• صارفین کی تعداد :
  • 3307
  • 4/12/2009
  • تاريخ :

مغربی دنیا کا اخلاق (حصّہ اوّل )

مغرب کے حال کی زندگی

یورپین کی زندگی ایک مشینی زندگی ہوکر رہ گئی ہے اور ایک ایسے جسم کی حرکت بن گئی ہے جس میں روح حیات نہ رہی ہو ۔ مادی زندگی کے مختلف شئون میں ترقی کرنے کی وجہ سےمتمدن انسان بہت سی مصیبتوں اور جھمیلوں سے چھٹکارا پا چکا ہے اوررفاہ و آسائش کیطرف بہت آگے بڑھ چکا ہے لیکن اس کے باوجود روح مادیت نے تمام مظاہر حیات میں لوگوں کی توجہ کو بہت سے حقائق کی معرفت سے روک رکھا ہے ۔اور اسی وجہ سے اخلاقی و معنوی جہالت طاق نسیاں کے سپرد ہوگئے ۔

آج کا تمدن اپنے ہمراہ جو مصیبتیں اور ناگواریاں لے کر آیا ہے ان کو آنکھ بند کرکے قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ اب تک جتنے بھی ایجادات ، اکتشافات زندگی کوسہل بنانے اور تمدن کو آگے بڑھانے کے لئے کئے گئے ہیں وہ انسانی تشویش و فکری ناراحتی کونہ تو دور کرسکے ہیں اور نہ ہی اجتماعی خطرناک قسم کے بحران و مشکلات کو دور کرکے معاشرے کی خوش بختی و راحت کو واپس لاسکے ہیں ۔

انسان مختلف جسمانی ضرورتوں کے علاوہ ایک عطش معنوی اور طلب روحی بھی رکھتا ہے ۔ انسان جس طرح جسمانی لذتوں کا شیفتہ و شیدائی ہے اسی طرح فکری پناہ گاہ اور معنوی ضرورتوں کا بھی خواہش مند ہے تاکہ مادے کے علاوہ دوسری ضرورتوں کو پورا کرسکے افکار انسانی کو دائرہ مادیت کے اندر محدود کرنا ایک ناقابل معافی گناہ ہے اور فطرت انسانی سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں ہے ۔

بشریت کی بزرگ ترین تمنا یعنی سعادت بخش زندگی کا پہلا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب فکراپنی سیرت کامل میں تمدن مادی کے مرحلے سے گزر جائے اور صنعتی و علمی تعجب خیز صلاحیتوں کی ترقی ہوجائے اور روحانی قوتیں بروئے کار آ جائیں ۔

 اور کمالات انسانی کے اس منبع سے صحیح فائدہ حاصل کیا جانے لگے ۔ کیونکہ ان دونوں قوتوں کے توازن کے بغیر صد درصد انسانی سعادت حاصل نہیں کی جا سکتی ۔

اخلاقی اور اجتماعی عیوب کودیکھنےکے بعد ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ بشری تکامل کے اسباب شائستہ طریقے سے پورے نہیں ہیں اورآج کے انسان نے خوش بختی کے اسباب معلوم کرنےمیں اشتباہ کیا ہے ۔

لیکن اسی کے ساتھ یہ بات بھی مسلم ہے کہ )صفحات تاریخ میں کوئی بھی قوم ایسی نہیں گذری کہ جس کے زندگی کے تمام گوشوں میں فساد ہی فساد ہو اورکوئی خوبی ان کے اندر موجود ہی نہ ہو ، اسی طرح مغربی دنیا میں تمام تر اخلاقی  مفاسد کے باوجود ابھی کچھ خوبیاں باقی ہیں ، مثلا زیادہ تر لوگ امانتدار ہیں ، سچےہیں ، اگرچہ ان خوبیوں سے ان برائیوں کا جبران نہیں ہوسکتا ، یہ چیزیں اخلاقی فضائل میں یقینا شمار ہوتی ہیں مگر یہ بھی توممکن ہے کہ یہ چیزیں مختلف مصالح کی بناء پر کی جاتی ہوں اورکچھ خاص عوامل و اسباب کے ماتحت بجا لائی جاتی ہوں ۔ مغربی دنیا میں ان اخلاقی سرمایہ کو دین کا جزو نہیں سمجھا جاتا اور نہ ان کی بجا آوری  آسمانی قانون ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے اس لئے نہ تو ان کی کوئی قیمت ہے اور نہ کوئی معنویت ہے یہ تو صرف حصول منفعت کی خاطر ان چیزوں کو کرتے ہیں ۔ وہاں کے لوگ ان اخلاقیات کو مادی منفعت کے دریچے سے دیکھتے ہیں اور معاملات میں ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔اگر ان اخلاقیات اور مکارم اخلاق میں کوئی مادی منفعت نہ ہو تو پھر نہ ان کا کوئی اعتبار ہوگا نہ ان کی کوئی قیمت ہوگی اس لئے تمام مغربی دنیا میں اخلاق کو حصول منفعت کا وسیلہ سمجھ کربرتا جاتا ہے ۔

اورعصمت و عفت کے معاملے میں تو مغرب نے حریم اخلاق سے بہت زیادہ تجاوز کرلیا ہے اور اس مسئلے میں تباہی اپنے درجہ کمال کو پہنچ چکی ہے ۔ابتداء میں ہر شخص اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ عصمت ایک انمول موتی ہے اس کا برباد ہو جانا اخلاقی تباہی ہے ۔ لیکن رفتہ رفتہ یا تو یہ حقیقت فراموش کردی گئی اوریا پھر گمراہ کرنے والوں نے اس کو ختم کردیا ۔

اس دور میں پاک دامنی اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھی ہے گویا کہ صحت معاشرہ سے دامن کش ہوچکی ہے ۔ایک دوست نقل کررہا تھا :

جرمنی کے ریڈیو سے ایک دن ایک نوجوان عورت اپنی مشکل کو پیش کرکے اس کا حل چاہتی تھی اس نے کہا میں ایک ایسی لڑکی ہوں جس نے ایک جوان سے سالہا سال محبت کی ہے لیکن امتداد زمانہ اور ہر وقت کی صحبت ، پے در پے محبت کرنے سے میری محبت میں کافی کمی آ چکی ہے ۔

اب میں نے طے کرلیا ہے کہ کسی دوسرے نوجوان سے رابطہ مہر والفت قائم کروں گی ۔ کیا میں اس نوجوان کو نہ کھوتے ہوئے دوسرے سے محبت کے پینگ بڑھاؤں یا اسی نوجوان پر اکتفا کروں اوردوسرے کا خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دوں ؟ رہبر نے جواب دیا کہ 28 سال سے پہلے تم ایک یا کئی سے تعلقات رکھ سکتی ہو ، اس کی وجہ سے تم کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن مقامات سےنفوس بشری کی تہذیب و اصلاح ہونی چاہئے ،عفت ، تقوی ، فضیلت کی ترویج کرنی چاہئے ، انھیں مقامات سے ترویج فحشاء و منکر ہورہی ہے اور خود راہنما انحراف و ناپاکی و گمراہی کا مرتکب ہونے کے ساتھ ساتھ اس قسم کے لوگوں کی پشت پناہی بھی کرتا ہے اور اخلاقی قید و بند کوتوڑدینے کا حکم عام کرتا ہے ، اور روابط خصوصی کے ضمن میں شادی سے پہلے فحشاء کے مفہوم واقعی کو بدلنا چاہتا ہے اور آزادی مطلق کے نام پر شادی سے پہلے کی بے راہ روی کو بےعفتی کے دائرے سے خارج کرنا چاہتا ہے اور لوگوں کوشرف و تقوی کےبرخلاف ابھارتا ہے ۔

ویل ڈورانٹ مشہور جامعہ شناس تحریر کرتے ہیں : شہری زندگی کچھ ایسی ہوگئی ہے جو آدمی کو شادی بیاہ سے روکتی ہے ، یہاں کی زندگی لوگوں کی جنسی شہوت کو ہمہ وقت رابطہ جنسی کی بناء پر ابھارتی رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نامشروع طریقے سے اس جذبے کو سکون پہنچانا بہت آسان ہوگیا ہے ۔

                                                                                                                                                        جاری ہے

بشکریہ مبلغ ڈاٹ نیٹ