• صارفین کی تعداد :
  • 3545
  • 4/18/2009
  • تاريخ :

تحريف عملي و معنوي قرآن کريم ، ايک جائزہ (حصّہ سوّم )

قرآن کریم

تحریف کے اصطلاحي معني : قرآن  کے الفاظ ميں تصرف کرنے کوتحريف کہتے ہیں۔پس پتہ چلا کہ تحريف لغوي سے مرادتحريف معنوي ہے اورتحريف لفظي سے مرادتحريف اصطلاحي ہے ۔

اقسام تحريف :

١) تحريف عملي: يعني قرآني تعليمات کے برخلاف عمل کرنا۔

٢)تحريف معنوي : يعني کلام الہٰي کے حقیقي مفہوم کواس کے برخلاف تفسيروتاويل کرنا۔

٣)تحريف لفظي : يعني کلام الہٰي ميں کمي يا زيادتي کرنا اور آيات قرآني کونزول قرآن کي ترتيب سے پيش نہ کرنے کو بھي تحريف لفظي سے تعبيرکيا جاتا ہے ۔

سوال يہ اٹھتا ہے کہ تحريف عملي اورتحريف

معنوي، ان دونوں کے بارے ميں علماء  کا متفقہ فيصلہ اور ہمارا اور آپ کا روزمرہ کا مشاہدہ بھي ہے کہ قرآن ميں تحريف عملي بھي ہوئي اورتحريف معنوي بھي، يعني ہر روز کتني ايسي اسلامي اور قرآني تعليمات ہیں کہ جو امت اسلام کے ہاتھوں پامال ہوتے ہیں اورکتني ايسي خلاف ورزياں ہیں کہ جو ہر روز انجام پاتي  ہیں ۔ پس اس حقیقت کونظرميں رکھتے ہوئے کوئي يہ دعويٰ نہيں کرسکتا کہ تمام مسلمان قرآن پرصد درصد عمل پيرا ہیں۔ اگرچہ وہ قرآن کي حقانيت کوتسليم کرتے ہیں،اوراس پرکامل ايمان رکھتے ہیں۔

تحريف معنوي :اسي طرح تحريف معنوي کامسئلہ ہے يعني آسماني کتابوں کي ہميشہ يہ مظلوميت رہي ہے کہ ہر دور ميں آسماني کتابوں کومفسروں نے تفسير بالرائے کے ذريعے اس کے حقیقي معني کوبدل ديا ہے۔ خود قرآن مجيد اس حقيقت کا اعتراف  کرتے ہوئے کہتا ہے:

فاماالذين في قلوبھم زيغ فيتبعون ماتشابہ منہ ابتغائ الفتنۃ وابتغائ تاويلہ 

( آل عمران : ٧)

ترجمہ : اب جن کے دلوں ميں کجي ہے وہ انہيں متشابہات کے پيچھے لگ جاتے ہیں، تاکہ فتنہ برپا کریں اور من ماني تاويليں کريں ۔

اور آئمہ علیم اسلام  کے کلام ميں قرآن کے اندر تحريف معنوي کے واقع ہونے کا ذکر ملتا ہے کہ قرآن ميں تحريف معنوي ہوئي اورلوگوں نے اس کتاب کا معنوي چہرہ بگاڑنا چاہا ہے، اورافسوس تويہ ہے کہ جاہل افراد ايسي تحريف پرخوش ہیں ، اور اگر قرآن  کي حقیقي تفسيرکي جائے تو وہ قرآن کو بے اہميت سمجھنے لگتے ہیں۔

حضرت علي علیہ السلام  ٴفرماتے ہیں: اليٰ اللہ اشکو من معشر يعشون جھالاً و يموتون ضلالاً ليس فيھم سلعۃ ابور من الکتاب اذاتليٰ حق تلاوتہ ولاسلعۃ انفق بيعاً ولااغليٰ ثمناً من الکتاب اذاحرف عن مواضعہ

ترجمہ : اللہ ہي سے شکوہ ہے ان لوگوں کا جو جہالت ميں جيتے ہیں اورگمراہي ميں مرجاتے ہیں ، ان ميں قرآن سے زیادہ کوئي بے ارزش چيز نہيں ہے جبکہ اسے اس طرح پيش کيا جائے جيسا کہ پيش کرنے کا حق ہے۔ اوراسي طرح قرآن سے زيادہ ان ميں مقبول اورقيمتي چیزنہيں ہے اس وقت جب کہ اس کي يتوں کا بے محل استعمال ہو۔

ہمارامشاہدہ يہ بتاتا ہے کہ تمام اسلامي فرقے اپنے مکتب اورمسلک کي حقانيت کوثابت کرنے کيلئے قرآ ن کا سہارا ليتے ہیں اوراسي سے استناد کرتے ہیں،جبکہ تمام فرقے حق پرنہيں ہیں، صرف ايک فرقہ حق پر ہے ليکن ہم ديکھتے ہیں کہ تمام  اسلامي فرقوں کا منبع اورماخذ يہي قر آن ہے ، دراصل يہ لوگ يت کي ڈور پکڑ کراس کارخ اپني ہوا و ہوس اور اپني ذاتي اور شخصي فکر کي طرف موڑ ديتے ہیں۔

اب يہاں کوئي سوال کرسکتا ہے کہ جب مسلمانوں کي کتاب ايک ہے اور دين ايک ہے، تو پھر يہ فکري اختلاف اور اختلاف مسالک کا کيا سبب ہے ؟ جواب يہ ہے کہ جب گھرکي بات کو گھر والوں سے نہ سمجھا جائے توتفرقہ اس کا لازمي نتيجہ ہے ۔ جب رسول اکرم (ص ) نے حديث ثقلين ميں پہچنوا ديا کہ ديکھو قرآ ن کے حقيقي مفسر اور ظاہر و باطن کے جاننے والے يہ اہل بيت (ع ) ہيں۔ اس کے باوجود امت نے اہل بيت (ع) کوچھوڑ کردشمنان اہلبيت  سے اور اہلبيت  کے علاوہ دوسرے افراد سے قرآن سيکھنا چاہا ، جس کا نتيجہ ايک اسلام کے بہتّر فرقے ہیں۔ اہل بيت کو چھوڑنے والوں نے اس خيال ميں چھوڑ ديا کہ ہمارے لئے کتاب کافي ہے۔ کيونکہ يہ روشن عربي ميں نازل ہوئي اوراس کا سمجھنا ہمارے لئے کچھ مشکل نہيں اسي غلط فہمي کا نتيجہ ہے کہ آج مفوضہ اورشيجينہ اورباطنيہ اشاعرہ جيسے کلامي فرقے وجودميں آئے ۔تفسيربالراي کے خطرات کي واضح مثال فرقہ باطنيہ ميں ديکھ سکتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ قرآن کاايک ظاہراورايک باطن ہوتاہے، ظاہر کي مثال ’’ قشراورچھلکے ‘‘ کي طرح ہے اور باطن کي مثال مغز اور لب کي طرح ہے اور اسي ادراک کا نتيجہ ہے کہ وہ احتلام سے مرادافشاء راز اور غسل سے مراد تجدیدعہد ليتے ہیں اور زکات کوتزکيہ نفس اور ان الصلوٰۃ تنھيٰ عن الفحشاء والمنکر  ميں صلوٰۃ کو رسول اکرم (ص ) سے تعبيرکرتے ہیں۔

آئمہ (ع)  اسي دن سے ڈرتے تھے اورلوگوں کو تفسير بالرائے سے روکتے تھے۔ کيونکہ تفسيربالرائے کا نتيجہ تفرقہ اور اختلاف ہے ۔ آئمہ (ع)  کي اتني مخالفت کے باوجودہم دیکھتے ہیں کہ امت اسلاميہ کاشيرازہ بکھرا ہواہے ۔

اس تاسف بار کا ذکر کرتے ہوئے امام باقر ٴ فرماتے ہیں:

وکان من تبعھم الکتاب ان اقامواحروفہ وحرفواحدودہ فھم يرونہ ولايرعونہ والجھال يعجبھم حفظھم للروايۃوالعلماء يحزنھم ترکھم للروايۃ 

 (البيان في تفسيرالقرن ج٥ ص٢٨٤)

ان مختلف دلائل سے روشن ہوتاہے کہ قرآن کے اندر معنوي اورعملي تحريف واقع ہوئي اوراس سے انکارايک ناممکن سي بات ہے۔ آج قرآن کو ليکر اسلام کا ہر فرقہ اپني حقانيت ثابت کرنے پرتلا ہے۔ اور اس پردوسرے فرقے اسي قرآن کي بنياد پر باطل پر ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس کامطلب بالکل واضح ہے کہ يہاں پر دو ہي صورتیں ہوسکتي ہیں يا انہوں نے قرآن  کوسمجھا نہيں ہے، يا پھرسمجھ ليا ہے ليکن اپنے مفادات کي خاطراس کے حقيقي اورواقعي معني کو حاصل نہيں کرنا چاہتے ہیں اوراس طرح معنوي تحريف کرکے قرآن کواپنے لئے ايک سپربنائے ہوئے ہیں۔

تحریر: محمد عباس حيدر آبادي