند پروازي ، يہي وہ صفات ثابتہ ہيں جن سے سچا اسلامي ادب ترتيب پاتا ہے اور جس كا لہو صاحب ساز اقبال كے تاروپود شعري  ميں  رقصاں اور درخشاں  نظر آتا ہے :

رشتہ برشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پو

زبور عجم كي روشن وجود غزلوں كے آخر ميں اقبال نے "بندگي نامہ" كے بڑے عنوان كے تحت غلاموں كے فنون لطيفہ كے خدوخال نمايان كيے ہيں. بس عبرت كا مضمون ہے . غلاموں كے فنون كيا ہيں موت كے منظرنامے ہيں۔ نيستي كے نوحے ہيں يہ نغمے يوں تو صوت و آہنگ ركھتے ہيں مگر زن بيوہ كےنالہ زاري كے مصداق ہيں. اقبال كے نزديك نغمہ ايسا ہو جو دلوں كے اندر خيمہ  زن دكھوں كے سارے كارواں نكال باہر كرے . اس كے خمير ميں ايسا جنون ہو، جو خون دل ميں آگ كي طرح گھلا ملا ديا گيا ہو. (1)

جس شاعر كے كلام ميں برق، گرج، آگ ، لہو، سيل سبك سير، شعلگي اور روشني كي متحرك علامتيں اور تمثاليں ہوں اس كے حركي اور حريت آثار طرز احساس ميں كسے كلام ہو سكتا ہے ؟ ايسا كلام جو عقل و دل دونوں کا شکار کرتا ہے ۔

 جو حرف پیچا پیچ بھی ہے اور حرف نیش دار بھی ،جوفکراور احساس دونوں  كو بيك وقت متاثر كرتا ہے جو فكر كو روشن كرتا ہے اور وجود ميں آگ اگاتا ہے . ذرا ديكھيے اقبال نے دو سمندروں كو دو حرفوں ميں كيسے سمو ديا ہے:

من بہ طبع عصر خود گفتم دو حرف

كردہ ام بحرين را اندر دو ظرف

حرف پيچا پيچ و حرف نيش دار

تا كنم عقل و دل مردان شكار

تا مزاج عصر من ديگر افتاد

طبع من ہنگامہ ديگر نہاد (2)

حق يہ ہے كہ بانگ درا كي كبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی كيا تو نے سے لے كر جاويد نامہ كي سخنے بہ نژاد نو، تك اور ضرب كليم كے محراب گل كے افكار سے لے كر ارمغان حجاز كے ملا زادہ ضيغم لولابي كشميري كے بياض تك، اقبال نے ايك ہي صداقت كو بار بار مگر نو بہ نو پيرايے ميں دہرايا ہے اور وہ صداقت ہے اسلام كا لافاني اور ابدي پيغام جو افراد اور قوم كو رنگ، مقام اور وقت كي جكڑ بنديوں سے آزاد كركے انہيں مرد حر، مرد مصدقہ، مرد مرتضي اور مرد حق بناتا ہے:

از خودي انديش و مرد كار شو

مرد حق شو، حامل اسرار شو (3)

-----------------------------------------------------------------------

مرد حق از آسمان افتاد چو برق

ہيزم او شہر و دشت غرب و شرق

ما ہنوز اندر ظلام كائنات

او شريك اہتمام كائنات

او كليم و او مسيح و او خليل

او محمد-ص-، او كتاب، او جبرئيل(4)

------------------------------------------------------------------------

مرد حر ز درد لا تخف

ما بميدان سر بجيب او سر بكف

مرد حر از لا الہ روشن ضمير

مي نگردد بندہ سلطان و مير

مرد حر چون اشتران بارے  برد

مرد حر بارے برد، خاري خورد

پاي خود را آنچنان محكم نہد

نبض رہ از سوز او برمي جہد

جان او پايندہ تر گردد ز موت

بانگ تكبيرش برون از حرف و صوت

مرد حر درياۓ ژرف و بي كران

آب گير از بحر و ني از ناودان

سينہ ايں مرد مي جوشد جو ديگ

پيش او كوہ گران يك تودہ ريگ (5) 

اقبال سچے شاعر ميں بھی اسي مرد حر اور مرد مصدقہ كي خصوصيات ديكہنے كے متمني ہيں. سچا شاعر بھی حريت، غيرت، بلند نگہي، بے باكي، ايثار، صداقت اور اعلي اقدار حيات كا علم بردار اور پرچم كشا ہوتا ہے.

 مير سے لے كر اقبال تك ہماري شاعري كا ايك قابل لحاظ حصہ اس صداقت شعاري اور اعلائے كلمہ الحق كي گواہي ديتا ہے. مير كو شاعر كے منصب كا كيسا تيز شعور تھا جس نے ان سے اس طرح كا مصرع كہلوايا:

شاعر ہو مت چپكے رہو، اب چپ ميں جانيں جاتي ہيں

اور مير سے سوا سو سال كے فاصلے پر كھڑے اقبال نے شاعر كو يوں جھنجھوڑا:

شاعر! ترے سينے ميں نفس ہے كہ نہيں ہے؟

ضرب كليم كا يہ مصرع كے اسي اقبال كے اسي قبيل كے متعدد اشعار كي ياد دلاتا ہے جو ضرب كليم ميں"ادبيات و فنون لطيفہ" كے زير عنوان شاعر نے يك جا كردئے ہيں. يہ اشعار اقبال كے تصور شعر و فن كا روشن اور حيات اور حيات آفرين منشور كہے جا سكتے ہيں . پہلي ہي نظم" دين و ہنر" دامن دل كھينچتي ہے اور بتلاتي ہے كہ ادب ہو يا فنون جميلہ يا سياست، ان سب كا مقصود خودي كا تحفظ ہے:

سرود وشعر وسياست، كتاب و دين و ہنر

گہر ہيں ان كي گرہ ميں تمام يك دانہ

ضمير بندہ خاكي سے ہے نمود ان كي

بلند تر ہے ستاروں سے ان كا كاشانہ

اگر خودي كي حفاظت كريں تو عين حيات

نہ كر سكيں تو سراپا فسون و افسانہ

ہوئي ہے زير فلك، امتوں كي رسواوي

خودي سے جب ادب و دين ہوئے ہيں بيگانہ(6)

--------------------------------------------------------------------

ہے شعر عجم گرچہ طربناك و دل آويز

اس شہر سے ہوتي نہيں شمشير خودي تيز

افسردہ اگر اس كي نوا سے ہو گلستان

بہتر ہے كہ خاموش رہے مرغ سحر خيز (7)

1. تفضيل كے ليے ملاحظه كيجيے كليات اقبال (فارسي) كے 575، 587

2. كليات اقبال (فارسي)، ص 790.

3. كليات اقبال (فارسي) ،ص  53(اسرار خودي)

4. كليات اقبال (فارسي)، ص 795 (جاويد نامه)

5. كليات اقبال (فارسي)،ص  823 (پس چه بايد كرد)

6. كليات اقبال (فارسي)،ص 100 (ضرب كليم)

7. كليات اقبال (فارسي) ، ص 128(ضرب كليم)

                                                                                                                                                   جاری هے

ڈاکٹر تحسین فراقی

شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ  تحریریں:

شاعر مشرق حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال

تیرے شہر کو تاقیامت نہ بھول پاۓ گی دنیا

مسلم مملکت کا فکری رہبراورنظریہ داں