• صارفین کی تعداد :
  • 3539
  • 3/2/2009
  • تاريخ :

تصویرِ درد

لالہ

نہیں منت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری

خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری

یہ دستورِ زِباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے ، کچھ گُل نے

چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

اڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے

چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری

ٹپک اے شمع! آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے

سراپا درد ہوں، حسرت بھری ہے داستاں میری

الہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دُنیا میں رہنے کا

حیاتِ جاوداں میری، نہ مرگِ ناگہاں میری !

مرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا

وہ گل ہوں میں ، خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری

''دریں حسرت سرا عمریست افسونِ جرس دارم
ز  فیضِ دل تپید نہا خروشِ بے نفس دارم''

ریاضِ دہر میں نا آشنائے بزمِ عشرت ہوں

خوشی روتی ہے جس کو، میں وہ محروِم مسرّت ہوں

مری بگڑی ہوئی تقدیر کو روتی ہے گویائی

میں حرفِ زیرِ لب، شرمندۂ گوشِ سماعت ہوں

پریشاں ہوں میں مشتِ خاک، لیکن کچھ نہیں کھلتا

سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گردِ کدورت ہوں

یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا

سراپا نور ہو جس کی حقیقت، میں وہ ظلمت ہوں

خزینہ ہوں ، چھپایا مجھ کو مشتِ خاک صحرانے

کسی کو کیا خبر ہےمیں کہاں ہوں، کس کی دولت ہوں؟

نظر میری نہیں ممنونِ سیرِ عرصۂ ہستی

میں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں

نہ صہبا ہوں، نہ ساقی ہوں، نہ مستی ہوں، نہ پیمانہ

میں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں

مجھے رازِ دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے

عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیں بیانوں میں

کہ بامِ عرش کے طائر ہیں میرے ہمزبانوں میں

اثر یہ بھی ہے اک میرے جنونِ فتنہ ساماں کا

مرا آئینۂ دل ہے قضا کے رازدانوں میں

رلاتا ہے ترا نظّارہ اے ہندوستاں! مجھ کو

کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں

دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا

لکھا کلکِ ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں

نشانِ برگِ گُل تک بھی نہ چھوڑا اس باغ میں گلچیں

تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں

چھپا کے آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے

عناَ دِل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

سن اے غافل صدا میری! یہ ایسی چیز ہے جس کو

وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں

وطن کی فکر کرناداں! مصیبت آنے والی ہے

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے ولا ہے

دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں

یہ خاموشی کہاں تک؟ لذّت فریاد پیدا کر

زمیں پر تو ہو، اور تیری صدا ہو آسمانوں میں

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو

تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزن، محبوُبِ فطرت ہے

ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کرکے چھوڑوں گا

لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کرکے چھوڑوں گا

جلانا ہے مجھے ہر شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے

تری تاریک راتوں میں چراغاں کرکے چھوڑوں گا

مگر غنچوں کی صورت ہوں دِل درد آشنا پیدا

چمن میں مشتِ خاک اپنی پریشاں کرکے چھوڑوں گا

پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو

جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا

مجھے اے ہم نشیں! رہنے دے شغِل سینہ کاوی میں

کہ میں داغِ محبّت کو نمایاں کرکے چھوڑوں گا

دکھا دوں گا جہاں کو جو مری آنکھوں نے دیکھا ہے

تجھے بھی صورتِ آئینہ حیراں کرکے چھوڑوں گا

جو ہے پردوں میں پنہاں، چشمِ بینا دیکھ لیتی ہے
زمانے کے طبعیت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے

کیا رفعت کی لذّت سے نہ دل کو آشنا تو نے

گزاری عمر پستی میں مثالِ نقشِ پا تونے

رہا دل بستۂ محفل، مگر اپی نگاہوں کو

یا بیرونِ محفل سے نہ حیرت آشنا تو نے

فدا کرتا رہا دل کو حسینوں کی اداؤں پر

مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی اَدا تونے

تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں

یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے بُرا تو نے

!سراپا نالۂ بیدادِ سوزِ زندگی ہوجا

سپند آسا گرہ میں باندھ رکھی ہے صدا تو نے

صفائے دل کو کیا آرائشِ رنگِ تعلق سے

کف آئینہ پر باندھی ہے اوناداں حنا تو نے

زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے

غضب ہے سطرِ قرآں کو چلپیپا کردی تونے !

زباں سے گر کیا توحید کا دعوٰی تو کیا حاصل

بنایا ہے بتِ پندار کو اپنا خدا تو نے

کنوئیں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا

ارے غافل! جو مطلق تھا مقیّد کردیا تونے

ہوس بالائے منبر ہے تجے رنگیں بیانی کی
نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی

دکھا وہ حسِن عالم سوز اپنی چشمِ پرنم کو

جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو

نرا نظّارہ ہی اے بوالہوس  مقصد نہیں اس کا

بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ چشمِ آدم کو

اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا

نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو

شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا

یہ وہ پھل ہے کہ جنّت ے نکلواتا ہے آدم کو

نہ اٹھا جذبۂ خورشید سے اک برگِ گل تک بھی

یہ رفعت کی تمنّا ے کہ ے اُڑتی ہے شبنم کو

پھرا کرتے نہیں مجروحِ الفت فکرِ درماں میں

یہ زخمی آپ کرلیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو

محبّت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے

دوا ہر دکھ کی ہے مجروحِ تیغِ آرزو رہنا

علاجِ زخم ہے آزادِ احسانِ رفو رہنا

شرابِ بیخودی سے تا فلک پرواز ہے میری

شکستِ رنگ سے سیکھا ہےمیں نے بن کے بو رہنا

تھمے کیا دیدۂ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں

عبادت چشمِ شاعر کی ہے ہردم باوضو رہنا

بنائیں کیا سمجھ کر شاخِ گل پر آشیاں اپنا

چمن میں آہ! کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا

جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبّت میں

غلامی ہے اسیرِ امتیازِ ما و تو رہنا

یہ استغناً ہےپای میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو

تجھے بھی چاہیٔے مثِل حباب آبجو رہنا

نہ رہ اپنوں سے بے پروا اسی میں خیر ہے تیری

اگر منظور ہے دنیا میں اوبگانہ خو  رہنا

شرابِ رُوح پرور ہے محبّت نوع انساں کی

سکھایا اس نےمجکو مست بے جام و سبو رہنا

محبّت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے

بیابانِ محبّت دشتِ غربت بھی، وطن بھی ہے

یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے

محبّت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے صحرا بھی

جرس بھی، کارواں بھی، راہبربھی، راہزن بھی ہے

مرض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرض ایسا

چھپا جس میں علاجِ گردشِ چرخِ کہن بھی ہے

جلانا دل کا ہےگویا سراپا نور ہوجانا

یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمعِ انجمن بھی ہے

وہی اک حسن ہے، لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں

یہ شیریں بھی ہے گویا، بسیتوں بھی، کوہکن بھی ہے

اجاڑا ہے تمیزِ ملت و آئیں نے قوموں کو

مرے اہلِ وطن کے دل میں کچھ فکرِ وطن بھی ہے؟

سکوت آموز طولِ داستاں درد ہے، ورنہ

زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تابِ سخن بھی ہے

'' نمیگردید کوتہ رشتۂ معنی رہا  کردم"

حکایت بود بے پایاں، بخاموشی ادا کردم''

شاعر کا  نام : علامہ محمد اقبال ( iqbal )

کتاب کا نام : بانگ درا  ( bang e dara )

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان