• صارفین کی تعداد :
  • 5108
  • 11/17/2008
  • تاريخ :

بابا طاھر عریاں

بابا طاھر عریاں

بابا طاھر ایران کے ایک عظیم شاعر گزرے ہیں جو ہمدان  کے رہنے والے تھے اور  ان کا مقبرہ بھی اسی شہر میں واقع ہے ۔ ان کا مسلک درویشی اور انکساری تھا جو عرفاء کا شیوہ ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی گمنامی اور گوشہ نشینی میں بسر کی اور یہی وجہ تھی کہ ان کی زندگی کے تمام کے تمام پہلو منظر عام پر نہیں آ سکے ۔ بعض صوفیاء کی کتابوں میں ان کے مسلک ریاضیت ،درویشی اور استغناء کا ذکر آیا ہے ۔ جو کچھ ان کے حالات کے بارے میں معلوم ہوا ہے وہ ان کی پہلے سلجوقی بادشاہ طغرل سے ملاقات ہے جو تقریبا 447 ہجری میں ہمدان  میں ہی  ہوئی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شہرت پانچویں صدی کے وسط تک پھیل چکی تھی اور بابا طاھر چوتھی صدی کے آخر میں پیدا ہوۓ تھے ۔

 

سلطان طغرل بیگ کی بابا طاھر کے ساتھ ملاقات کو محمد علی بن سلیمان الراوندی  اپنی کتاب "" راحت لصدور و آیتہ السرور "" میں یون بیان کرتے ہیں کہ جب سلطان طغرل ہمدان آیا تو بابا طاھر کی شہرت کے باعث ان کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ انہوں نے بادشاہ کو مملکت داری میں عدل و انصاف کی تلقین کی اور مٹی کے لوٹے کا ایک ٹوٹا ہوا دستہ تبرک کے طور پر عطا کیا ۔ سلطان طغرل اس دستے کو اپنے تعویزوں میں رکھا کرتا تھا ۔ وہ جب کسی مہم پر جاتا اسے انگلی میں ڈال لیتا تھا ۔

 

بابا طاھر نے رباعیات کے علاوہ عربی اور فارسی میں کـچھ رسالے بھی تحریر کیے ۔ ان کی تصانیف میں عربی اقوال کا ایک مجموعہ بھی شامل ہے جس میں ذکر و عبادت ،وجد و محبت اور علم و معرفت کے موضوع پر صوفیانہ عقائد بیان کیے گۓ ہیں ۔ ان کی اصل شہرت ان کی دو بیتیوں کے باعث ہے ۔ رباعی اور دوبیتی میں ایک خفیف سا فرق ہے ۔ دوبیتی ویسے تو رباعی کی طرح چار مصروں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اس کا وزن رباعی کے مسلمہ اوزان سے مختلف ہوتا ہے اور یہ ایران میں اسلام کی آمد سے پہلے بھی موجود رہی ہے ۔

صوفی شاعر بابا طاھر کا مقبرہ

 بابا طاھر کی دوبیتیاں لری زبان میں بھی تحریر کی گئی  ہیں جو ہمدان کی علاقائی زبان ہے ۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ مازندرانی زبان میں کہی گئی ہیں ۔ لطف علی بیگ آذر اپنے تذکرے بنام "" آتش کدہ "" میں تحریر کرتے ہیں کہ  بابا طاھر نے یہ دو بیتیاں "" راجی "" زبان میں تحریر کی ہیں جو شمالی ایران کی علاقائی زبان ہے ۔ اسے پہلوی بھی کہتے ہیں ۔ پہلوی کا پس منظر یہ ہے کہ پہلوی زبان قدیم فارسی ہی کی ایک شاخ ہے ۔ بنی قدیم فارسی کلمات اور کلام کی ترکیب میں زمانے کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں رونما ہوئیں  وہ پہلوی زبان کی صورت میں نمودار ہوئیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے خود پہلوی بھی بتدریج موجودہ فارسی میں بدل گئی ۔

 

 ڈاکٹر براؤن لکھتے ہیں کہ پہلوی زبان صوبہ پرتو یار پارتھیا کی زبان تھی جہاں سے اٹھ کر اشکانیوں نے یونانیوں کو مغلوب کیا ۔ یوں تو یہ محض ایک صوبے کی زبان اور رسم الخط ہے جو اشکانی دور میں اور خاص طور پر ساسانی دور میں ایران میں رائج تھا ۔ اسے فارسی میانہ (درمیانی فارسی ) بھی کہتے ہیں ۔ ایران میں اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد پہلوی میں مزید کچھ تبدیلیاں ہوئیں اور اسے عربی خط میں لکھا جانے لگا ۔ پہلوی زبان کی اس صورت میں جو منظومات لکھی گئیں ہیں بقول  ملک الشعراء بہار ""فہلویات "" ہیں۔ بابا طاھر کی دوبیتیوں کا شمار بھی فہلویات میں ہوتا ہے ۔

 دوبیتیوں کا انداز نہایت سادہ ،رواں اور آسان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت موثر اور شیریں ہے ۔ ان میں قلبی سوز و گداز پایا جاتا ہے ۔ خیالات بہت سادہ ہیں اور ان میں فلسفانہ گہرائی نہیں ہے ۔ اخلاق و عرفان ،ہجر و فراق ،درد و غم ،ایذا کشی اور ایذا طلبی ان کی دوبیتیوں کے خاص مضمون ہیں ۔ جب وہ عاشقانہ واردات اور کیفیات کا بیان کرتے ہیں تو ہر اہل دل یہ گمان کرتا ہے کہ اس کے اپنے دل کے احساسات ہیں ۔

 

دلت ای سنگدل بر ما نسوجھ
عجب نبوہ اگرخارا نسوجھ
بسوجم تا بسوجونم دلت را
در آتش چوب تر تنھا نسوجھ

 

ترجمہ : ( اے سنگدل ترا دل ہماری خاطر نہیں جلتا ۔ اگر پتھر نہ جلے تو یہ عجیب بات نہیں ۔ میں (خود)جلوں گا تاکہ تیرے دل کو جلاؤں ۔ گیلی لکڑی آگ میں اکیلی نہیں جلتی ۔ )

 

بابا طاھر کی دوبیتیوں کی صحیح تعداد کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے ۔ مختلف نسخوں میں ان کی تعداد مختلف ہے ۔ پروفیسر براؤن کے مطابق بابا طاھر کی دوبیتیوں کا ایک نسخہ برلن میں موجود ہے جو چھ اوراق پر مشتمل ہے ۔ اس میں دوبیتیوں  کی تعداد 56 ہے ۔ ایڈورڈ ہیرن ایلن نے بابا طاھر کی دوبیتیوں کا ایک نسخہ ترتیب دیا ہے اس میں ان کی تعداد 62 ہے ۔ وہ اپنی تالیف ""  lamert baba tahir "" کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ بابا طاھر کی  دوبیتیوں کا ایک قدیم نسخہ ان کے پاس موجود ہے جس میں دوبیتیوں کی تعداد 174 ہے ۔ درحقیقت رباعیات عمر خیام کی  طرح بابا طاھر کی  دوبیتیوں میں بھی بعض دوبیتیاں الحاقی ہیں ۔ یعنی بابا طاھر کی اپنی تحریر  کردہ نہیں ہیں بلکہ بعد میں شامل کی  گئی ہیں ۔ بابا طاھر کی  مخصوص زبان اورانداز بیاں کے باعث الحاقی دوبیتیاں پہچانی جاتی ہیں۔ مثلا

 

در دیست اجل کہ نیست درمان او را
بر شاہ و وزیر ھست فرمان او را
شاھی کہ بحکم دوش کرمان می خورد
امروز ہمین خورند کرمان او را

 

ترجمہ: ( موت ایک ایسا درد ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ وہ بادشاہ اور وزیروں پر بھی فرمانروائی کرتی ہے ۔ وہ بادشاہ جو کل اپنے حکم کے ذریعے کرمان کھا جاتا تھا ۔ آج اسے کیڑے کھا رہے ہیں )

 

اس رباعی کو ایڈورڈ ہیرن ایلن نے بابا طاھر کی مجموعہ میں شامل کیا مگر اسے دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ رباعی بابا طاھر کی نہیں ہو سکتی ۔ اس میں حکیم عمر خیام کا رنگ نمایاں ہے ۔ خیالات میں سادگی کی بجاۓ فلسفانہ گہرائی ہے ۔ بابا طاھر کی زبان اور انداز اس طرح سے ہے ۔

 

بعالم ھمچو مو پروانہ نھ
جہانرا ھمچو مو دیوانہ نھ
ھمھ مارون و مورون لانھ دیرن
من بیچارہ را ویرانھ نھ

 

ترجمہ : ( دنیا میں مجھ جیسا پروانہ نہیں ہے ۔ عالم میں مجھ جیسا دیوانہ نہیں ہے ۔ سب سانپ اور چیونٹیاں ٹھکانہ رکھتی ہیں مگر مجھ بیچارے کے پاس ویرانہ بھی نہیں ہے ۔ )

 

تحریر: سید رشید بخاری

پیشکش: شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:  

فخرالدین رازی

قطب الدین شیرازی