• صارفین کی تعداد :
  • 5191
  • 4/18/2009
  • تاريخ :

شادی جسم و جان اور قسمت و سر نوشت کا ملاپ (حصہ دوم)

شادی

اسلام کي رُو سے گھر بسانا ايک فريضہ ہے اور يہ ايسا عملي فريضہ ہے کہ مرد و عورت مل کر اس کام کو ايک ’’خدائي امر‘‘ اور ايک ’’وظيفے‘‘ کے تحت انجام ديں۔ اگرچہ کہ ’’شادي‘‘ کو شرعاً زمرہ واجبات ميں (براہ راست) ذکر نہيں کيا گيا ہے ليکن اسلامي تعليمات ميں اس امر کے لئے اتني توجہ اور ترغيب دلائي گئي ہے کہ انسان سمجھ جاتا ہے کہ خداوند عالم اس امر کے لئے کتنا اصرار کرتا ہے۔

 

يہ اصرار صرف ايک کام کو معمولي طور سے انجام دينے کے لئے نہيں ہے بلکہ ايک يادگار واقعے اور انساني زندگي اور معاشرے پر تاثير گزار امر کي حيثيت سے اس پر توجہ دي گئي ہے، لہٰذا اسي لئے نوجوان لڑکے اور لڑکي کے بندھن پر اتني زيادہ ترغيب دلائي گئي ہے اور ’’جدائي‘‘ اور ’’دوري‘‘ کو مذمت کي نگاہ سے ديکھا گيا ہے۔ خداوند عالم مرد اور عورت کي تنہا زندگي کو پسنديدہ نگاہ سے نہيں ديکھتا ہے۔

 

 خاص طور پر وہ جو نوجوان ہوں اور شادي اور گھر بسانے کي دہليز پر کھڑے ہو کر بھي تنہائي کو ترجيح ديں۔ ايک مرد اور عورت کا تمام زندگي اکيلے زندگي گذارنا، اسلام کي نگاہ ميں کوئي مطلوب چيز نہيں ہے۔ ايسا انسان، معاشرے ميں ايک بيگانے موجود کي مانند ہے۔ اسلام کي خواہش يہ ہے کہ ايک گھرانہ، انساني معاشرے کي ايک حقيقي اکائي ہو نہ کہ ايک اکيلا انسان۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا کہ ’’نکاح ميري سنت ہے‘‘۔

 البتہ، تخليق انساني کي ايک خاص روش ہے اور تمام انسانوں اور تمام اقوام و اديان ميں يہ روش رہي ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کيوں فرمايا کہ يہ ميري سنت ہے؟ آخر اس کو اپني سنت قرار دينے اور اپنے رفتار و عمل سے مخصوص کرنے کے کيا اسباب ہيں؟ شايد يہ سب اس جہت سے ہو کہ اسلام نے گھر بسانے کے لئے بہت زيادہ تاکيد کي ہے جب کہ دوسري شريعتوں اور اديان ميں شادي پر کم تاکيد کي گئي ہے۔

اسلام نے ’’شادي‘‘اور ’’گھر بسانے‘‘ پر جو تاکيد کي ہے کہ وہ دنيا کے کسي بھي مکتبِ فکر اور دنيا ميں رائج کسي بھي فلسفے اور سياست ميں موجود نہيں ہے۔ اسلام اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ لڑکے اور لڑکياں اس سن و سال ميں شادي کريں کہ جس ميں وہ (جسماني و عقلي طور پر) شادي کے قابل ہوجائيں۔ نکاح، فطري تقاضے کو پورا کرنے کے علاوہ ايک ديني اور اسلامي سنت بھي ہے۔۔

                                                                                                                                                   ختم شد

تحریر:   نایاب نقوی ( القلم ڈاٹ او آر جی )


متعلقہ تحریریں:

ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے لمحہ فکر و عمل

خودسازي