• صارفین کی تعداد :
  • 3679
  • 3/9/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف  ۔ع۔ (28۔29) ویں  آیات کی تفسیر

قرآن مجید

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

عزيزان گرامی ! الہی تعلیمات پر مشتمل پیام قرآن میں آج ہم یہ اپنی آسان و عام فہم سلسلہ وار تفسیر سورۂ یوسف (ع) کی اٹھائیسویں آیت کی تلاوت سے شروع کررہے ہیں خدا کے نبی ، حضرت یوسف (ع) پر عزیز مصر کی بیوی کی جانب سے لگائے گئے اتہام اور خود بیوی کے خاندان کی ایک فرد ۔ گہوارے کے بچے یا کسی عاقل و فرزانہ شخص ۔ کے فیصلے کے بعد قرآن کہتا ہے:

" فلمّا را قمیصہ قدّمن دبر قال انّہ من کید کنّ انّ کیدکنّ عظیم "

( یعنی ) جس وقت عزيز مصر نے دیکھا کہ یوسف (ع)  کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے ( تو حقیقت سمجھ میں آ گئی ) اور اس نے کہا : بے شک یہ تم عورتوں کی مکاری ہے یقینا" تمہاری مکاریاں بڑی ہیں عظیم ہوتی ہیں۔ عزیزان محترم ! جس وقت جناب یوسف  (ع) نے زلیخا کی طرف سے بے حیائی کی خود سپردگی سے خود کو نجات دینے کے لئے دروازے کی جانب دوڑ لگائی زلیخا نے قمیص پکڑلی اور قمیص کا پچھلا دامن پھٹ گیا اور دیکھنے والوں نے جب دیکھا کہ دامن پیچھے سے پھٹا ہے تو یوسف (ع) کا بے قصور ہونا بھی واضح ہو گیا چنانچہ عزیز مصر کو بھی پتہ چل گیا کہ ان کی بیوی جھوٹ بول رہی ہے چنانچہ آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ مسئلہ واضح ہو جانے کے بعد عزيز مصر نے بیوی سے کہا کہ یہ ڈرامہ تم عورتوں کی مکاری کو نمایاں کرتا ہے واقعا" تم بری ہی عظیم مکار واقع ہوئی ہو " البتہ یہاں توجہ رہے کہ " عورتوں کا مکار ہونا " یہاں قرآن نے عزيز مصر کی زبانی نقل کیا ہے کہ ان کے معاشرے میں اس طرح کا تصور پایا جاتا تھا یہ نقل قول ہے ، اللہ کا قول نہیں ہے کہ اس کو عورت کی خصوصیت قرار دیا جا سکے جیسا کہ بعض ناسمجھوں نے ، اس قول کی بنیاد پر تمام " عورتوں کو مکر و فریب کا پتلا " باور کرانے کی کوشش کی ہے قرآن کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے اور آیت سے اس طرح کا نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے ۔

اور اب سورۂ یوسف کی آيت 29 ارشاد ہوتا ہے :

" یوسف اعرض عن ہذا و استغفری لذنبک انّک کنت من الخاطئین "

[ بیوی کے بعد عزيز مصر نے حضرت یوسف  (ع) کو مخاطب قرار دیا کہ ] یوسف (ع) اب اس بات کو نظر انداز کرکے ( بھول جاؤ اور اس کا دوسروں سے ذکر نہ کرنا ) اور پھر ( بیوی سے ) کہا تو ( بھی) اپنے گناہ سے توبہ کر بے شک تو خطاکاروں میں سے ہے  ۔

ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ عزيز مصر ایک عاقل و سمجھدار ، انصاف پسند شخص تھا کیونکہ جب یہ تلخ حقیقت اس کے سامنے آئی تو مشتعل ہوکر غیظ و غضب کا غیر انسانی مظاہرہ کرنے کے بجائے ،مسئلے کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کی اور جب یوسف  (ع) کی بے گناہی کا یقین پیدا ہو گیا تو یوسف (ع) سے دبے لفظوں میں اپنی بیوی کی نازیبا حرکت پر، اپنی مالکانہ شان اور ناموس کی آبرو کو باقی رکھتے ہوئے، واقعہ کو بھلا دینے کی خواہش کی کہ اس بات کا کہیں ذکر کئے بغیر مسئلے کو درگزر کردو اور پھر بیوی کو بھی باور کرادیا کہ تم خطا کار و گناہ گار ہو اور توبہ و استغفار کے سوا تمہارے لئے کوئی اور راہ باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ایک عزت دار شخص سے اس کے علاوہ کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے دنیا میں ایسے بھی بے غیرت شوہر پائے جاتے ہیں جو اپنی بیوی کی طرف سے یقین نہیں ،معمولی سا شک بھی ہوجائے تو مارپیٹ ، لڑائی جھگڑا اور طلاق و جدائی تک کا فیصلہ کربیٹھتے ہیں ۔اور نہ صرف یہ کہ دو طرفہ بدنامی کا باعث بنتے ہیں بلکہ ایک خوشگوار زندگی کو خود ہی تباہ کردیتے ہیں ۔

                        اردو ریڈیو تہران