• صارفین کی تعداد :
  • 5706
  • 11/23/2008
  • تاريخ :

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی بعض کرامات

امام محمد تقی علیہ السلام کا روضہ منور

صاحب تفسیرعلامہ حسین واعظ کاشفی کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی کرامات بے شمارہیں (روضة الشہدا ص ۴۳۸) میں بعض کا تذکرہ مختلف کتب سے کرتا ہوں ۔

علامہ عبدالرحمن جامی تحریرکرتے ہیں کہ :

۱ ۔ مامون رشید کے انتقال کے بعد حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اب تیس ماہ بعد میرا بھی انتقال ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

۲ ۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضرہو کرعرض کیا کہ ایک مسماة (ام الحسن) نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپنا کوئی جامہ کہنہ دیجیے تاکہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایا کہ اب جامہ کہنہ کی ضرورت نہیں ہے روای کا بیان ہے کہ میں وہ جواب لے کرجب واپس ہوا تومعلوم ہواکہ ۱۳ ۔ ۱۴ دن ہو گئے ہیں کہ وہ انتقال کرچکی ہے۔

 

۳ ۔ ایک شخص (امیہ بن علی) کہتا ہے کہ میں اورحماد بن عیسی ایک سفرمیں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ آپ سے رخصت ہولیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم آج اپنا سفرملتوی کردو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہرگیا، لیکن میراساتھی حماد بن عیسی نے کہا کہ میں نے ساراسامان سفرگھرسے نکال رکھا ہے اب اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ سفرملتوی کردوں، یہ کہہ کروہ روانہ ہوگیا اورچلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جا پہنچا اوروہیں قیام کیا، رات کے کسی حصہ میں عظیم الشان سیلاب آ گیا،اوروہ تمام لوگوں کے ساتھ حماد کوبھی بہا کر لے گیا (شواہدالنبوت ص ۲۰۲) ۔

 

۴ ۔ علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ معمربن خلاد کا بیان ہے کہ ایک دن مدینہ منورہ میں جب کہ آپ بہت کمسن تھے مجھ سے فرمایا کہ چلومیرے ہمراہ چلو! چنانچہ میں ساتھ ہوگیا حضرت نے مدینہ سے باہرنکل کر ایک وادی میں جا کرمجھ سے فرمایا کہ تم ٹھرجاؤ میں ابھی آتا ہوں چنانچہ آپ نظروں سے غائب ہوگئے اورتھوڑی دیرکے بعد واپس ہوئے واپسی پرآپ بے انتہاء ملول اور رنجیدہ تھے، میں نے پوچھا : فرزندرسول ! آپ کے چہرہ مبارک سے آثارحزن وملال کیوں ہویدا ہیں ارشاد فرمایا کہ اسی وقت بغداد سے واپس آ رہا ہوں وہاں میرے والد ماجد حضرت امام رضاعلیہ السلام زہرسے شہید کردئیے گئے ہیں میں ان پرنماز وغیرہ ادا کرنے گیا تھا۔

امام محمد تقی علیہ السلام کا روضہ منور

۵ ۔ قاسم بن عبادالرحمن کا بیان ہے کہ میں بغداد میں تھا میں نے دیکھا کہ کسی شخص کے پاس تمام لوگ برابرآتے جاتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ جس کے پاس آنے جانے کا تانتا بندھا ہوا ہے یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ابوجعفرمحمد بن علی علیہ السلام ہیں ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ آپ ناقہ پرسواراس طرف سے گذرے ،قاسم کہتا ہے کہ انہیں دیکھ کرمیں نے دل میں کہا کہ وہ لوگ بڑے بیوقوف ہیں جوآپ کی امامت کے قائل ہیں اورآپ کی عزت وتوقیرکرتے ہیں، یہ تو بچے ہیں اورمیرے دل میں ان کی کوئی وقعت محسوس نہیں ہوتی، میں اپنے دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ آپ نے قریب آ کرفرمایا کہ ایے قاسم بن عبدالرحمن جوشخص ہماری اطاعت سے گریزاں ہے وہ جہنم میں جائے گا آپ کے اس فرمانے پر میں نے خیال کیا کہ یہ جادوگر ہیں کہ انہوں نے میرے دل کے ارادے کومعلوم کرلیا ہے جیسے ہی یہ خیال میرے دل میں آیا آپ نے فرمایا کہ تمہارے خیال بالکل غلط  ہیں تم اپنے عقیدے کی اصلاح کرو یہ سن کرمیں نے آپ کی امامت کا اقرارکیا اورمجھے ماننا پڑا کہ آپ حجت اللہ ہیں۔

 

۶ ۔ قاسم بن الحسن کا بیان ہے کہ میں ایک سفرمیں تھا ، مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مفلوج الحال شخص نے مجھ سے سوال کیا،میں نے اسے روٹی کا ایک ٹکڑا دیدیا ابھی تھوڑی دیرگذری تھی کہ ایک زبردست آندھی آئی اوروہ میری پگڑی اڑا کر لے گئی میں نے بڑی تلاش کی لیکن وہ دستیاب نہ ہوسکی جب میں مدینہ پہنچا اورحضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ملنے گیا توآپ نے فرمایا کہ اے قاسم تمہاری پگڑی ہوا اڑا لے گئی میں نے عرض کی جی حضور!آپ نے اپنے ایک غلام کوحکم دیا کہ ان کی پگڑی لے آؤ غلام نے پگڑی حاضرکی میں نے بڑے تعجب سے دریافت کیا کہ مولا! یہ پگڑی یہاں کیسے پہنچی ہے آپ نے فرمایا کہ تم نے جو راہ خدا میں روٹی کا ٹکڑادیا تھا، اسے خدا نے قبول فرما لیا ہے، ایے قاسم خداوندعالم یہ نہیں چاہتا جو اس کی راہ میں صدقہ دیے وہ اسے نقصان پہنچنے دے۔

 

۷ ۔ ام الفضل نے حضرت امام محمد تقی کی شکایت اپنے والد مامون رشید عباسی کو لکھ کربھیجی کہ ابوجعفرمیرے ہوتے ہوئے دوسری شادی بھی کر رہے ہیں اس نے جواب دیا کہ میں نے تیری شادی ان کے ساتھ اس نہیں کی حلال خدا کوحرام کردوں انہیں قانون خداوندی اجازت دیتا ہے کہ وہ دوسری شادی کریں، اس میں تیرا کیا دخل ہے دیکھ آئندہ سے اس قسم کی کوئی شکایت نہ کرنا اورسن تیرا فریضہ ہے کہ تو اپنے شوہرابوجعفرکوجس طرح ہو راضی رکھ اس تمام خط و کتابت کی اطلاع حضرت کو ہو گئی (کشف الغمہ ص ۱۲۰) ۔

 

علامہ شیخ حسین بن عبدالوہاب تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن ام الفضل نے حضرت کی ایک بیوی کوجوعماریاسر کی نسل سے تھی دیکھا تو مامون رشید کو کچھ اس طرح سے کہا کہ وہ حضرت کے قتل پرآمادہ ہو گیا، مگرقتل نہ کرسکا(عیون المعجزات ص ۱۵۴ طبع ملتان)۔

shahroudi.net