• صارفین کی تعداد :
  • 3414
  • 11/16/2008
  • تاريخ :

میری آنکھوں میں آنسو پگھلتا رہا، چاند جلتا رہا

لال گلاب

میری آنکھوں میں آنسو پگھلتا رہا، چاند جلتا رہا
تیری یادوں کا سورج نکلتا رہا، چاند جلتا رہا

 

کوئی بستر پہ شبنم لپیٹے ہوئے خواب دیکھا کیا

کوئی یادوں میں کروٹ بدلتا رہا، چاند جلتا رہا

 

میری آنکھوں میں کیمپس کی سب ساعتیں جاگتی ہیں ابھی

نہر پر تو مرے ساتھ چلتا رہا، چاند جلتا رہا

 

میں تو یہ جانتا ہوں کہ جس شب مجھے چھوڑ کر تم گئے

آسمانوں سے شعلہ نکلتا رہا ، چاند جلتا رہا

 

رات آئی تو کیا کیا کرشمے ہوئے تجھ کو معلوم ہے؟

تیری یادوں کا سورج اُبلتا رہا ، چاند جلتا رہا

 

رات بھر میری پلکوں کی دہلیز پر خواب گرتے رہے

دل تڑپتا رہا، ہاتھ ملتا رہا ، چاند جلتا رہا

 

یہ دسمبر کہ جس میں کڑی دھوپ بھی میٹھی لگنے لگے

تم نہیں تو دسمبر سلگتا رہا، چاند جلتا رہا

 

آج بھی وہ تقدس بھری رات مہکی ہوئی ہے وصی

میں کسی میں ، کوئی مجھ میں ڈھلتا رہا ، چاند جلتا رہا

 

شاعر کا نام : وصی شاہ

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

 باندھ لیں ہاتھ سینے پہ سجالیں تم کو

ترے فراق کے لمحے شمار کرتے ہوئے

اس کی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہوگا

 TOO late

 اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کردو

آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر