• صارفین کی تعداد :
  • 3514
  • 2/17/2009
  • تاريخ :

عالم اسلام اور مغرب کے مابین تعلقات

اسلام

اس وقت عالم اسلام اور مغرب کے مابین تعلقات کے حوالے سے جو ابہام موجود ہیں ان کی وجہ سے اسلامی دنیا کے مابین فکری انتشار بڑھتا جا رہا ہے اور بجائے اس کے کہ فاصلے کم ہوں ۔ دن بدن ان میں اضافہ اور ہم آہنگی کا فقدان پیدا ہو رہا ہے ۔ یہ ضروری ہے کہ امت مسلمہ کے دانشور اور علماء کرام بیداریٔ فکر کی ایک ایسی تحریک کا آغاز کریں جس سے عالم اسلام اور مغرب کے مابین تعلقات کو مضبوط تر کرتے ہوئے دین اسلام کی حقانیت کو واضح کیا جا سکے ۔ اس کے لیے نا صرف دانشوروں اور علماء کو اپنا کردار ادا کرنا ہے بلکہ ہر عام مسلمان بھی معاون و مدد گار ثابت ہو سکتا ہے ۔ بعض اوقات کوئی نکتے اور حکمت کی بات ایک عام آدمی سے بھی حاصل ہو سکتی ہے ۔ اگر ہر انسان کے بارے میں یہ یقین کر لیا جائے کہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی بعض چیزوں کا امین ہے اور ہر شخص دنیا میں امن کے قیام کے لئے اپنا اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور ہر فرد کو اس کی صلاحیتوں کے بقدر مواقع بھی دیئے جائیں تواس کے نتیجے میں دنیا میں امن و امان بھی قائم ہوگا۔ اور دہشت گردی و بد عنوانی کا بھی قلع قمع ہو سکے گا۔

    اس سلسلے میں عالم اسلام اور مغرب کے مابین تعلقات کے عنوان پر ایک سمینار اسلامی نظریاتی کونسل اور اخوت اکیڈمی اسلام آباد کے باہمی اشتراک سے ماہ رمضان المبارک میں منعقد کیا گیا جس میں سابق سیکرٹری خارجہ اکرم زکی ، ڈی جی انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز  تنویر احمد، اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر ماشا ء اللہ شاکری ، آغا مرتضٰی پویا ، ڈاکٹر خالد مسعود اور ثاقب اکبر نے اظہار خیال کیا۔

ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ :

اسلام اور مغرب کے مابین تعلقات کے حوالے سے بہت سے ابہامات پائے جاتے ہیں جو امت مسلمہ میں فکری انتشار کا باعث بن رہے ہیں ۔

 انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں ہم اسلام اور مغرب کو دو الگ الگ حصوں کی صورت میں نہیں دیکھ سکتے بلکہ مغرب میں اسلامی اقدار اور اسلامی دنیا میں مغربی افکار کے امتزاج کو دیکھتے ہوئے ہم اس مسئلے کو کسی چیز کے سیاہ و سفید کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان ابہامات کو دور کرتے ہوئے امت مسلمہ کی سوچ و فکر کو بیدار کیا جائے۔

اکرم زکی نے کہا کہ پچھلے چار سالوں سے مغربی تہذیب سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بنیاد پر دنیا کی تمام تہذیبوں پر حاوی ہو گئی ہے ۔

 اس نے مادی طور پر تو بے پناہ ترقی کی ہے لیکن روحانی اور اخلاقی لحاظ سے یہ تہذیب نا صرف یہ کہ آگے نہیں بڑھی بلکہ زوال پذیر ہوئی ہے اور اس نے دنیا میں آزاد خیالی اور آزادیٔ افکار کے نام پر بے راہ روی کو فروغ دیا ہے جس سے دنیا کے دوسرے مذاہب کے خلاف جارحانہ رویہ پیدا ہو  گیا ہے ۔ اسلامی ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بنیادی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے جدید علوم پر دسترس حاصل کریں تاکہ وہ اپنی تہذیب اور اپنے ثقافتی ورثے کا تحفظ کر سکیں ۔ جب صلیبی جنگوں کے زمانے میں مغرب نے تشدد کا راستہ اپنایا تو اس میں ناکامی ہوئی ۔ اگر ہم بھی تشدد کا راستہ اپنائیں گے تو ہم بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان جدید علوم وفنون حاصل کر کے دنیا پر اپنی دسترس قائم کریں اس طرح انہیں دنیا سے دہشت گردی ختم کرنے اور اپنے تعمیری مقاصد حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ ثاقب اکبر نے کہا کہ مغرب کے ساتھ تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ عالم اسلام مغرب کی ماہیت کو سمجھے اور خود اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دے ۔ جب تک ہم ترقی کا راستہ نہیں اپنائیں گے تو محتاج رہیں گے اور مغرب کے ساتھ برادری کا خواب کبھی پورا نہیں کر سکتے ۔ آغا مرتضٰی پویا نے کہا کہ صیہونیوں کو بچانا اور مسلمانوں کو مشکلات میں ڈالنا امریکہ کی پالیسی ہے امت مسلمہ کو اس سے نکلنے کے لیے ایمان کی پختگی اور حکمت کے ساتھ قدم اٹھانا ہوگا۔

     مذکورہ  بالا بیانات کی روشنی میں یہ ضروی ہو گیا ہے ۔ کہ دنیا کے لیے اتنے اہم موضوع پر علمی تحقیق اور عملی کارفرمائی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر انتظام دانشوروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ جو عالم اسلام اور مغرب کے مابین ابہامات دور کرنے کے لیے جدید پیمانے پر حکمت عملی تیار کرے ۔  امید کی جا سکتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل جلد از جلد اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے گی ۔ 

تحریر:  سلطان محمود شاہین


متعلقہ تحریریں:

اسلامی جمہوریہ ، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے 

 غزہ کے دردناک المیے پر رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام

 امریکہ اورعراق کا استعماری معاہدہ

 اصلاح کی ضرورت ہے