یہ طبیعت ہے تو خود آزار بن جائیں گے ہم |
چارہ گر روئیں گے اور غمخوار بن جائیں گے ہم |
ہم سرِ چاکِ وفا ہیں اور تیرا دستِ ہنر |
جو بنا دے گا ہمیں اے یار بن جائیں گے ہم |
کیا خبر تھی اے نگارِشعر تیرے عشق میں |
دلبرانِ شہر کے دلدار بن جائیں گے ہم |
سخت جاں ہیں پر ہماری استواری پر نہ جا |
ایسے ٹوٹیں گے تیرا اقرار بن جائیں گے ہم |
اور کچھ دن بیٹھنے دو کوئے جاں میں ہمیں |
رفتہ رفتہ سایہء دیوار بن جائیں گے ہم |
اس قدر آساں نہ ہوگی ہر کسی سے دوستی |
آشنائی میں تیرا معیار بن جائیں گے ہم |
میر و غالب کیا کہ بن پائے نہیں فیض و فراق |
زعم یہ تھا رومی و اوتار بن جائیں گے ہم |
دیکھنے میں شاخِ گل لگتے ہیں لیکن دیکھنا |
دستِ گلچیں کے لئے تلوار بن جائیں گے ہم |
ہم چراغوں کو تو تاریکی سے لڑنا ہے فراز |
گل ہوئے پر صبح کے آثار بن جائیں گے ہم |