• صارفین کی تعداد :
  • 5340
  • 11/8/2008
  • تاريخ :

مکہ میں اسلام کی تبلیغ اور قریش کا رد عمل

مکہ

نزول وحی

خداوند تعالیٰ کی عبادت و پرستش کرتے رسول اکرم کو چالیس سال گزر چکے تھے۔ ایک مرتبہ جب آپ غار حراء میں معبود حقیقی سے راز و نیاز میں مشغول تھے اس وقت اچانک حضرت جبرئیل امین آپ کے پاس آئے اور رسالت کی خوشخبری دیتے ہوئے انہوں نے وہ پہلی آیت جو خداوند تعالیٰ کی جانب سے نازل کی گئی تھی:

اقراء باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقراء و ربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم

”اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو کہ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے، پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے اور انسان کو وہ سب کچھ سکھا دیا ہے جو وہ نہیں جانتا تھا۔“

رسول اعظم نے جب یہ آیت مبارکہ سنی اور خدا وند تعالیٰ کی جانب سے پیغمبری کی خوشخبری ملی نیز آپ نے مقام کبریائی کی عظمت و شان کا مشاہدہ کیا تو اس نعمت عظمیٰ کو حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے وجود مبارک میں مسرت و شادمانی محسوس کی چنانچہ آپ غار سے باہر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ کے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔

راستے میں جتنی پہاڑیاں اور چٹانیں تھیں وہ سب قدرت حق سے گویا ہوگئی تھیں اور پیغمبر خدا کے ساتھ با ادب و احترام پیش آرہی تھیں اور ”السلام علیک یا نبی اللہ“ کہہ کر آپ سے مخاطب ہو رہی تھیں۔

شیعہ محدثین اور مورخین کے نظریے کی رو سے واقعہ (عام الفیل) کے چالیس سال گزر جانے کے بعد رسول خدا پر ۲۷ رجب کو پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی۔

سب سے پہلے اسلام کا اعلان کرنے والا

رسول خدا غارِ حراء سے گھر تشریف لے گئے اور آپ نے نبوت کا اعلان کر دیا۔ سب سے پہلے آپ کے چچا زاد بھائی حضرت علی علیہ السلام اور عورتوں میں آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ نے آپ کے پیغمبر ہونے کی تصدیق کی، اہلسنّت میں کے اکثر و بیشتر مورخین بھی اس بات سے متفق ہیں اس سلسلے میں چند روایات ملاحظہ فرمائیں:

(۱) پیغمبر اکرم

ھذا اوّل من امن بی وصدقنی وصلی معی

”علی علیہ السلام پہلے شخص ہیں جس نے تصدیق کی اور میرے ساتھ نماز ادا کی۔“

(۲) پیغمبر اکرم

اولکم واردأ علی الحوض، اولکم اسلاماً علی ابن ابی طالب

”علی علیہ السلام پہلے شخص ہیں جو سب سے پہلے حوض کوثر کے کنارے مجھ سے ملاقات کریں گے اور سابق الاسلام ہیں۔“

(۳) حضرت علی علیہ السلام

اللھم انی اول من اناب وسمع واجاب لم یسبقنی الارسول اللہ

”بارالہا! میں پہلا شخص ہوں جو دین کی طرف آیا اسے سنا اور قبول کیا۔ پیغمبر اکرم کے علاوہ کسی شخص نے نماز میں مجھ پر سبقت نہیں کی۔“

دعوت کا آغاز

رسول اکرم غار حراء سے نکل کر جب گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے بستر پر آرام فرمایا۔ ابھی اسلام کے مستقل اور دین کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ سورہ مدثر نازل ہوئی اور رسول خدا کو اٹھ کھڑے ہونے اور ڈرانے پر مقرر کیا۔ چنانچہ اس طرح پیغمبر اکرم نے دعوت حق کا آغاز کیا اس دعوت کے تین مرحلے تھے۔

 

(الف) پوشیدہ دعوت

دعوتِ حق کے اس مرحلے کی مدت مورخین نے تین سے پانچ سال لکھی ہے۔ مشرکین کی سازش سے محفوظ رہنے کے لیے رسول اکرم نے یہ فیصلہ کیا کہ عوام کی جانب توجہ دینے کی بجائے لوگوں کو فرداً فرداً دعوتِ حق کے لیے تیار کریں اور پوشیدہ طور پر باصلاحیت لوگوں سے ملاقات کرکے ان کے سامنے دین الٰہی پیش کریں۔ چنانچہ آپ کی جدوجہد سے چند لوگ آئین توحید کی جانب آ گئے مگر ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ اپنے دین کو مشرکین سے پوشیدہ رکھیں اور فرائض عبادت کو لوگوں کی نظروں سے دور رہ کر انجام دیں۔

جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور تیس تک پہنچ گئی تو رسول خدا نے ارقم کے گھر کو جو کوہ صفا کے دامن میں واقع تھا تبلیغ اسلام اور پرستش خداوند تعالیٰ کا مرکز قرار دیا۔ آپ اس گھر میں ایک ماہ تک تشریف فرما رہے۔ اب مسلمانوں کی تعداد چالیس تک پہنچی تھی۔

قریش کا ردعمل

اگرچہ قریش کو کم و بیش علم تھا کہ رسول خدا کی پوشیدہ طور پر دعوت دین حق جاری ہے لیکن انہیں اس تحریک کی گہرائی سے واقفیت نہ تھی اس لیے انہوں نے کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا کیونکہ اس سے انہیں کسی خطرہ کا اندیشہ نہیں تھا، مگر اس کے ساتھ ہی وہ اپنے گرد و پیش کے ماحول سے بھی بے خبر نہ تھے، چنانچہ وہ ان واقعات کی کیفیت بھی ایک دوسرے سے بیان کر دیتے تھے، رسول خدا نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اس عرصے میں آپ نے (حزب اللہ) جماعت حق کی داغ بیل ڈال دی۔

 

(ب) عزیز و اقرباء

دعوت کا یہ مرحلہ اس آیہٴ مبارکہ کے نزول کے ساتھ شروع ہوا۔

وانذر عشیرتک القربین

اپنے رشتہ داروں کو عذابِ الٰہی سے ڈرایئے

پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام کو اس کام پر مقرر کیا کہ آپ علیہ السلام کھانے کا انتظام کریں اور آنحضرت کے عزیز و اقارب کو کھانے پر بلائیں، تاکہ ان تک خداوند تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیں۔

تقریباً چالیس یا پینتالیس آدمی آپ کے دستر خوان پر جمع ہوئے، رسول خدا چاہتے تھے کہ لوگوں سے گفتگو کریں، مگر ابولہب نے غیر متعلقہ باتیں شروع کرکے اور آپ پر سحر و جادو گری کا الزام لگا کر محفل کو ایسا درہم برہم کیا کہ اس میں اصل مسئلے کو پیش نہ کیا جا سکا۔

اگلے روز آپ نے دوبارہ لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ جب لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے تو رسول خدا اپنی جگہ سے اٹھے اور تقریر کے دوران فرمایا:

اے عبدالمطلب کے بیٹو! خدا کی قسم مجھے قوم عرب میں ایک بھی ایسا جوان نظر نہیں آتا کہ وہ اس سے بہتر چیز لے کر آیا ہو، جو میں اپنی قوم کے لیے لے کر آیا ہوں۔ میں تمہارے لیے دنیا اور آخرت کی خیر (بھلائی) لے کر آیا ہوں۔ خداوند تعالیٰ نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ہے کہ میں تمہیں اس کی طرف دعوت دوں۔ تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی، وصی ور جانشین بن سکے۔

فایکم یوازرنی علی ھذا الامر علی ان یکون اخی ووصیی وخلیفتی؟

”رسول خدا نے تین مرتبہ اپنی بات دہرائی اور ہر مرتبہ حضرت علی علیہ السلام ہی نے اٹھ کر اعلان کیا کہ میں آپ کی مدد و پشت بانی کروں گا۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا:

انا ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکونا سمعوا لہ واطیعوا

”یہ علیہ علیہ السلام تمہارے میرے بھائی، وصی اور خلیفہ ہیں ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔“

اس مجلس میں رسول خدا نے تقریر کی اس سے مسئلہٴ امامت کی امیت واضح ہو جاتی ہے اور یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اصل (نبوت) کو امامت) سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

عزیز و اقارب کو ہی کیوں پہلے دعوت حق دی گئی؟

مندرجہ بالا سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ دعوت عمومی سے قبل عقل و دانش کی رو سے عزیز و اقارب کو ہی دعوت دی جانی چاہیے، کیونکہ امر واقعی یہ ہے کہ رسول خدا کا یہ اقدام انتہائی حساس مرحلے اور خطرناک حالات میں دعوت حق کی بنیادوں کو استوار کرنے کا بہترین ذریعہ تھا۔ کیونکہ۔

(۱)     عزیز و اقارب کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرکے ہی پیغمبر اکرم دشمنان اسلام کے خلاف طاقتور دفاعی محاذ قائم کرسکتے تھے۔ اس کا کم از کم اتنا فائدہ تو تھا ہی کہ اگر ان کے دل آپ کے دین کی طرف متوجہ نہ بھی ہوئے تو بھی وہ رشتہ داری اور قرابت کی بنا پر آنحضرت کے تحفظ و دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔

(۲)     رسول اللہ نے انسانی کوتاہیوں اور اپنی ذات میں تنظیمی قوت کا خوب اندازہ لگایا اور یہ جان لیا تھا کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو آپ کی مخالفت کریں گی اور آپ سے برسر پیکار ہوں گی۔

(ج) عام دعوتِ حق

رسول خدا نے اس آیت :

فاصدع بما توئمر واعرض ِعن المشرکین انا کفیناک

”جس چیز کا آپ کو حلم دیا جا رہا ہے اسے کھلم کھلا بیان کرو اور مشرکین کی پروا نہ کرو تمہارا مذاق اڑانے والوں کے لیے ہم کافی ہیں۔“

آپ کو اس کام پر مقرر کیا گیا کہ سب کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں، چنانچہ اس مقصد کی خاطر آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور اس جم غفیر کے سامنے جو اس وقت وہاں موجود تھا آپ نے اس تمہید کے ساتھ تقریر شروع کی کہ:

اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے تہاری گھات میں دشمن بیٹھا ہوا ہے اور تمہارے لیے اس کا وجود سخت خطرے کا باعث ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرو گے؟

سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں، ہم آپ کی بات کا یقین کریں گے کیونکہ ہم نے آپ کی زبان سے اب تک کوئی جھوٹی بات نہیں سنی ہے اس کے بعد آپ نے فرمایا:

فانی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید

”اب جب کہ تم نے میری راست گوئی کی تصدیق کر دی ہے تو میں تمہیں بہت ہی سخت عذاب سے آگاہ و خبردار کر رہا ہوں۔“

رسول خدا کی یہ بات سن کر ابولہب بول اٹھا اور کہنے لگا:

وائے تیرے حال پر، کیا تو نے یہی بات کہنے کے لیے ہمیں یہاں جمع کیا تھا؟

خداوند تعالیٰ نے اس گستاخ کی تنبیہ اور اس کے چہرے سے کینہ توزی کی نقاب کو دور کرنے کے لیے سورہٴ ابولہب نازل فرمائی:

تبت یدا ابی لھب وتب مااغنی عنہ مالہ وماکسب سیصلی نارا ذات لھب وامراتہ حمالة الحطب فی جیدھا حبل من مسد

”ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ کمایا ہوا عنقریب اسے آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کی بیوی لکڑی ڈھونے والی کو جس کے گلے میں بندھی ہوئی رسی ہے۔“

قریش کا ردعمل

پیغمبر اکرم کی نبوت کی خبر جیسے ہی مکہ کی فضا میں گونجی ویسے ہی قریش کے اعتراضات شروع ہو گئے، چنانچہ جب انہیں یہ محسوس ہوا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے اور ان کے خس و خاشاک جیسے دینی عقائد اور مادی مفاد کے لیے خطرہ ہے تو انہوں نے آپ کے پیش کردہ آسمانی دین و آئین کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی۔ ہم  یہاں ان کی بعض وحشیانہ حرکات کا ذکر کر رہے ہیں:

(الف) مذاکرہ

مشرکین قریش کی شروع میں تو یہی کوشش رہی کہ وہ حضرت ابوطالب اور بنی ہاشم کے مقابلہ میں نہ آئیں بلکہ انہیں مجبور کریں کہ وہ پیغمبر اکرم کی حمایت و پشت پناہی سے دست بردار ہو جائیں تاکہ وہ آسانی سے رسول اکرم کے مشن کو ناکام بنا سکیں۔

اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے پہلے تو یہ کوشش کی کہ حضرت ابوطالب کو یہ کہنے پر مجبور کر دیں کہ ان کے بھتیجے کی تحریک نہ صرف ان (مشرکین قریش) کے لیے ضرر رساں ہے بلکہ قوم و برادری میں انہیں جو عزت و حیثیت حاصل ہے اس کے لیے بھی خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

مشرکین قریش نے عمار بن ولید بن مغیرہ ایسے خوبرو، تنومند اور وجیہ و جمیل جوان شاعر کو حضرت ابوطالب کی فرزندی میں دینے کی کوشش کی تاکہ پیغمبر اکرم کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں اور آپ کو ان کے حوالے کر دیں۔

حضرت ابوطالب نے ان کی ہر بات کا نفی میں جواب دیا اور اس کام کے لیے کسی بھی شرط پر آمادہ نہ ہوئے کہ رسول خدا کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں۔

(ب)لالچ

سردارانِ قریش کو جب پہلے ہی مرحلے میں شکست و ناکامی ہوئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ چراغِ نبوت کو خاموش کرنے کے لیے داعی حق کو مال و دولت کا لالچ دیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے تحت پہلے وہ حضرت ابوطالب کے پاس پہنچے اور یہ شکوہ و شکایت کرتے ہوئے کہ ان کے بھتیجے (حضرت محمد) نے ان کے دیوتاؤں کے خلاف جو رویہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی نازیبا ہے۔ لہٰذا اگر حضرت محمد ہمارے دیوتاؤں سے دستکش ہو جائیں تو ہم انہیں دولت سے مالا مال کر دیں گے۔ ان کی اس پیشکش کے بارے میں رسول خدا نے جواب دیا:

خداوند تعالیٰ نے مجھے دنیا اور زر اندازی کے لیے انتخاب نہیں فرمایا ہے بلکہ مجھے اس لیے منتخب کیا ہے کہ لوگوں کو اس کی جانب آنے کی دعوت دوں اور اس مقصد کی طرف ان کی رہبری کروں۔

یہ بات آپ نے دوسری جگہ ان الفاظ میں فرمائی:

چچا جان! خدا کی قسم اگر وہ سورج کو میرے داہنے ہاتھ اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تو بھی میں نبوت سے دست بردار ہونے والا نہیں۔ اس خدائی تحریک کو فروغ دینے کے لیے میں جان کی بازی تو لگا سکتا ہوں مگر اس سے دستکش ہونے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

سردارانِ قریش نے اگلے مرحلے پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ براہِ راست پیغمبر اکرم سے گفتگو کریں گے، چنانچہ اس مقصد کے تحت انہوں نے اپنا نمائندہ آپ کی خدمت میں روانہ کیا، اور آپ کو اپنے مجمع میں آنے کی دعوت دی۔ جب رسول خدا ان لوگوں میں پہنچ گئے تو کفار قریش نے آپ کے رویئے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو مال و دولت کی تمنا ہے تو ہم اتنا مال و متاع دینے کے لیے تیار ہیں کہ آپ دولت مندوں میں سب سے زیادہ مالدار ہو جائیں، اگر آپ کو جاہ و امارت کی خواہش ہے تو ہم آپ کو اپنا امیر و سردار بنانے کے لیے تیار ہیں۔ اور ایسے مطیع فرمانبردار بن کر رہیں گے کہ آپ کی اجازت کے بغیر معمولی سا بھی کام نہ کریں گے اور اگر آپ کے دل میں حکومت اور سلطنت کی آرزو ہے تو ہم آپ کو اپنا حکمراں و فرمانروا تسلیم کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ یہ سن کر رسول خدا نے فرمایا:

میں مال و دولت جمع کرنے، تمہارا سردار بننے اور تخت سلطنت پر پہنچنے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا ہوں، خداوند تعالیٰ نے مجھے پیغمبر کی حیثیت سے تمہارے پاس بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے، مجھے تہارے پاس جنت کی خوشخبری دینے اور عذاب دوزخ سے ڈرانے کے لیے مقرر کیا ہے، جس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے، اسے میں نے تم تک پہنچا دیا ہے۔ اگر تم میری بات مانو گے تو تمہیں دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب ہوں گی، اور اگر تم میری بات کو قبول کرنے سے انکار کرو گے تو میں اس راہ میں اس وقت تک استقامت و پائیداری سے کام لوں گا کہ خداوند تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دے۔

 

(ج) تہمت و افترا پردازی

پیغمبر اکرم کے فریشتوں جیسے چہرہ مبارک کو داغدار کرنے کے لیے قریش نے جو پست طریقے اختیار کیے، ان میں سے ایک احمقانہ حربہ آپ پر تہمتیں لگانا بھی تھا، چنانچہ آپ کو در وغ گو یا جنونی ہونے سے زیادہ ساحر و جادوگر سمجھنے لگے تھے اور یہ کہتے پھرتے تھے کہ اس شخص کے پاس کوئی ایسا جادو ہے جس کے ذریعے یہ شخص باپ، بیٹوں، بیوی و شوہر، دوستوں اور رشتہ داروں کے درمیان جدائی پیدا کردیتا ہے۔

قرآن مجید نے ایسی تہمتوں کے بارے میں کئی جگہ اشارہ کیا ہے اور پیغمبر اکرم کی متبرک و مقدس ذات کو اس سم کے اتہامات و الزامات سے منزہ و مبرہ قرار دیا ہے-

ایک آیت میں پیغمبر اکرم کی یہ کہہ کر دلجوئی کی ہے کہ یہ پست شیوہ ان ہی کفار کی خصوصیت نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی دشمنان انبیاء اسی قسم کے حربے استعمال کرچکے ہیں۔

کذالک ما انی الذین من قبلھم من رسول الا قالوا ساحرا ومجنونا اتو صوابہ بل ھم قوم طاغون

 (سورہ ذاریات)

”یوں ہی ہوتا رہا ہے ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون، کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کرلیا ہے؟ نہیں بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔“

(د) شکنجہ و ایذاء رسانی

آپ کی طرف اتہامات و ناشائستہ حرکات کی نسبت دینے کے ساتھ ہی انہوں نے آپ کو ایذاء و آزار رسانی بھی شروع کر دی اور انہوں نے ایذاء و آزار رسانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قریش کا یہ غیر انسانی طرز عمل نہ صرف پیغمبر اکرم کے ساتھ تھا بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھتے تھے۔

پیغمبر اکرم کو ابولہب اس کی بیوی ام جمیل، حکم ابن ابی العاص، عقبہ ابن ابی معیط اور ان کے ساتھیوں نے دوسروں کے مقابلے بہت زیادہ ایذاء و تکلیف پہنچائی۔

ایک مرتبہ رسولِ خدا تبلیغ اسلام کے لیے ازار (عکاظ) کی جانب تشریف لے جا رہے تھے کہ ابولہب بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہولیا اور چلا چلا کر کہنے لگا:

لوگو! میرا یہ بھتیجا جھوٹا ہے اس سے بچ کر رہنا۔

قریش آوارہ لڑکوں اور اپنے اوباش غلاموں کو پیغمبر اکرم کے راستے پر بٹھا دیتے اور جب آنحضرت اس راستے سے گزرتے تو سب آپ کے پیچھے لگ جاتے۔ آپ کا مذاق اڑاتے، جس وقت آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ پر اونٹ کی اوجھڑی میں سے فضلہ انڈیل دیتے۔

رسول اکرم نے دشمن کے ہاتھوں ایسی سختیاں برداشت کیں کہ ایک مرتبہ زبان مبارک پر آ ہی گیا۔

ما اوذی احدمثل مااوذیت فی اللہ

”راہ خدا میں کسی بھی پیغمبر کو اتنی اذیتیں نہیں دی گئی ہیں جتنی مجھے دی گئی ہیں۔“

صحابہ رسول کے بارے میں بھی انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر نو قبیلہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کچلنے کے لیے انہیں ہر طرح کی اذاء و تکلیف پہنچائیں تاکہ وہ مجبور ہو کر اپنے نئے دین و آئین سے دستکش ہو جائیں۔

یاسر، ان کی اہلیہ ”سمیہ“ اور فرزند ”عمار“ جناب ابن ارت، عار ابن فہیدہ اور ”بلال حبشی“ نے دیگر مسلمانوں کے مقابل زیادہ مصائب و تکالیف برداشت کیں۔

”سمیہ“ پہلی مسلم خاتون تھیں جو فرعون قریش ابوجہل کی طاقت فرسا ایذاء رسانی و شکنجہ کے باعث اس کے نیزے کی نوک سے زخمی ہو کر شہید ہوگئیں۔ ان کے شوہر یاسر دسرے شہید تھے جو راہ اسلام میں شہید ہوئے (عمار نے گرتقیہ نہ کیا ہوتا تو وہ بھی قتل کر دیئے جاتے۔

امیہ ابن خلف اپنے غلام حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھوکا پیاسا مکہ کی دوپہر میں تپتی ہوئے ریت پر لٹا دیتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر کہتا تھا کہ یا تو لات و عزیٰ کی پوجا کر، ورنہ تو اسی حالت میں مر جائے گا۔ مگر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سخت تکالیف میں بھی یہی جواب دیتے احد احد۔

اس کے علاوہ بھی دیگر مسلمانوں کو قید و بند میں رکھ کر سخت زد و کوب کرکے بھوک پیاس سے تڑپا کر اور گلے میں رسی باندھ کر جانوروں کی طرح کوچہ و بازار میں گھسیٹتے اور ہر قسم کی ایذا و تکلیف پہنچاتے تھے۔

قریش کی سازشیں حبشہ کی طرف ہجرت

پیغمبر اکرم کے پاس پہنچنے سے لوگوں کو روکنا

گرد و نواح سے وہ لوگ جن کے دلوں میں دین اسلم کی محبت پیدا ہوگئی تھی پیغمبر اکرم سے ملاقات کرنے کی خاطر مکہ آتے، مگر مشرکین انہیں پیغمبر اکرم تک پہنچنے سے منع کرتے تاکہ دین اسلام کے اثر و نفوذ کو روک سکیں، وہ ہر حیلے اور بہانے سے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ دین اسلام قبول نہ کریں اور رسولِ خدا سے الگ رہیں۔ یہاں بطورِ مثال ایک واقعہ پیش کیا جاتا ہے۔

اعشیٰ زمانہ جاہلیت کے مشہور شاعر تھے، انہیں اجمالی طور پر رسول خدا پر نزول وحی اور آپ کے اسلامی تعلیمات کا علم ہو گیا تو انہوں نے آنحضرت کی شان میں قصیدہ کہا اور اسے لے کر مکہ کی جانب روانہ ہوئے، تاکہ دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرسکیں۔ جب وقت وہ مکہ میں داخل ہوئے تو مشرکین ان سے ملنے آئے اور ان کے مکہ آنے کا سبب دریافت کیا۔ جب انہیں اعشیٰ کے قصد و ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی فطری شیطنت و جبلی حیلہ گری کے ذریعے انہیں رسول کے ساتھ ملاقات کرنے سے روکا، چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس وقت تو واپس اپنے شہر چلے جائیں اور آئندہ سال پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کریں گے، مگر موت نے انہیں اس سعادت کی مہلت نہ دی اور سال ختم ہونے سے پہلے انتقال کرگئے۔

قرآن سے مقابلہ

دشمنانِ اسلام کو جب یہ علم ہوا کہ آسمانی دین و آئین کی تبلیغ میں پیغمبر اکرم کی کامیابی کا اہم ترین عامل آیات الٰہی کی وہ معنوی کشش ہے جو لوگوں کے قلوب پر اثر کرتی ہے اور انہیں اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ تو انہیں یہ طفلانہ تدبیر سوجھی کہ لوگوں کو قرآن کی جانب متوجہ ہونے سے روکیں اور اس کتاب مقدس کی مقبولیت اور دلچسپی کو ختم کر دیں۔

نصر بن حارث کا شمار ان دشمنانِ اسلام میں ہوتا ہے جو رسولِ خدا کو بہت زیادہ ایذا و آزار پہنچایا کرتے تھے۔ جب اس نے حیرہ کا سفر کیا تو اس نے وہاں رستم و اسفسند یار کی داستانیں سن لی تھیں، چنانچہ قریش نے اسے اس کام پر مقرر و معین کیا کہ جب مسجد الحرام میں رسول اکرم کا تبلیغی پروگرام ختم ہو جایا کرے تو وہ آنحضرت کی جگہ جا بیٹھے اور لوگوں کو رسم اور اسفند یار کی داستانیں سنائے۔ شاید اس طریقے سے رسول اکرم کے مرتبے کو کم کیا جا سکے اور آپ کے پند و وعظ نیز آیات الٰہی کو بے قدر و قیمت بنایا جا سکے۔ وہ بڑی ہی گستاخی اور دیدہ دلیری سے کہتا:

لوگو! تم میری طرف آؤ میں تمہیں محمد سے کہیں بہتر قصے اور کہانیاں سناؤں گا۔

اس نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ گستاخی اور بے باکی میں اس سے کہیں آگے بڑھ گیا اور اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا وہ لوگوں سے کہتا:

میں بھی جلدی ہی وہ چیز اتاروں گا جو محمد کا خدا اس پر نازل کیا کرتا ہے۔

اس سلسلے میں قرآن مجید میں چند آیات موجود ہیں بطور نمونہ ہم ایک کا ذکر کر رہے ہیں:

”وقالو اساطیر الاولین اکتبتھا فھی تملی علیہ بکرة واصیلاoقل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض انہ کان غفورا رحیما

”کہتے ہیں: یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں، جنہیں لکھوا لیا ہے جنہیں صبح و شام ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ اسے اس نے نازل کیا ہے جو زمین و آسمان کا راز جانتا ہے اور بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔“

قرآن مجید کے خلاف مشرکین نے دوسرا محاذ یہ تیار کیا کہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا کہ جس وقت رسول خدا قرآن مجید کی تلاوت فرماتے ہیں تو اسے نہ صرف سنا ہی نہ جائے بلکہ ایسا شور و غل بپا کیا جائے کہ دوسرے لوگ بھی اسے سننے سے باز رہیں، چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید کا ارشاد ہے:

وقان الذین کفروا لاتسمعوالھذا القرآن ولغوافیہ لعلکم تغلبون

”اور کافر ایک دوسرے سے یہ کہتے ہیں: اس قرآن پر کان نہ لگاؤ، اور جب پڑھا جائے تو شور و غل بپا کیا کرو، شاید تم کامیاب ہو جاؤ۔“

اگرچہ رسول خدا اور بنی ہاشم میں چند حضرات حضرت ابوطالب کی زیر حمایت کچھ حد تک دشمنوں کی گزند سے بالخصوص جسمانی آزار و ایذا سے محفوظ تھے مگر بے پناہ اور بے یار و مددگار مسلمان ایذا رسانی اور کشنجہ کشی کی انتہائی سخت تکالیف و مشکلات سے گزر رہے تھے۔

رسول اکرم کے لیے یہ بات سخت شاق و ناگوار تھی کہ آپ کے اصحاب و ہمنوا ایسی سخت مشقت میں مبتلا رہیں اور ہر طرح کے مصائب و آلام سے گزرتے رہیں۔ دوسری طرف اس بات کا بھی امکان تھا کہ اگر یہی کیفیت برقرار رہی تو ہو سکتا ہے کہ نو مسلم اپنے عقیدے میں سست ہو جائیں اس کے علاوہ یہی حالت دوسرے لوگوں کو اسلام کی جانب مائل ہونے سے روک بھی سکتی تھی۔ چنانچہ ان حالات کے پیش نظر یہ لازم سمجھا گیا کہ اس دیوار کو بھی گرا دیا جائے تاکہ قریش یہ جان لیں کہ قوت اسلام ان کی حد تصور اور تسلط و اقتدار سے کہیں زیادہ بالا و برتر ہے۔

اس کھٹن اور دباؤ سے نجات حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ وہ ترک وطن کرکے حبشہ چلے جائیں۔ اس ملک کے انتخاب کئے جانے کی چند وجوہ تھیں:

مہاجرین کا وہ پہلا گروہ جو پندرہ افراد پر مشتمل تھا۔ عثمان ابن مظعون کی زیر سرپرستی ماہ رجب میں بعثت کے پانچویں سال اس عیسائی ملک کی جانب روانہ ہوا، اور دو ماہ بعد واپس مکہ آ گیا۔

دوسرے گروہ میں تراسی مرد، اٹھارہ عورتیں اور چند بچے شال تھے۔ یہ گروہ حضرت جعفر ابن ابی طالب کی زیر سرپرستی ہجرت کرکے حبشہ چلا گیا، جس کا وہاں کے فرمان روا نجاشی نے بہت پرتپاک طریقے سے استقبال کیا۔

قریش کو جب اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عمر بن عاص اور عبداللہ ابن ابی ربیعہ کو اپنا نمائندہ بنا کر حبشہ روانہ کیا۔ ان کے ہاتھ نجاشی بادشاہ اور اس کے امراء کے لیے بہت سے عمدہ تحفے بھی بھیجے اور اس سے یہ درخواست کی کہ پناہ گزیں مسلمانوں کو واپس کر دیا جائے۔

قریش کے نمائندوں نے نجاشی بادشاہ اور اس کے امراء کو مسلمانوں کی طرف سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور بہت چاہا کہ مہاجرین مسلمانوں کو واپس کر دیا جائے، مگر انہیں اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی اور وہ نجاشی بادشاہ کو ہم خیال نہ بنا سکے۔

نجاشی بادشاہ نے جب مہاجرین کے نمائندے حضرت جعفر ابن ابی طالب کی دلچسپ اور منطقی باتیں سنیں اور حضرت جعفر نے جب اس کے سامنے آیات کلام اللہ کی قرأت کی تو وہ انہیں سن کر مسلمانوں پر فریفتہ اور ان کے عقائد کا والہ و شیدا ہوگیا، چنانچہ اس نے سرکاری طور پر مسلمانوں کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کر دیا۔ اور قریش کے نمائندوں کو حکم دیا کہ اس کے ملک سے باہر نکل جائیں۔

ملک حبشہ میں مہاجرین انتہائی آرام اور سہولت کی زندگی بسر کرتے رہے، چنانچہ جب رسول خدا ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وہ بھی آہستہ آہستہ وہاں واپس آ کر آن حضرت سے مل گئے۔

اس ہجرت کے فوائد اور برکتیں

ترک وطن کرکے حبشہ کی جانب روانہ ہونے اور اس ملک میں کافی عرصے تک قیام کرنے کے باعث مسلمانوں کو بہت سے فائدے ہوئے اور وہاں انہیں بہت سی برکات حاصل ہوئیں جن میں سے چند کا ہم ذیل میں ذکر کریں گے:

          جو مسلمان ترک وطن کرکے حبشہ چلے گئے تھے انہیں قریش کے مظالم سے نجات مل گئی اور مشرکین مکہ کی شکنجہ کشی و ایذا رسانی سے محفوظ ہوگئے۔

   اسلام کا پیغام اور اعلان رسالت اہل حبشہ بالخصوص حبشہ کے بادشاہ اور اس کے درباریوں تک پہنچ گیا۔

   قریش کی رسوائی ہوئی اور ان کے وہ نمائندے جو نجاشی بادشاہ کے پاس گئے تھے ذلیل و خوار ہو کر وہاں سے نکلے۔

    حبشہ کے لوگوں کے درمیان دین اسلام کی تبلیغ و توسیع کا میدان ہموار ہو گیا۔ عیسائیوں کے ساتھ مسلم مہاجرین کی اسلامی راہ و روش، شرافت مندانہ طرز زندگی اور اسلامی احکام کی سخت پابندی اس امر کا باعث ہوئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حبشہ کے لوگ دین اسلام کے شیدائی ہونے لگے۔ چنانچہ آج اتھوپیا (حبشہ سابق) آری ٹریا، اور صومالیہ میں جو کروڑوں مسلمان آباد ہیں وہ مسلمانوں کی ہجرت کا ہی فیض ہے۔

اقتصادی ناکہ بندی

صرف قبائل اور اندرونی حجاز ہی میں نہیں بلکہ اس کے حدود کے باہر بھی اسلام کی مقبولیت نیز ملک حبشہ میں مہاجرین کی کامیاب پناہ گزینی نے قریش کے سرداروں کو مجبور کیا کہ تحریک اسلام کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھائیں، چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسے معاہدے پر دستخط کرائے جائیں جس کی رو سے ”بنی ہاشم“ اور ”بنی مطلب“ کے ساتھ مکمل تعلقات قطع ہو جائیں اور ان کے ساتھ کاروبار بند کر دیا جائے اور کوئی شخص بھی ان کے ساتھ کسی طرح کا سروکار نہ رکھے۔

قریش نے جو تحریری معاہدہ تیار کیا تھا اس کا مقصد یہ تھا کہ یا تو حضرت ابوطالب مجبور ہو کر رسول کی حمایت و سرپرستی سے دست بردار ہو جائیں (نیز آپ کو قریش کے حوالے کر دیں) یا رسول خدا لوگوں کو دعوت حق دینا ترک کر دیں اور قریش کے تمام شرائط کو مان لیں یہاں تک کہ آپ کے حامی طرفدار گوشہ نشینی و روپوشی کی حالت میں بھوک و پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر جائیں۔

قریش نے اس معاہدے کا نام (صحیفہ) رکھا۔ جس پر چالیس سربرآوردہ اشخاص نے دستخط اور اسے کعبے کی دیوار پر نصب کر دیا گیا۔ تاکید کی گئی تھی کہ تمام لوگ اس کے اندراجات پر حرف بحرف عمل پیرا ہوں۔

حضرت ابوطالب کو جب ”معاہدہ صحیفہ“ کا علم ہوا تو انہوں نے رسول خدا کی شان رسالت کی تائید میں چند اشعار کہے، جن میں انہوں نے تاکید کے ساتھ پیغمبر خدا کی حمایت و پشتیبانی کا ازسر نو اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ’ بنی ہاشم“ اور ”بنی مطلب“ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مکہ کو خیرباد کہہ کر شہر کے باہر اس درے میں جابسیں جو شہر کے باہر واقع ہے۔ یہی درہ بعد میں ”شعب ابوطالب“ کے نام سے مشہور ہوا۔

”ابولہب “کے علاوہ ”بنی ہاشم“ اور ”بنی مطلب“ کے سب ہی افراد بعثت کے ساتویں سال رات کے وقت ”شعب ابوطالب“ میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے چھوٹے چھوٹے گھر اور سائبان بنائے، وہ حرمت کے مہینوں، رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم کے علاوہ تام سال اس درّے میں محصور رہتے تھے۔

شعب ابو طالب میں مسلمانوں پر ایسے سخت دن گزر گئے کہ کبھی کبھی تو انہیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے درخت کے پتوں پر گزارہ کرنا پڑتا تھا۔

ان مہینوں کے درمیان جو حرمت کے مہینوں کے نام سے مشور ہیں اگرچہ قریش ان سے کوئی باز پرس نہ کرتے البتہ دوسرے طریقوں سے انہیں پریشان کیا جاتا۔ انہوں نے مسلمانوں کی قوت خرید کو تباہ کرنے کے لیے چور بازاری کا دھندا شروع کر دیا۔ اور کبھی کبھی تو وہ دوکانداروں کو یہ تنبیہ کرتے کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھ کوئی چیز فروخت نہ کریں۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ان چار مہینوں سے الگ جو کہ حرمت کے مہینے کہلاتے ہیں کبھی کبھی چھپ کر مکہ جاتے اور وہاں سے کھانے کا سامان جمع کرکے شعب ابوطالب میں لاتے تھے۔

حضرت ابوطالب کو رسول خدا کی ہر وقت فکر دامنگیر رہتی تھی کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ کہیں ان کے بھتیجے کی جان پر نہ بن جائے۔ چنانچہ وہ شعب ابوطالب کے بلند مقامات پر پہرہ دار مقرر کرنے کے علاوہ پیغمبر کو اپنے بستر پر سلاتے، اور جب سب سو جاتے تو وہ اپنے فرزند حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا کے بستر پر سونے کے لیے کہتے اور رسول خدا کو یہ ہدایت کرتے کہ آپ کہیں اور سو رہیں۔

محاصرے کا خاتمہ

تین سال تک سخت رنج و تکلیف برداشت کرنے کے بعد بالآخر امداد غیبی مسلمانوں کے شامل حال ہوئی اور جبرئیل امین نے پیغمبر اکرم کو یہ خوشخبری دی کہ خداوند تعالیٰ نے دیمک کو اس عہدنامے پر مسلط کر دیا ہے اور اس نے پوری تحریر کو چاٹ لیا ہے اب صرف اس پر ”باسمک اللھم“ باقی بچا ہے۔

رسول خدا نے اس واقعے کی اطلاع اپنے چچا کو دی۔ یہ سن کر حضرت ابوطالب قریش کے مجمع عام میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ جوصحیفہ تم لوگوں نے لکھا تھا اسے پیش کیا جائے، اسی ضمن میں مزید فرمایا کہ:

”اگر بات وہی ہے جو میرے بھتیجے نے مجھ سے کہی ہے تو تم اپنے جور و ستم سے باز آ جاؤ اور اگر اس کا کہنا غلط اور بے بنیاد ثابت ہوا تو میں خود اسے تمہارے حوالے کروں گا۔“

قریش کو حضرت اوطالب کی تجویز پسند آئی، چنانچہ جب انہوں نے اس صحیفے کی مہر کو توڑا تو آپ کی بات صحیح ثابت ہوئی۔

قریش کے صابح فہم و فراست اور عدل و انصاف کو دوست رکھنے والے افراد نے جب یہ معجزہ دیکھا تو انہوں نے قریش کی اس پست و کمینہ حرکت کی سخت مذمت کی جو انہوں نے پیغمبراکرم اور آپ کے اصحاب کے ساتھ اختیار کر رکھی تھی اور یہ مطالبہ کیا کہ عہد نامہ ”صحیفہ“ کو باطل قرار دیا جائے اور محاصرہ ختم کیا جائے۔

چنانچہ اس طرح رسول خدا اور اصحاب تین سال تک استقامت و پائیداری کے ساتھ سخت مصائب برداشت کرنے کے بعد ماہ رجب کے وسط میں بعثت کے دسویں سال سرخرو کامیاب واپس مکہ آ گئے۔

رسول اکرم کے پاس عیسائیوں کے ایک وفد کی آمد

جو مسلمان ہجرت کرکجے ”حبشہ“ چلے گئے تھے ان کے وہاں رہنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ جب ”حبشہ“ یا ”نجران‘و کے عیسائیوں کو رسول اکرم کی بعثت کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنا وفد مکہ روانہ کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ رسول خدا سے براہ راست گفتگو کرسکیں۔ یہ پہلا وفد تھا جو مکہ کے باہر سے آیا اور رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا۔

نصاریٰ کا یہ وفد بیس افراد پر مشتمل تھا۔ رسول خدا سے ”مسجد الحرام“ میں زیارت و ملاقات سے مشرف ہوا، اور اسی جگہ باہمی گفتگو کا آغاز ہوا، جب مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوا تو رسول خدا نے قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کرکے انہیں سنائی اور دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

عیسائیوں نے جب آیات قرآنی سنی تو ان کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہو گئیں، اور دین اسلام قبول کرنے کا انہوں نے شرف حاصل کرلیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ رسول خدا حضرت محمد کے جو اوصاف ان کتابوں میں بیان کیے گئے تھے وہ انہیں آپ کی ذات مبارک میں نظر آ گئے تھے۔

نمائندگان کا وفد جب رسول خدا کی ملاقات سے مشرف ہو کر واپس جانے لگا تو ابوجہل اور قریش کے گروہ نے ان کا راستہ روک لیا اور کہا کہ تم کیسے نادان ہو تمہاری قوم نے تو تمہیں اس مقصد کے لیے بھیجا تھا کہ وہاں جا کر اصل واقعے کی تحقیق کرو اور ان کا جائزہ لو لیکن تم نے بے خوف و خطر اپنے دین و آئین کو ترک کردیا اور محمد کی دعوت کو قبول کرلیا۔

نصاریٰ کے نمائندگان نے کہا:

کہ ہم تمہارے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے کی غرض سے نہیں آئے تھے، ہمیں ہمارے آئین مسلک پر رہنے دو۔

حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ کی رحلت

جناب رسول خدا اور اصحاب کو شعب ابوطالب سے نجات ملی تو اس بات کی امید تھی کہ مصائب و آلام کے بعد ان کے حالات سازگار ہو جائیں گے اور خوشی کے دن آئیں گے۔ مگر ابھی دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ دو ایسے تلخ اور جانکاہ صدمات سے دوچار ہوئے جن کے باعث رسول خدا اور اصحاب رسول پر گویا غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس رنج واندوہ کا سبب حضرت ابوطالب کی رحلت تھی، اور اس کے تین دن یا ایک ماہ بعد آپ کی ایثار پسند شریک حیات بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں۔

حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ کو ”حجون“ نامی قریش کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔

(الصحیح من السیرة النبی ج۲، ص۱۲۸)

حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ کی رحلت نے رسول خدا کو بہت متاثر اور غمگین کیا، چنانچہ آپ نے اس غم و الم کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا:

”ان چند دنوں میں اس امت پر دو ایسی مصیبتیں نازل ہوئی ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کس نے مجھے زیادہ ماثر کیا ہے۔“ (یعقوبی)

رسول خدا کو اپنے واجب الاحترام چچا اور وفاشعار شریک حیات کی رحلت کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ بہت کم گھر سے باہر تشریف لاتے، چونکہ یہ دونوں عظیم حادثات بعثت کے دسویں سال میں واقع ہوئے تھے، لہٰذا ان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سال کو ”عام الحزن“ یعنی غم و اندوہ کا سال کہا جانے لگا۔

(السیرة الحلبیہ، ج۱، ص ۳۴۷)

حضرت ابوطالب کی مظلومیت

حضرت ابوطالب کو چونکہ اپنے بھتیجے کے اوصاف حمیدہ کا علم تھا اور اس امر سے بھی واقف تھے کہ آپ کو رسالت تفویض کی گئی ہے، اس لیے وہ نہایت خاموشی سے آپ پر ایمان لے آئے تھے۔ وہ رسول خدا کی بیالیس سال سے زیادہ عرصے تک حفاظت و نگرانی کرتے رہے یعنی اس وقت سے جب کہ رسول خدا کا سن مبارک آٹھ سال تھا، اور اس وقت تک جب آپ پچاس سال کے ہوگئے تھے۔

 

اور چونکہ حفاظت و حمایت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے لہٰذا آپ کے پروانہ وار والہ و شیفتہ تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے رسول خدا کے آسمانی آئین کی ترویج کی خاطر کبھی جان و مال سے دریغ نہیں کیا، یہاں تک کہ اسی(۸۰) سال کی عمر میں اس وقت انتقال کیا جبکہ آپ کا قلب خدا اور رسول پر ایمان سے منور تھا۔

جیسے ہی حضرت ابوطالب نے رحلت فرمائی، دشمنوں کے آستینوں میں پوشیدہ ہات بھی باہر نکل آئے اور وہ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ صدر اسلام کے اس مرد مجاہد و سخت کوش انسان کی موت بحالت کفر واقع ہوئی ہے تاکہ لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ رسول کی حفاظت و حمایت ان کا قومی جذبہ تھا۔ جس نے انہیں اس ایثار و قربانی پر مجبور کیا تھا۔

 

حضرت ابوطالب کے ایمان لانے پر شک و شبہ پیدا کرنے میں جو محرک کارفرما تھا اس کی مذہبی عقیدے سے زیادہ سیاسی اہمیت تھی۔ بنی امیہ کی سیاسی حکمت عملی کی اساس چونکہ خاندان رسالت کے ساتھ دشمنی و کینہ توزی پر قائم تھی اس لیے انہوں نے بعض جعلی روایات پیغمبر اکرم سے منسوب کرکے حضرت ابوطالب کو کافر مشہور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ابوطالب کو کافر ثابت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کے فرزند عزیز حضرت علی علیہ السلام عظمت و فضیلت کے اعتبار سے دوسروں پر فوقیت و برتری حاصل نہیں ہے۔ اگر حضرت ابوطالب حضرت علی علیہ السلام کے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات کا اتنا زیادہ چرچا نہ کرتے اور نہ ہی اس قدر نمایاں طور پر اتنا جوش و خروش دیکھاتے۔

 

کوئی بھی ایسا انصاف پسند شخص جسے تاریخ اسلام کے بارے میں معمولی سی بھی واقفیت ہوگی اور پیغمبر اکرم کے اس عظیم حامی اور مددگار کی جدوجہد سے لبریز زندگی کے بارے میں علم رکھتا ہو گا وہ اپنے دل میں حضرت ابوطالب کے بارے میں ذرا بھی شک و شبہ کو راہ نہ دے گا۔ اس کی دو وجہ ہیں:

اوّل: یہ کہ اگر کوئی شخص قومی تعصب کی بنا پر کسی دوسرے شخص یا قبیلے کی حمایت و پشتیبانی کرے تو یہ ممکن ہے کہ اسے ذرا سی دیر میں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے لیکن یہ اس امر کا باعث نہیں ہوسکتا کہ وہ شخص چالیس سال تک، نہ صرف حمایت و پشت پناہی کرے، بلکہ اس شخص کا پروانہ وار شیفتہ بھی ہو۔

دوسرے: یہ کہ حضرت ابوطالب کے اقوال و اشعار، اخبار پیغمبر اور امامت آئمہ معصومین علیہم السلام اس وہم و گمان کی تردید کرتے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا کی حمایت کا اصل محرک ان کا وہ راسخ عقیدہ اور محکم ایمان تھا جو انہیں رسول کی ذات بابرکات پر تھا۔

چنانچہ امام زین العابدین (علیہ السلام) کی مجلس میں حضرت ابوطالب کا ذکر آ گیا تو آپ  نے فرمایا:

مجھے حیرت ہے کہ لوگوں کو حضرت ابوطالب کے ایمان میں شک و تردد ہے۔ کوئی ایسی عورت جس نے دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرلیا وہ اپنے کافر شوہر کے عقد میں نہیں رہ سکتی ہے جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد ان اوّلین خواتین میں سے تھیں جو دین اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئیں، چنانچہ جب تک حضرت ابوطالب زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے۔

حضرت محمد امام باقر علیہ السلام سے حضرت ابوطالب کے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

اگر حضرت ابوطالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلے میں رکھا جائے اور دوسرے پلے میں دیگر لوگوں کے ایمان کو رکھ کر تولا جائے تو یقینا حضرت ابوطالب کے ایمان کا پلہ بھاری رہے گا۔ کیا آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام  نے بعض لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابوطالب کی جانب سے فریضہ حج ادا کریں۔

 (شرح نہج البلاغہ ابن ای الحدید، ج۱۴، ص ۶۸)

حضرت امام صادق علیہ السلام نے رسول خدا کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حضرت ابوطالب کا ایمان اصحاب کہف کے ایمان کی طرح تھا، اگرچہ وہ لوگ دل سے ایمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ان کے اس عمل کا خداوند تعالیٰ انہیں دوگنا اجر دے گا۔

حضرت ابوطالب نے دین اسلام کی ترویج و تبلیغ کے لیے جو خدمات انجام دیں ان کے بارے میں ابن ابی الحدید لکھتا ہے:

کسی شخص نے حضرت ابوطالب کے ایمان سے متعلق کتاب لکھی اور مجھ سے کہا کہ اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں اور اس پر اپنے ہاتھ سے کچھ لکھوں۔

میں نے کچھ اشعار اس کتاب کی پشت پر لکھ دیئے جن کا مضون یہ تھا:

لولاابو طالب و ابنہ لما مثل الذین شخصا فقاما فذاک بمکة آوی و حامی و ہذا بیثرب جس الحماما

(ابن ابی الحدید ص ۸۳، ۸۴)

”اگر ابوطالب اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے دین اسلام ہرگز قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ باپ نے مکے میں پیغمبر کی حمایت کی اور بیٹا یثرب میں موت کی حد تک آگے بڑھ گیا۔“

                             اسلام ان اردو ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

 تاریخ اسلام