• صارفین کی تعداد :
  • 5237
  • 12/7/2008
  • تاريخ :

امام ھادی علیہ السلام کے اخلاق و اوصاف

امام علی نقی علیه السلام

  حضرت کی سیرت اوراخلاق وکمالات وھی تھے جو اس سلسلئہ عصمت کے ھر فرد کے آپ نے اپنے دور میں امتیازی طور پر مشاھدہ میں آتے رھے تھے . قید خانے اور نظر بندی کاعالم ھو یا آزادی کا زمانہ ھر وقت اور ھر حال میں یاد الٰھی , عبادت , خلق خدا سے استغنا، ثبات قدم , صبر واستقلال ، مصائب کے ھجوم میں ماتھے پر شکن نہ ھونا دشمنوں کے ساتھ  بھی حلم ومرّوت سے کام لینا ,محتاجوں اور ضرورت مندوں کی امداد کرنا یھی اوصاف ھیں جو امام علی نقی علیہ السّلام کی سیرت زندگی میں بھی نمایاں نظر آتے ھیں .

 

 قید کے زمانہ میں جھاں بھی آپ  رھے آپ  کے مصلے کے سامنے ایک قبر کھدی ھوئی تیار رہتی تھی . دیکھنے والوں نے جب اس پر حیرت ودھشت کا اظھار کیا تو آپ  نے فرمایا میں اپنے دل میں موت کا خیال قائم رکھنے کے لیے یہ قبر اپنی نگاھوں کے سامنے تیار رکھتا ھوں . حقیقت میں یہ ظالم طاقت کو اس کے باطل مطالبہ اطاعت اور اس کے حقیقی تعلیمات کی نشر و اشاعت کے ترک کردینے کی خواھش کا ایک خاموش اور عملی جواب تھا. یعنی زیادہ سے زیادہ سلاطین وقت کے ہاتھ   میں جو کچھ  ھے وہ جان کا لے لینا مگر جو شخص موت کے لیے اتنا تیار ھو کہ ھر وقت کھدی ھوئی قبر اپنے سامنے رکھے وہ ظالم حکومت سے ڈر کر سرتسلیم خم کرنے پر کیونکر مجبور کیا جا سکتا ھے مگر اس کے ساتھ  دنیوی سازشوں میں شرکت یا حکومت وقت کے خلاف کسی بے محل اقدام کی تیاری سے آپ  کا دامن اس طرح بری رھا کہ دار سلطنت کے اندر مستقل قیام اور حکومت کے سخت ترین جاسوسی نظام کے باوجود کبھی آپ  کے خلاف کوئی الزام صحیح ثابت نھیں ھوسکا اور کبھی سلاطین وقت کو آپ  کے خلاف کوئی دلیل تشدد کے جواز کی نہ مل سکی باوجود یہ کہ سلطنت عباسیہ کی بنیادیں اس وقت اتنی کھوکھلی ھورھی تھیں کہ دارالسلطنت میں ھر روز ایک نئی سازش کا فتنہ کھڑا ھوتا رہتا تھا .

امام علی نقی علیه السلام

 متوکل سے خود اس کے بیٹے منتصر کی مخالفت اور اس کے انتھائی عزیز غلام باغر رومی کی اس سے دشمنی , منتصر کے بعد امرائے حکومت کا انتشار اور آخر  میں متوکل کے بیٹوں کوخلافت سے محروم کرنے کا فیصلہ ، مستعین کے دور حکومت میں یحییٰ بن عمر بن یحییٰ حسین بن زید علوی کا کوفہ میں خروج اور حسن بن زید المقلب بداعی الحق کا علاقۂ طبرستان پر قبضہ کرلینا اور مستقل سلطنت قائم کر لینا , پھر دارالسلطنت میں ترکی غلاموں کی بغاوت ، مستعین کا سامرے کو چھوڑ کر بغداد کی طرف بھاگنا اور قلعہ بند ھوجانا , آخر  میں حکومت سے دستبرادی پر مجبور ھونا اور کچھ  عرصہ کے بعد معتز بالله کے ہاتھ   سے تلوار کے گھاٹ اترنا پھر معتزبالله کے دور میں رومیوں کا مخالفت پر تیار رھنا, معتزبالله کو خود اپنے بھائیوں سے خطرہ محسوس ھونا اور موید کی زندگی کا خاتمہ اور موفق کا بصرہ میں قید کیا جانا-

 

 ان تمام ھنگامی حالات, ان تمام شورشوں, ان تمام بے چینیوں اور جھگڑوں میں سے کسی میں بھی امام علی نقی علیہ السّلام کی شرکت کا شبہ تک نہ پیدا ھونا کیا اس طرز عمل کے خلاف نھیں ھے جو ایسے موقعوں پر جذبات سے کام لینے والے انسانوں کا ھوا کرتا ھے- ایک ایسے اقتدار کے مقابلے میں جسے نہ صرف وہ حق و انصاف کی رو سے ناجائز سمجھتے ھیں بلکہ اس کی بدولت ا سے جلاوطنی, قید اور اھانتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ھے مگر وہ جذبات سے بلند اور عظمت نفس کا کامل مظھر دینوی ھنگاموں اور وقت کے اتفاقی موقعوں سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا اپنی بے لوث حقانیت اور کوہ سے بھی گراں صداقت کے خلاف سمجھتا ھے اور مخالف پر پس پشت سے حملہ کرنے کو اپنے بلند نقطئہ نگاہ اور معیارعمل کے خلاف جانتے ھوئے ھمیشہ کنارہ کش رھتا ھے-

 

https://www.ishraaq.net