• صارفین کی تعداد :
  • 2991
  • 2/17/2009
  • تاريخ :

اقبال منزل ( شاعر مشرق کی جاۓ پیدائش )

اقبال کی جاۓ پیدائش

قلعہ سیالکوٹ کے جنوب مشرقی حصے کی جانب وہ دروازہ کے قریب قدیم محلہ چوڑی گراں واقع ہے جس کی ایک گلی میں وہ تاریخی مکان ہے جس کو ہم ''اقبال منزل''کے نام سے جانتے ہیں۔ اس تاریخی مکان کی طرف جانے والی سڑک کو اقبال روڈ کہتے ہیں۔ اس تاریخی مکان اقبال منزل کا کل رقبہ 3250 مربع فٹ ہے یعنی موجودہ حساب سے سات مربوں سے زیادہ ہے۔

یہ مکان علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے دادا شیخ محمد رفیق نے 1861 میں صرف 150 روپے میں خریدا تھا۔ اس کی مرمت کروائی، موجودہ اقبال منزل کا مشرقی حصہ جو مغربی حصہ سے تین گنا بڑا ہے علامہ کے والد نے ملحقہ مکان خریدا تو اس کے بعد مکان میں مزید کمروں کے علاوہ ایک برساتی اور ایک برآمدے کا اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے مکان کا رخ اقبال روڈ کی طرف آ گیا۔

 

موجودہ مکان قدیم طرز کی ایک نادر نمونہ ہے بلکہ پورے مکان کی طرز تعمیر یورپین ٹائپ ہے۔ اس مکان کا ایک حصہ محلہ چوڑی گراں میں جا لگتا ہے لیکن آج کل وہ راستہ آمد ورفت کے لئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اقبال روڈ کی طرف سے اقبال منزل جانے کا راستہ ہے اور اب یہی صدر دروازہ کہلاتا ہے۔

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا خاندان نیکی اور پاک دامنی کی وجہ سے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ علامہ کے والد شیخ نور محمد اس مکان کے ایک حصے میں (موجودہ آفس اور لائبریری والا کمرہ) دکان کیا کرتے تھے۔ وہ برقعوں کی ٹوپیاں بنانے کے ماہر تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کے والد برقع ٹوپی( ژٹل کاک ٹوپی) بنانے کے موجد بھی تھے۔ ہر شخص ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اقبال کی جائے پیدائش اس وقت ایسے نہیں تھی جیسے اب ہے۔

 

اقبال منزل کا مغربی حصہ جو( چوڑی گراں) گلی کی طرف کھلتا ہے اصل مکان ہے جس کی نچلی منزل کے آخری جنوبی کمرے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔ یہ بات سب مانتے ہیں کہ اقبال کے بچپن میں ہی اقبال منزل اسی صورت موجود تھی۔ اس مکان میں علامہ نے ہوش سنبھالا، بچپن، لڑکپن، جوانی کے ایام بلکہ ان کی پہلی شادی بھی اسی مکان میں ہوئی تھی۔ اس مکان کے صحن اور چوباروں پر کھیلنا، پتنگیں اڑانا، کبوتر پالنا بھی اسی منزل سے وابستہ ہیں۔

اقبال منزل کا نقشہ کچھ یوں ہے پورا مکان تین منزلہ ہے۔ مغربی حصہ جس میں اقبال پیدا ہوئے بھی تین منزلوں پر مشتمل ہے۔ جواب انتہائی خستہ ہو چکی ہے اور سہاروں کے بل بوتے پر کھڑی ہے۔ خاص طور پر مشرقی حصہ بہت خستہ ہے دیواروں اور کمروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں کہ کسی وقت بھی کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے اور وہ حصہ کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔ نچلی منزل میں ڈیوڑھی اور گلی کی طرف سے داخل ہوتے ہوئے دائیںہاتھ آگے پیچھے دو کمرے ہیں۔

 

یہ دونوں کمرے گلی کے رخ پر ہیں گلی کے رخ پر مکان کا سابقہ صدر دروازہ ہے جو قدیم طرز کا نادر نمونہ ہے اس کے سامنے چوکور احاطہ تھا اب وہاں بھی آبادی ہو چکی ہے اور جگہ کی تنگی کے باعث بلڈنگ پوری طرح نظر نہیں آتی لیکن اس کے دائیں بائیں گلیاں موجود ہیں۔ پہلی منزل پردوکمرے تھے جنہیں بیچ کی دیوار نکال کر ایک کمرہ بنادیا گیا۔

دوسری منزل ایک کمرے اور دو طرفہ کھلے ہوئے ایک برآمدے پر مشتمل ہے کہتے ہیںکہ علامہ جب کبھی گرمیوں میں سیالکوٹ آتے تو اس کمرے کو استعمال کیا کرتے تھے۔ بازار کی جانب سے مکان کی بالائی منزل کو جانے والا زینہ ہے جومردان خانے کے لئے راستے کی خاطر استعمال ہوتا تھا مہمان خانہ تین چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا اس کے ساتھ ایک غسل خانہ تھا۔ مہمان خا نے کا پہلا کمرہ بیٹھک کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مردان خانے کے دوسرے کمروں کے دروازے زنان خانہ میں بھی کھلتے تھے۔

 

یہ دو کمرے ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے استعمال میں رہتے تھے۔ مردان خانے کے ان چاروں کے رخ پر باہر کی طرف سے ایک بڑی گیلری بنی ہوئی ہے بقول خالد نظیر صوفی نواسہ شیخ عطا محمد بیٹھک کے ساتھ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ مہمان خانے کی چھت پر فانوس لٹکا کرتا تھا اور اس کمرے میں جو شیخ عطا محمد کے زیر استعمال تھا اس کمرے میں وکٹورین طرز کا ایک خوبصورت آہنی آتش دان تھا ۔ جواب بھی ہی ہے ۔

پہلی منزل کا زنان خانہ تین کمروں پر مشتمل تھا جس میں دو کمرے جبکہ تیسرا کمرہ انہی سے ملحق اندر کی طرف سٹور اور باورچی خانے کے لئے استعمال ہوتا تھا(ریکارڈ روم بنا دیا گیا ہے) بالائی منزل کی شمالی دیوار کے ساتھ محراب بنی ہوئی جس میں خوراک محفوظ رکھنے والی جالی نصب تھی جبکہ اس دیوار کے ساتھ شمال مشرقی کونے میں ایک انگیٹھی تھی جس کا دھواں دان بند کر دیا گیا۔

 

سڑک کے رخ پر مہمان خانے کے اوپر جو کمرہ اور بر آمدہ ہے اسی کمرے کی چھت پر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے کبوتروں کے لئے جگہ بنا رکھی تھی اور دوسری منزل پر سٹور کو بھی کبوتروں کے لئے استعمال کرتے تھے۔ کبوتروں کے بارے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا نظریہ یہ تھا کہ کبوتروں کے پروں سے جو ہوا گزر کر آتی ہے وہ صحت کے لئے بہت اچھی ہوتی ہے۔

شمال مشرقی کونے میں واقع الگ تھلگ برساتی کو علامہ اپنے بچپن میں پتنگ اڑانے کے لئے موزوں خیال کرتے تھے۔ سڑک کے رخ پر دوسری منزل کی خفاظتی جالیوں کو ٹوٹنے کے بعد آہنی جنگلے سے ری پلیس کیا گیا جبکہ اوپر والی منزل کی جالیاں محفوظ ہیں۔ اقبال منزل کو قومی تحویل میں لینے کے بعد اقبال روڈ کی طرف سے یعنی مشرقی حصے کی جانب پہلی منزل کے نیچے جودکانیں تھیں انہیں ایک بڑے ہال نما کمرے کی شکل میں دارالمطالعہ بنا دیا گیا۔

 

جبکہ اس کے ساتھ والے کمرے میں ایک لائبریری اور آفس بھی بنایا گیا۔ جہاں تمام قومی اخبارات اور رسائل پڑھنے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقبال منزل کے انچارج سید ریاض حسین نقوی نے آج سے 20 بائیس سال قبل جب اس مکان کا چارج لیا تو اس کی حالت بہت خراب تھی لیکن انہوں نے جس خلوص ، دیانتداری اور محبت کے ساتھ اس کو خوب سے خوب تر کرنے اور اسے صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب چندہ ماہ قبل علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے منیب اقبال یہاں تشریف لائے تو انہوں نے اقبال منزل دیکھنے کے بعد اپنے تاثرات میں لکھا کہ'' گھر آنا ہمیشہ بہت اچھا اور پر سکون لگتا ہے۔ خاص طور پر اب جبکہ اس کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہو گئی ہے''۔ لیکن کہنے کا مقصد یہ کہ سید ریاض حسین نقوی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں وہ بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔

 

حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد نہ ہونے کی وجہ سے مکان کی خستہ حالت وہیں کی وہیں ہے۔ چند سال قبل صوبائی وزیر صنعت محمد اجمل نے اقبال منزل میں کھڑے ہو کر یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ یہاں ایک جدید ریسرچ سنٹربنائیں گے تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں اور یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ ڈی سی سیالکوٹ اس بلڈنگ کی رینوویشن کے لئے خصوصی اور فوری اقدامات کر رہے ہیں لیکن آج تک کسی نے کوئی اقدام نہیں کیا۔

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی روح کیا سوچتی ہوگی کہ میرے شہر کے لوگ میرے مکان کے لئے کچھ نہیں کر سکتے جبکہ بڑے بڑے پلازے، بلڈنگ اور فیکڑیاں تو بن رہی ہیں لیکن اقبال منزل کی حالت نہیں بدل سکی۔ اقبال منزل کی خستہ حالی کی اور بھی جو وجوہات ہیں یہاں اوپن ڈرینج (چاروں طرف) صبح و شام ٹریفک کی وجہ سے اٹھتا ہوا دھواں بلڈنگ میں لکڑی کے کام یعنی بلڈنگ کے حسن کو زبردست متاثرکر رہا ہے۔

 

اقبال منزل بلاشبہ ہمارا ایک تاریخی اور قومی ورثہ ہے جہاں پر نہ صرف علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے بلکہ ان کے زیر استعمال اشیاء بھی تاریخی ورثہ ہیں۔ ان میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مطالعہ کی کرسی ، پلنگ، پنگھوڑا، آتش دان ، مسہری، صندوق، حقہ، برتن، گھڑیاں الغرض لاتعداد اشیاء موجود ہیں جبکہ تمام کمروں اور باہر کی تمام دیواروں کے ساتھ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی فریم شدہ تاریخی تصاویر بھی نمایاں ہیں جا کہ دیکھنے والاں کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور اب تک ہزاروں لوگ اس کی زیارت کر چکے ہیں۔

 

علامہ کے آبائی مکان کے قریب گلی حسام الدین میں علامہ کے استاد میر حسن کا مکان ہے جہاں علامہ نے تعلیم حاصل کی۔ اقبال منزل سے ملحق یعنی ہمسائے میں پروفیسر خواجہ راشد جاوید کا مکان ہے جو بڑے صاحب علم و دانش ہیں ۔علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے والد بزرگوار شیخ نور محمد1840ء سیالکوٹ کے محلہ کھٹیکاں میں شیخ محمد رفیق کے گھر کی رونق بنے۔