• صارفین کی تعداد :
  • 5346
  • 2/17/2009
  • تاريخ :

قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب

القرآن الکریم

اِسلام کا فلسفۂ زندگی دیگر اَدیانِ باطلہ کی طرح ہرگز یہ نہیں کہ چند مفروضوں پر عقائد و نظریات کی بنیادیں اُٹھا کر اِنسان کی ذِہنی صلاحیتوں کو بوجھل اور  بے معنی فلسفیانہ مُوشگافیوں کی نذر کر دِیا جائے اور حقیقت کی تلاش کے سفر میں اِنسان کو  اِس طرح ذِہنی اُلجھاؤ  میں گرفتار کر دِیا جائے کہ اُس کی تمام تر  تخلیقی صلاحیتیں مفلوج  ہو کر رہ جائیں۔ اِسلام نے کسی مرحلہ پر بھی اِنتہاء پسندی کی حوصلہ اَفزائی نہیں کی، بلکہ اِس کے برعکس اِسلام کی فطری تعلیمات نے ہمیشہ ذہنِ اِنسانی میں شعور و آگہی کے اَن گنت چراغ روشن کرکے اُسے خیر و شر میں تمیز کا ہنر بخشا ہے ۔  اِسلام نے اپنے پیروکاروں کو سائنسی علوم کے حصول کا درس دیتے ہوئے ہمیشہ اِعتدال کی راہ دِکھائی ہے۔ اِسلام نے  اِس کارخانۂ قدرت میں اِنسانی فطرت اور نفسیات کے مطابق اِنسان کو اَحکامات اور ضابطوں کا ایک پورا نظام دِیا ہے اور اُس کے ظاہر و باطن کے تضادات کو مٹا کر اُسے اپنے نصبُ العین کی سچائی کا شعور عطا کیا ہے۔

    تاریخِ علوم کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اپنی جملہ توانائیوں کے ساتھ ہمارے ذِہن پر روشن اور واضح ہوتی ہے کہ آفاق (universe) اور اَنفس (human life) کی رہگزر فکر و نظر کے اَن گنت چراغوں سے منوّر ہے۔ غور و خوض اور تفکر و تدبر حکمِ خداوندی ہے، کیونکہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر گویا رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔  مسلمانوں نے اپنے سفر کی اِبتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے ذرِیعہ سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اِضافے کئے بلکہ اِنسان کو قرآنی اَحکامات کی روشنی میں تسخیرِ کائنات کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ اُس دَور میں بعض حیران کن اِیجادات بھی عمل میں آئیں اورسائنسی علوم کو اَیسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی۔

یہاں ہم قرآنِ مجید کی چندایسی آیاتِ کریمہ پیش کر رہے ہیں جن کے مطالعہ سے قرونِ اُولیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی تحقیقات کی طرف ترغیب ملی اور اُس کے نتیجے میں بنی نوعِ اِنسان نے تجرّبی توثیق کو حقیقت تک رسائی کی کسوٹی قرار دے کر تحقیق و جستجو کے نئے باب روشن کئے۔

آیاتِ ترغیبِ علم

إِنَّمَا يَخْشَی اللَّہ مِنْ عِبَادِہ الْعُلَمَاء (فاطر، 35:28)  اللہ سے تو اُس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں (جو صاحبِ بصیرت ہیں)۔

قُلْ ہلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ  لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ

(الزمر، 39:9)

 آپ فرما دیجئے کہ علم والے اور بے علم کہیں برابر ہوتے ہیں! تحقیق سوچتے وُہی ہیں جو صاحبِ عقل ہیں

وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ

(المجادلۃ، 58:11) 

اور جنہیں علم عطا کیا گیا ہے (اﷲ) اُن لوگوں کے درجے بلند کرے گا۔

وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہلِينَ

 (الاعراف،7:199)

اور جاہلوں سے کنارہ کشی اِختیار کر لیں  

وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ

(آل عمران، 3:7) 

اور نصیحت صرف اہلِ دانش ہی کو نصیب ہوتی ہے

وَ قُل رَّبِّ زِدنِی عِلماً 

 (طہٰ، 20:114) 

اور آپ (ربّ کے حضور یہ) عرض کریں کہ اَے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے  

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ

 (العلق، 96:1) 

(اے حبیب!) اپنے ربّ کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا

فَاسْأَلُواْ أَہلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ

(النحل، 16:43)

سو تم اہلِ ذِکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو   

 

  کتاب کا نام :   اسلام اور جدید سائنس

تحریر :   ڈاکٹر پروفیسر طاہرالقادری