• صارفین کی تعداد :
  • 3307
  • 12/13/2008
  • تاريخ :

نیکیوں سے مزین ہونا اور برائیوں سے پرہیز کرنا

بسم الله الرحمن الرحیم

زیبائی اور برائی گزشتہ صفحہ میں بیان ہونے والے دو عنوان سے باطنی،معنوی، اخلاقی اور عملی زبیائی اور برائی مراد ہے۔

جو شخص اپنے ارادہ و اختیار اور شناخت و معرفت کے ذریعہ الٰہی حقائق (اخلاقی حسنات ) اور عملی واقعیات ( احکام خداوندی) کو اپنے صفحہ دل پر نقش کرلیتا ہے، اس نقش کو ایمان کے روغن سے جلا دیتا ہے، اور زمانہ کے حوادث و آفات سے نجات پا لیتا ہے، جس کے ذریعہ سے انسان بہترین سیرت اور خوبصورت وشائستہ صورت بنا لیتا ہے۔

الٰہی حقائق یا اخلاقی حسنات خداوندعالم کے اسماء و صفات کے جلوے اور ارادہ پروردگار کے عملی واقعیات کے جلوے ہیں،اسی وجہ سے یہ چیزیں انسان کی سیرت و صورت کو بازار مصر میں حُسن یوسف کی طرح جلوہ دیتے ہیں، اور دنیا و آخرت میں اس کو خریدنے والے بہت سے معشوق نظر آتے ہیں۔

 

لیکن وہ انسان جو اپنے قلم و ارادہ و اختیار سے جہل و غفلت غرور و تکبر ،بُرے اخلاق اور برے اعمال کو اپنے صفحہ دل پرنقش کرلیتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ گناہوں میں غرق ہوتا چلا جاتا ہے، جو انسان کی ہمیشگی ہلاکت کے باعث ہیں، انھیں کی وجہ سے ان کی صورت بدشکل اور تیرہ و تاریک ہوجاتی ہے۔

اخلاقی برائیاں ،بُرے اعمال شیطانی صفات کا انعکاس اور شیطانی حرکتوں کا نتیجہ ہیں، اسی وجہ سے انسان کی سیرت و صورت پر شیطانی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں، جس کی بنا پر خدا، انبیاء اور ملائکہ نفرت کرتے ہیں اور دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اس کے دامن گیر ہوجاتی ہے۔

 

معنوی و روحانی زیبائی و برائی کے سلسلہ میں ہمیں قرآن مجید کی آیات اور رسول خدا  ۖ وائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے، تاکہ ان الٰہی حقائق اور آسمانی تعلیمات سے آشنائی کے ذریعہ اپنے کو مزین کریں، اور توبہ و استغفار کے ذریعہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کو کامل کرلیں:

(وَِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَم عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ َنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوء اً بِجَہَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وََصْلَحَ فََنَّہُ غَفُور رَحِیم).(١)

''اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو ان سے کہئے کہ سلام علیکم ...تمہارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ہے کہ تم میں جو بھی از روئے جہالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے''۔

اہل ہدایت و صاحب فلاح

(الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ٭ وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا ُنْزِلَ ِلَیْکَ وَمَا ُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُونَ٭ ُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِنْ رَبِّہِمْ وَُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ).(۲)

''جولوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں .پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں .وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنھیں (اے رسول) ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور یہی لوگ فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں''۔

مذکورہ آیت سے درج ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

١۔ غیب پر ایمان ۔

٢۔ نماز قائم کرنا۔

٣۔ صدقہ اور حقوق کی ادائیگی۔

٤۔ قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں پر ایمان۔

٥۔ آخرت پر یقین۔

غیب پر ایمان

غیب سے مراد ایسے امور ہیں جن کو ظاہری حواس سے درک نہیں کیا جا سکتا، چونکہ ان کو حواس کے ذریعہ نہیں درک کیا جا سکتا لہٰذا ان کو غیبی امور کہا جاتا ہے۔

غیب ، ان حقائق کو کہتے ہیں جن کو دل اور عقل کی آنکھ سے درک کیا جا سکتا ہے،جس کے مصادیق خداوندعالم، فرشتے، برزخ، روز محشر، حساب، میزان اور جنت و جہنم ہے، ان کا بیان کرنا انبیاء ، ائمہ علیہم السلام اور آسمانی کتابوں کی ذمہ داری ہے۔

ان حقائق پر ایمان رکھنے سے انسان کا باطن طیب و طاہر، روح صاف و پاکیزہ، تزکیہ نفس، روحی سکون اور قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے نیز اعضاء و جوارح خدا و رسول اور اہل بیت علیہم السلام کے احکام کے پابند ہوجاتے ہیں۔

غیب پر ایمان رکھنے سے انسان میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے، اس میں عدالت پیدا ہوتی ہے، اور انسان کی تمام استعداد شکوفہ ہوتی ہیں، یہی ایمان اس کے کمالات میں اضافہ کرتا ہے، نیز خداوندعالم کی خلافت و جانشینی حاصل ہونے کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔

 

کتاب خدا ،قرآن مجید جو احسن الحدیث ، اصدق قول اور بہترین وعظ و نصیحت کرنے والی کتاب ہے،جس کے وحی ہونے کی صحت و استحکام میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، اس نے مختلف سوروں میں مختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کتاب خدا ہے، جن کی بنا پر انسان کو ذرہ برابر بھی شک نہیں رہتا، قرآن کریم کی بہت سی آیات میں غیب کے مکمل مصادیق بیان کئے گئے ہیں اور ان آیات کے ذیل میں پیغمبر اکرم  ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے بہت اہم احادیث بیان ہوئی ہیں جن کے پر توجہ کرنے سے انسان کے لئے غیب پر ایمان و یقین کا راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔

خدا

قرآن مجید نے خداوندعالم کو تمام کائنات اور تمام موجودات کے خالق کے عنوان سے پہچنوایا ہے، اور تمام انسانوں کو خدا کی عبادت کی دعوت دی ہے، اس کا شریک اس کی ضد و مثل اوراس کا کفوقرار دینے سے سخت منع کیا ہے اور اس کو غفلت و جہالت کا نتیجہ بتایا ہے، اور کسی چیز کو اس کے خلاف بیان کرنے کو فطرت و وجدان کے خلاف شمار کیا ہے، اس عالم ہستی میں صحیح غور و فکر کرنے کی رغبت دلائی ہے، اور فطری، عقلی، طبیعی اور علمی دلائل و شواہد کے ذریعہ غیر خدا کے خالق ہونے کو باطل قرار دیا ہے، اور اس جملہ کو بے بنیاد، بے معنی اور مسخرہ آمیز بتایا ہے کہ ''یہ چیزیں خود بخود وجود میں آ گئی ہیں'' اس کی شدت کے ساتھ ردّ کی ہے اور علمی منطق اور عقل سلیم سے کوسوں دور بتایا ہے، المختصر: قرآن مجید نے اپنی آیات کے اندر انسان کے جہل اور غفلت جیسی بیماریوں کا علاج بتایا ہے، اورفطرت و وجدان کو جھنجھوڑتے ہوئے عقل و دل کی آنکھوں کے سامنے سے شک و تردید اور اوہام کے پردوں کو ہٹا دیا ہے، اور خداوندعالم کے وجود کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے ، نیز اس معنی پر توجہ دلائی ہے کہ آئینہ ہستی کی حقیقت روز روشن سے بھی زیادہ واضح ہے، اور خدا کی ذات اقدس میں کسی کے لئے شک و تردید کا کوئی وجود نہیں ہے:

(... َفِی اﷲِ شَکّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالَْرْضِ یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ...).(۳)

''... کیا تمہیں اللہ کے وجود کے بارے میں بھی شک ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور تمہیں اس لئے بلاتا ہے کہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے..''۔

( یَاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ٭ الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الَْرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَائَ بِنَائً وََنْزَلَ مِنْ السَّمَائِ مَائً فََخْرَجَ بِہِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّہِ َندَادًا وََنْتُمْ تَعْلَمُونَ).(۴)
   اے انسانو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے والوں کو بھی خلق کیا ہے .شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرہیز گار بن جاؤ.اس پروردگار نے تمہارے لئے زمین کا فرش اور آسمان کا شامیانہ بنایا ہے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمہاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے ہیں لہٰذا اس کے لئے جان بوجھ کر کسی کو ہمسر اور مثل نہ بناؤ''۔

جی ہاں! اس نے ہمیں اور ہم سے پہلے انسانوں کو خلق کیا، آسمانوں کو بنایا، تمہاری زندگی کے لئے زمین کا فرش بچھایا، تمہارے لئے بارش برسائی، جس کی وجہ سے مختلف قسم کے پھل اور اناج پیدا ہوئے، اگر یہ تمام عجیب و غریب چیزیں اس کا کام نہیں ہے تو پھر کس کا کام ہے؟

اگر کوئی کہتا ہے کہ ان تمام عجیب و غریب خلقت کی پیدائش کی علت ''تصادف'']یعنی اتفاقی[ ہے تو اس کی مستحکم منطقی اور عقلی دلیل کیا ہے؟ اگر کہا گیا کہ یہ چیزیں خود بخود پیدا ہو گئیں تو کیا اس کائنات کی چیزیں پہلے سے موجود نہیں تھیں جو خود بخود وجود میں آ گئیں، اس کے علاوہ جو چیز موجود ہے وہ خود بخود وجود میں آ جائیں اس کے کوئی معنی نہیں ہیں، پس معلوم ہوا کہ ان تمام چیزوں کا خالق اور ان کو نظم دینے والا علیم و بصیر و خبیر ''اللہ تعالیٰ'' ہے جس نے ان تمام چیزوں کو وجود بخشا ہے، اور اس مضبوط اور مستحکم نظام کی بنیاد ڈالی ہے، لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے، اس کی عبادت و بندگی کرے تاکہ تقویٰ، پاکیزگی اور کمال کی معراج حاصل کرے:

(اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون).(۵)

''...تم لوگ اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے والوں کو بھی خلق کیا ہے .شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرہیز گار بن جاؤ''۔

مفضل بن عمر کوفی کہتے ہیں: مجھ سے حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

وجود خدا کی سب سے پہلی دلیل اس دنیا کا نظم و ترتیب ہے کہ تمام چیزیں بغیر کسی کمی و نقصان کے اپنی جگہ پر موجود ہیں اور اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔

مخلوقات کے لئے زمین کا فرش بچھایا گیا، آسمان پر زمین کے لئے روشنی دینے والے سورج چاند اور ستارے لٹکائے گئے، پہاڑوں کے اندر گرانبہا جواہرات قرار دئے گئے، ہر چیز میں ایک مصلحت رکھی گئی اور ان تمام چیزوں کو انسان کے اختیار میں دیدیا گیا، مختلف قسم کی گھاس، درخت اور حیوانات کو اس کے لئے خلق کیا تاکہ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔

 

اس دنیا کے نظم وترتیب کو دیکھو کہ جہاں ہر چیز ذرہ برابر کمی و نقصان کے بغیر اپنی مخصوص جگہ پر ہے جو اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ یہ دنیا حکمت کے تحت پیدا کی گئی ہے، اس کے علاوہ تمام چیزوں کے درمیان ایک رابطہ پایا جاتا ہے اور سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں جو خود اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ایک ہی ہے، ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے والے نے ان تمام چیزوں کے درمیان الفت پیدا کی ہے اور ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرا کا محتاج قرار دیا ہے!

مفضل کہتے ہیں: معرفت خدا کی گفتگو کے تیسرے دن جب امام ششم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: آج چاند ،سورج اور ستاروں کے بارے میں گفتگو ہوگی:

اے مفضل! آسمان کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ہے اورجہاں تک انسان آسمان کو دیکھتا چلا جاتا ہے اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی، کیونکہ نیلا رنگ نہ صرف یہ کہ آنکھ کے لئے نقصان دہ نہیں ہے بلکہ آنکھ کی طاقت کے لئے مفید بھی ہے۔

اگر سورج نہ نکلتا اور دن نہ ہوتا تو پھر دنیا کے تمام امور میں خلل واقع ہوجاتا، لوگ اپنے کاموں کو نہ کر پاتے، بغیر نور کے ان کی زندگی کا کوئی مزہ نہ ہوتا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو روز روشن سے بھی زیادہ واضح ہے۔

اگر سورج غروب نہ ہوتا اور رات کا وجود نہ ہوتا تو لوگوں کو سکون حاصل نہ ہوتا اور ان کی تھکاوٹ دور نہ ہوتی، ہاضمہ نظام غذا کو ہضم نہ کر پاتا او راس غذائی طاقت کو دوسرے اعضاء تک نہ پہنچاتا۔

اگر ہمیشہ دن ہوا کرتا تو انسان لالچ کی وجہ سے ہمیشہ کام میں لگا رہتا جس سے انسان کا بدن رفتہ رفتہ جواب دیدیتا، کیونکہ بہت سے لوگ مال دنیا جمع کرنے میں اس قدر لالچی ہیں کہ اگر رات کا اندھیرے ان کے کاموں میں مانع نہ ہو تا تو اس قدر کام کرتے کہ اپاہج ہوجاتے!

اگر رات نہ ہوا کرتی تو سورج کی گرمی سے زمین میں اس قدر گرمی پیدا ہوجاتی کہ روئے زمین پر کوئی حیوان اور درخت باقی نہ رہتا۔

اسی وجہ سے خداوندعالم نے سورج کو ایک چراغ کی طرح قرار دیا کہ ضرورت کے وقت اس کو جلایا جاتا ہے تاکہ اہل خانہ اپنی ضرورت سے فارغ ہو جائیں، اور پھر اس کو خاموش کردیتے ہیں تاکہ آرام کر لیں! پس نور اور اندھیرا جو ایک دوسرے کی ضدہیں دونوں ہی اس دنیا کے نظام اور انسانوں کے لئے خلق کئے گئے ہیں۔

اے مفضل!  غور تو کرو کہ کس طرح سورج کے طلوع و غروب سے چار فصلیں وجود میں آتی ہیں تاکہ حیوانات او ردرخت رشد ونمو کرسکیں اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔

 

اسی طرح دن رات کی مدت کے بارے میں غور فکر کرو کہ کس طرح انسان کی مصلحت کا لحاظ رکھا گیا ہے اکثر آباد زمین پر دن ١٥ گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتا اگر دن سو یا دو سو گھنٹے کا ہوتا تو کوئی بھی جانداز زمین پر باقی نہ بچتا۔

کیونکہ اس قدر طولانی دن میں دوڑ دھوپ کرتے ہوئے ہلاک ہوجاتے، درخت وغیرہ سورج کی گرمی سے خشک ہوجاتے!

اسی طرح اگر سو یا دوسو گھنٹے کی رات ہوا کرتی، تمام جاندار روزی حاصل نہیں کرسکتے تھے اور بھوک سے ہلاک ہوجاتے، درختوں اور سبزیوں کی حرارت کم ہوجاتی، جس کے نتیجہ میںان کا خاتمہ ہوجاتا، جیسا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سی گھاس اگر ایسی جگہ اُگ آئیں جہاں پر سورج کی روشنی نہ پڑے ہو تو وہ بر باد ہوجایا کرتی ہیں۔

سردیوں کے موسم میں درختوں اور نباتات کے اندر کی حرارت اورگرمی مخفی ہوجاتی ہے تاکہ ان میں پھلوں کا مادہ پیدا ہو، سردی کی وجہ سے بادل اٹھتے ہیں، بارش ہوتی ہے،جس سے حیوانوں کے بدن مضبوط ہوتے ہیں، فصل بہار میں درخت اور نباتات میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں، کلیاں کھلنے لگتی ہیں، حیوانات بچے پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے پاس جاتے ہیں،گرمی کے موسم میں گرمی کی وجہ سے بہت سے پھل پکنے لگتے ہیں، حیوانات کے جسم میں بڑھی ہوئی رطوبت جذب ہوتی ہے، اور روئے زمین کی رطوبت کم ہوتی تاکہ انسان عمارت کا کام اور دیگر کاموں کو آسانی سے انجام دے سکے، خزاں کے موسم میں ہوا صاف ہوتی ہے تاکہ انسان کے جسم کی بیماریاں دور ہوجائیں اور بدن صحیح و سالم ہوجائے، اگر کوئی شخص ان چار فصلوں کے فوائد بیان کرنا چاہے تو گفتگو طولانی ہوجائے گی!

 

سورج کی روشنی کی کیفیت پر غور و فکر کرو کہ جس کو خداوندعالم نے اس طرح قرار دیا ہے کہ پوری زمین اس کی روشنی سے فیضیاب ہوتی ہے، اگر سورج کے لئے طلوع و غروب نہ ہوتا تونور کی بہت سی جہتوں سے استفادہ نہ ہوتا، پہاڑ،دیوار اور چھت نور کی تابش میں مانع ہو جاتے، چونکہ خداوندعالم نور خورشید سے تمام زمین کو فیضیاب کرنا چاہتا ہے لہٰذا سورج کی روشنی کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ اگر صبح کے وقت کہیں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی تو دن کے دوسرے حصہ میں وہاں سورج کی روشنی پہنچ جاتی ہے، یا اگر کسی جگہ شام کے وقت روشنی نہ پہنچ سکے تو صبح کے وقت روشنی سے فیضیاب ہوسکے، پس معلوم ہوا کہ کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جوسورج کی روشنی سے فائدہ نہ اٹھائے، واقعاً یہ خوش نصیبی ہے کہ خداوندعالم نے سورج کی روشنی کو زمین رہنے والے تمام موجودات چاہے وہ جمادات ہوں یا نباتات یا دوسری جاندار چیزیں سب کے لئے پیدا کی اور کسی کو بھی اس سے محروم نہ رکھا۔

 

اگر ایک سال تک سورج کی روشنی زمین پر نہ پڑتی تو زمین پر رہنے والوں کا کیا حال ہوتا؟ کیا کوئی زندہ رہ سکتا تھا؟

رات کا اندھیرا بھی انسان کے لئے مفید ہے جو اس کو آرام کرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن چونکہ رات میں بھی کبھی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، بہت سے لوگ وقت نہ ہونے یا گرمی کی وجہ سے رات میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا بعض مسافر رات کو سفر کرتے ہیں ان کو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس ضرورت کے تحت خداوندعالم نے چاند اورستاروں کو خلق فرمایا ہے تاکہ وہ اپنی نور افشانی سے خدا کی مخلوق کے لئے آسائش کا سامان فراہم کریں اور اپنی منظم حرکت کے ذریعہ مسافروں کو راستہ کی طرف راہنمائی کریں اور کشی میں سوار مسافرین کو راستہ بھٹکنے سے روکے رہیں۔

ستاروں کی دو قسم ہوتی ہیں، ایک ثابت ستارے جو ایک جگہ اپنے معین فاصلہ پر رہتے ہیں، اور دوسرے ستارے گھومتے رہتے ہیں ایک برج سے دوسرے برج کی طرف جاتے ہیں ، یہ ستارے اپنے راستہ سے ذرہ برابر بھی منحرف نہیں ہوتے، ان کی حرکت کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک عمودی حرکت ہوتی ہے جو دن رات میں مشرق سے مغرب کی طرف انجام پاتی ہے، اور دوسری اس کی اپنی مخصوص حرکت ہوتی ہے، اور وہ مغرب سے مشرق کی طرف ہوتی ہے، جیسے اگر ایک چیونٹی چکّی کے پاٹ پر بیٹھ کر بائیں جانب حرکت کرے درحالیکہ چکّی داہنی جانب چلتی ہے، لہٰذا چیونٹی کی دو حرکت ہوتی ہیں ایک اپنے ارادہ سے اور دوسری چکّی کی وجہ سے، کیا یہ ستارے جن میں بعض اپنی جگہ قائم ہیں اور بعض منظم طور پر حرکت کرتے ہیں کیا ان کی تدبیر خداوند حکیم کے علاوہ ممکن ہے؟ اگر کسی صاحب حکمت کی تدبیر نہ ہوتی تو یا سب ساکن ہوتے یا سب متحرک، اور اگر متحرک بھی ہوتے تو اتنا صحیح نظم و ضبط کہاں پیدا ہوتا؟

 

ستاروں کی رفتار انسانوں کے تصور سے کہیں زیادہ ہے، اور ان کی روشنی اس قدر شدید ہے کہ اس کو دیکھنے کی تاب کسی بھی آنکھ میں نہیں ہے ، خداوندعالم نے ہمارے اور ان کے درمیان اس قدر فاصلہ قرار دیا ہے کہ ہم ان کی حرکت کو درک نہیں کرسکتے، اور نہ ہی ان کی روشنی ہماری آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے، اگر اپنی مکمل رفتار کے ساتھ ہم سے نزدیک ہوتے، تو ان کے نور کی شدت کی وجہ سے ہماری آنکھیں نابینا ہوجاتیں، اسی طرح جب پے در پے بجلی کڑکتی وچمکتی ہے آنکھ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، جس طرح سے اگر کچھ لوگ ایک کمرہ میں موجود ہوں اور وہاں پر تیز روشنی والے بلب روشن ہوں اور اچانک خاموش کر دئے جائیں تو آنکھیں پریشان ہوجاتی ہیں اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

اے مفضل! اگر رہٹ کے ذریعہ کسی کنویں سے پانی نکال کر کسی باغ کی سینچائی کی جائے، عمارت، کنویں اور پانی نکالنے کے وسائل اس قدر منظم اور قاعدہ کے تحت ہوں کہ باغ کی صحیح سنچائی ہو سکے ، اگر کسی ایسی رہٹ  کو دیکھے تو کیا انسان کہہ سکتا ہے کہ یہ خود بخود بن گئی ہے، اور کسی نے اس کو نہیں بنایا ہے اور کسی نے منظم نہیں کیا ہے، یہ بات واضح ہے کہ عقل سلیم اس کے دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ایک ماہر اور ہوشیار شخص نے اس رہٹ کو اس اندازسے بنایا ہے، اور جب انسان پانی نکالنے والی ایک چھوٹی سی چیز کو دیکھنے کے بعد اس کے بنانے والے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان تمام گھومنے والے اور ایک جگہ باقی رہنے والے ستاروں، شب و روز، سال کی چار فصلوں کو حساب شدہ دیکھے جبکہ ان میں ذرا بھی انحراف اور بے نظمی نہیں پائی جاتی تو کیا انسان اس قدر عظیم اور عجیب و غریب چیزوں کو دیکھ کر ان کے پیدا کرنے والے کو نہیں پہچان سکتا؟(۶)

 

ایک شخص حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہو کر عرض کرتا ہے: مجھے علم کے عجائبات سکھا دیجئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تجھے اصل علم کے بارے میں کچھ خبر ہے جو عجائب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے؟ تو اس نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اصل علم کیا ہے؟ تو حضرت نے فرمایا: معرفت خدا، اور حق معرفت، اس نے کہا: حق معرفت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: خدا کی مثل و مانند اور شبیہ نہ ماننا، اور خدا کو واحد، احد، ظاہر، باطن، اول و آخر ماننا اور یہ کہ اس کا کوئی کفو و نظیر نہیں ہے، اور یہی معرفت کا حق ہے۔(۷)

پورے قرآن کریم میں اس مسلم اور ہمیشگی حقیقت پر توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ حقیقت اصل جہان اوراس دنیا کو پیدا کرنے والے اور اس کو باقی رکھنے والی کی ہے، انسان کے حواس کو ظاہری آنکھوں سے درک نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا غیب کہا جاتا ہے، اور یہ تمام موجوات فنا ہونے والی ہیں لیکن اس کی ذات باقی ہے ، نیز یہ کہ تمام موجوات کے لئے آغاز و انجام ہوتا ہے لیکن اس کے لئے کوئی آغاز اور انجام نہیں ہے، وہی اول ہے اور وہی آخر ۔

قرآن کریم کے تمام سوروں اور اس کی آیات میں اس حقیقت کو ''اللہ تعالیٰ'' کہا گیا ہے، اور ہر سورے میں متعدد بار تکرار ہوا ہے، اور تمام واقعیات اور تمام مخلوقات اسی واحد قہار کے اسم گرامی سےمنسوب ہیں ۔

 

ہم جس مقدار میں خدا کی مخلوقات اور متعدد عالم کو ایک جگہ ضمیمہ کرکے مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے:

یہ تمام مجموعہ ایک چھوٹے عالم کی طرح ایک نظام کی پیروی کرتا ہے یہاں تک کہ اگر تمام وسیع و عریض عالم کو جمع کریں اور انسانی علم و سائنس کے جدید وسائل جیسے ٹلسکوپ "Telescop"وغیرہ کے ذریعہ کشف ہونے والی چیزوں کو ملاحظہ کریں تو جو نظام اور قوانین ایک چھوٹے نظام میں دیکھے جاتے ہیں ان ہی کو مشاہدہ کریں گے، اور اگر عالَموں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کریں یہاں تک کہ ایک چھوٹے سے ''مولکل''"Molecule" ]یعنی کسی چیز کا سب سے چھوٹا جز [کو بھی دیکھیں گے تو ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس کا نظام اس عظیم جہان سے کچھ بھی کم نہیں ہے، حالانکہ یہ تمام موجودات ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔

المختصر یہ کہ تمام عالموں کا مجموعہ ایک موجود ہے، اور اس پر ایک ہی نظام کی حکومت ہے ، نیز اس عالم کے تمام اجزاء و ذرات اپنے اختلاف کے باوجود ایک ہی نظام کے مسخر ہیں۔

(وَعَنَتْ الْوُجُوہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوم...).(۸)

''اس دن سارے چہرے خدائے حی وقیوم کے سامنے جھکے ہوں گے.''

اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا اور ان کی تدبیر کرنے والا خداوندعالم ہے۔

(وَِلَہُکُمْ ِلَہ وَاحِد لاَِلَہَ ِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِیمُ).(۹)

''اور تمہار ا خدا بس ایک ہے .اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہی رحمن بھی ہے اور وہی رحیم بھی ''۔

فرشتے

قرآن مجید کی تقریباً ٩٠ آیات میں فرشتوں کا ذکر ہوا ہے۔

قرآن کریم نے فرشتوں کے دشمن کو کافر شمار کیا ہے، اور ملائکہ کا انکار کرنے والوں کو گمراہ قرار دیاہے۔

( مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِلَّہِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِیلَ وَمِیکَالَ فَِنَّ اﷲَ عَدُوّ لِلْکَافِرِینَ).(۱۰)

''اورجو بھی اللہ، ملائکہ، مرسلین، جبرئیل و مکائیل کا دشمن ہوگا ، اسے معلوم رہے کہ خدا بھی تمام کافروں کا دشمن ہے''۔

(... وَمَنْ یَکْفُرْ بِاﷲِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلًا بَعِیدًا).(۱۱)

''...اورجو شخص اللہ، ملائکہ، آسمانی کتابوں، رسولوں اور روز قیامت کا انکار کرے گا وہ یقینا گمراہی میں بہت دور نکل گیا ہے''۔

نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت علی علیہ السلام فرشتوں کے سلسلہ میں بیان فرماتے ہیں:

''بعض سجدہ میں ہیں تو رکوع کی نوبت نہیں آتی ہے، بعض رکوع میں ہیں تو سر نہیں اٹھاتے، بعض صف باندھے ہوئے ہیں تو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتے، بعض مشغول تسبیح ہیں تو خستہ حال نہیں ہوتے، سب کے سب وہ ہیں کہ ان کی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور نہ عقلوں پر سہوو نسیان کا، نہ بدن میں سستی پیدا ہوتی ہے اور نہ دماغ میں نسیان کی غفلت۔

ان میں سے بعض کو وحی کا امین بنایا ہے اور رسولوں کی طرف قدرت کی زبان بنایا گیا ہے جو اس کے فیصلوں اور احکام کو برابر لاتے رہتے ہیں، اور کچھ بندوں کے محافظ اور جنت کے دروازوں کے دربان ہیں اوران میں بعض وہ بھی ہیں جن کے قدم زمین کے آخری طبقہ میں ثابت ہیں اور گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باہر نکلی ہوئی ہیں، ان کی اطراف بدن اقطار عالم سے وسیع تر ہیں اور ان کے کاندھے پایہ ہای عرش اٹھانے کے قابل ہیں، ان کی نگاہیں عرش الٰہی کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، اور وہ اس کے نیچے پروں کو سمیٹے ہوئے ہیں، ان کے اور دیگر مخلوقات کے درمیان عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ہیں، وہ اپنے پروردگار کے بارے میں شکل و صورت کا تصور بھی نہیں کرتے ہیں، نہ اس کے حق میں مخلوقات کے صفات جاری کرتے ہیں، وہ نہ اسے مکان میں محدود کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف اشباہ و نظائر سے اشارہ کرتے ہیں۔(۱۲)

 

جی ہاں، فرشتے بھی عالم غیب کے مصادیق ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید اور روایات میں بیان ہوا ہے، انسانی زندگی سے رابطہ کے پیش نظر خصوصاً نامہ اعمال لکھنے ، انسان کے اچھے برے اعمال یا ان کی گفتگو اور زحمتوں کے لکھنے کے لئے معین ہیں، یہی فرشتے ان کی روح قبض کرنے اور اہل جہنم پر عذاب دینے پر بھی مامور ہیں، ملائکہ پر ایمان رکھنے سے انسان کی زندگی پر مثبت آثار پیدا ہوتے ہیں، اور خداوندعالم کی اس نورانی مخلوق پر اعتقاد رکھنا معنوی زیبائیوں میں سے ہے۔

 

حوالہ جات

(١)سورۂ انعام ،آیت ٥٤.

(۲)سورۂ بقرہ ،آیت ٣۔٥.

(۳)سورۂ ابراہیم ،آیت ١٠.    

 (۴)سورۂ بقرہ ،آیت ٢١۔٢٢.

(۵)سورۂ بقرہ ،آیت ٢١.

(۶)توحید مفضل :٣٩؛بحارالانوار ،ج٣،ص٥٧،باب ٤،حدیث١.

(۷)جاء اعرابی الی النبی  ۖ فقال:یا رسول اللہ !علمنی من غرائب العلم.قال:ما صنعت فی راس العلم حتی تسال عن غرائبہ.قال الرجل :ما راس العم یا رسول اللہ ؟قال:معرفة اللہ حق معرفتہ .قال الاعرابی:وما معرفة اللہ حق معرفتہ؟قال:تعرفہ بلا مثل و لاشبہ ولاند،وانہ واحد أحد ظاھر باطن اول آخرلاکفو لہ ولا نظیر .فذلک حق معرفتہ.

توحید صدوق:٢٨٤،حدیث ٥؛بحار الانوارج٣،ص٢٦٩،باب ١٠،حدیث٤.

(۸)سورۂ طہ،آیت ١١١.

(۹)سورۂ بقرہ،آیت١٦٣.

(۱۰)سورۂ بقرہ،آیت٩٨.

(۱۱) سورۂ نساء ،آیت١٣٦.

(۱۲)نہج البلاغہ ، ترجمہ علامہ جوادی ، ص ٣١.

 

https://www.shiastudies.com


متعلقہ تحریریں:

انسانی علم و عمل کی خصوصیت

 دین کی فاسد اخلاق سے جنگ

 کسب روزی