• صارفین کی تعداد :
  • 2873
  • 11/4/2008
  • تاريخ :

روشنی

روشنی

وہ یوں جلد بازی میں چل دیا
کہ میں ہاتھ تک نہ ہلا سکا
وہ جدا بھی کیسے ہوا کہ میں
کوئی رسم بھی نہ نبھا سکا

 

’’ دِل میں اِک دِیا بھی جلتا رہے تو مسافر بھٹکنے نہیں پاتے۔‘‘

اینا گریٹا میں کیا تھا ؟ یہ کہنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ ساری لڑکیوں کو چھوڑ کر میں صرف اسی پر کیوں مرتا تھا ۔۔۔ یہ سمجھنا بھی ناممکن تھا ۔ دن رات چکور کی طرح اُسی کی طرف کیوں پھیریاں کھاتا رہتا تھا ۔ اس کا جواز بھی مشکل ۔۔۔ کیوں جواب نہ بن پڑتا ۔

جو کچھ بھی تھا ، نہ میں سمجھ پاتا اور نہ کسی اور کو بتا پاتا کہ ایسا کیا ہے اس میں کہ اسے میں زندگی کا مرکز بنا بیٹھا ہوں ۔

’’ یونیورسٹی کے ہر فنکشن میں یہی تمہارے پاس کیوں کھڑی ہوتی ہے شکیل؟‘‘

امی کی کھوجتی آنکھیں کبھی تصویراور کبھی مجھ پر ٹک جاتیں اور شک میں ڈوبی ہوئی آواز دونوں میرا پیچھا کرتیں مگر ہر بار مجھے سب کچھ کہہ دینے سے روک دیتیں۔

’’ ارے بھئی‘ یہ ولایت ہے ‘ پاکستان نہیں ہے۔ ‘‘ ابا جی چونکا دیتے۔ ’’ لڑکا ہے اور پھر امریکن ہے‘ یہ اینا گریٹا اس کی یونیورسٹی فیلو ہے۔ ‘‘

ابا جی امریکا میں رہنے کے باوجود ’’ ڈیڈ ‘‘ نہ ہو سکے تھے۔ ہمیشہ ہی میرے ساتھ رہتے۔ میرا ہی ساتھ دیتے تھے۔

’’ یہ اینا گریٹا تو نہ ہوتی کم از کم۔ ‘‘ امی جی غصے میں ہم دونوں کو گھورتیں۔

’’ چلو اگر کوئی سلمٰہ، سمیرا ہوتی تو تب بھی تم یہی کہتیں۔ بھئی دوستی بھی کبھی مذکر مونث کی حدود اور درجہ بندی رکھتی ہے کیا؟ یہ تو اعتبار ہے ، کسی پر بھی ہو جائے، اور ہمارا بیٹا تو ہمارا دوست ہے، ہے کہ نہیں؟‘‘

ابا جی ایک ہاتھ میرے کندھے پر اور ایک امی جی کے کندھے پر رکھ کر بیچ میں ایک ستون سا بن جاتے۔ پھر کہنے کے لئے سارے لفظ ڈر جاتے اور سہم کر میرے دل میں چھپ جاتے اورامی جی شاید  سارے واہموں کی پٹاریاں بند کر دیتی ہوں گی۔ مگر میں شاید بے ایمان بھی تھا۔ جب ہی تو نظریں چرا جاتا، ہر حقیقت سے۔

 

اینا گریٹا فرسٹ اےئر ہی سے میری کلاس فیلو تھی۔ وہ اسپین سے پڑھنے آئی تھی۔ یونیورسٹی Accomodation میں رہتی تھی۔ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی لیکن اس نے کبھی اکیلے پن کو روگ کی طرح گلے نہ لگایا تھا۔ ہنس مکھ ، مست ملنگ سی اینا گریٹا میرے ساتھ ہی جرنلزم میں ماسٹرز کر رہی تھی۔

شوق ایک !

کلاس ایک !

کتابیں ایک !

تو پھر ساری گھڑیاں بھی اکٹھی ہو گئیں۔ ہر وقت ایک ہی سا وقت رہنے لگا۔

گو کہ میں پیدا پاکستان میں ہوا تھا مگر پلا بڑھا امریکا میں تھا۔ مگر پھر بھی پنجابی ، اُردو بول سکتا تھا اور تھوڑی تھوڑی پڑھ بھی سکتا تھا۔ یہ سب امی جی نے ہی مجھے سکھایا تھا۔ بقول ان کے مذہب پیدا ہوتے ہی کانوں میں پھونک دِیا جاتا ہے اور ساری عمر کے ساتھ پلتا بڑھتا رہتا ہے مگر مذہب کی آبیاری کے لئے، اسے نکھارنے کے لئے ، کلچر اور تہذیب کے پودے بھی لگانے پڑتے ہیں۔ اپنا کلچر ، اپنی تہذیب اُگانی پڑتی ہے۔ اس کی دیکھ ریکھ کرنی پڑتی ہے۔ تاکہ فصل اچھی ہو۔ ورنہ جو بویا ہے وہی کاٹو گے !! ان کا یہ فلسفہ کسی کے بھی پَلے نہ پڑتا تھا۔ سوائے ابا جی کے۔ شاید اس لیے کہ وہ آپس میں بہت اچھے اور بہت گہرے دوست بھی تھے۔

ہم لوگ ہر تیسرے سال پاکستان جاتے۔ پھر اپنے گاؤں بھی جاتے۔ جہاں بی بی جی ہزاروں دعاؤں سے استقبال کرتیں اور ہم بہت ساری یادیں لیے واپس آ جاتے۔ شروع شروع میں بہت بوریت ہوتی تھی۔ زندگی رُکی رُکی سی لگتی۔

کبھی کبھی مہک بھی ابکائی لے آتی اور واش روم کی اجنبیت ناقابلِ بیان ہوتی۔ پھر ابا جی مجھے اور ارم ، جو سارے ددھیال میں اکلوتی اور میری چھوٹی بہن تھی ، گود میں لے کر سمجھاتے۔

’’ دیکھو بیٹے‘ بہت ساری باتیں ایک دم کوئی نہیں بدل سکتا۔ ‘‘ بہت ساری تبدیلیوں کے لئے بہت سارا وقت بھی چاہیے ہوتا ہے۔

’’ کیوں ابا جی؟ ‘‘ ارم زیادہ ہی خفا تھی۔

’’ اس لیے کہ وہ ہماری نہیں ہوتیں ! یہ باتیں، یہ چیزیں اوروں کی ہوتی ہیں انہیں پیاری جو ہوتی ہیں ! اب یہی سوچو دادی جی یعنی بی بی جی اگر امریکا رہنے کے لئے آئیں تو انہیں کیسا لگے گا۔

یہی بوریت، بھاگتی دوڑتی زندگی، اجنبی زبان ۔ انگریزی کلچر اور واش روم تو شاید انہیں استعمال ہی نہ کرنا آئے تو کیا ہم ان کے تین مہینے آرام کی خاطر سب کچھ بدل سکتے ہیں؟ ‘‘

میرا اور ارم کا سر بے ساختہ ’’ نہیں ‘‘ میں ہل جاتا۔ ابا جی کی وہ مسکراہٹ اب بھی میرے ذہن کے کسی کونے میں چپکی ہوئی ہے۔ جیت اور فتح کی چمک بھری مسکراہٹ۔ اپنے بچوں پر فخرکی چمک! کیا کچھ نہ تھا ان کے چہرے پر۔ انہوں نے ہم دونوں کو گود میں بھر لیا تھا۔

 

’’ تو پھر وہ کیوں بدلیں ہماری خاطر۔۔۔ ہمارے صرف دو مہینوں کی خاطر۔۔۔‘‘

’’ لیکن بی بی جی نے ہمارے لئے نیا واش روم بنوا دِیا ہے۔ ‘‘ اِرم کی آنکھیں حیرت سے پھیل رہی تھیں۔

اس لیے کہ وہ سب سے زیادہ گریٹ ہیں۔ ان کے دِل میں آسمان جتنی بلندی ہے اور زمینوں پھیلی وسعت ہے اور اس میں بھرا صرف پیار ہی ہے۔ جو صرف نچھاور ہونا جانتا ہے۔ بے لوث سا پیار۔۔۔ ہر وقت ناقدروں اور نا شکروں کو ہی ملتا ہے۔ ‘‘

وہ ہمیں چھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔

’’ لیکن میں اپنی بی بی جی کو تھینکس بولوں گا۔ ‘‘ مجھے تو اس وقت بس یہی سمجھ آیا تھا۔

’’ گڈ۔۔۔ ویری گڈ! ‘‘ انہوں نے مجھے اور ارم کو پھر گلے لگا لیا اور پھر میرے ابا جی نے مجھے سکھایا کہ ہمیں کوئی بھی چیز For Granted( اپنا حصہ سمجھ کر ) نہیں لینی چاہیے۔ شکریہ ضرور کہنا چاہیے۔ ہر بار ۔۔۔ چاہے جتنی بار کہنا پڑ جائے۔

یوں ہم سب گاؤں جانے کا انتظار کرنے لگے۔ بقول امی جی کے ، ارم تو نئے کپڑوں کے چکر میں گاؤں جاتی ہے اور تم صرف بی بی جی کے Spoil Kid کے طور پر جاتے ہو۔ جو کچھ بھی تھا، یہ سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ ایک ضرورت سا بن گیا تھا۔ ہمارے گھر کے بھی بڑے عجیب سے قانون تھے۔ امی ابا جی کی طرف سے ہدایت تھی کہ گھر میں زیادہ سے زیادہ اُردو یا پنجابی بولی جائے تاکہ یاد رہے ورنہ رابطے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اپنے لوگوں سے۔ اگر یہ ناتے ٹوٹ جائیں تو نسلیں ولایتی ہو جاتی ہیں۔ پھر مذہب صرف کاغذوں میں لکھا رہ جائے گا اور کلچر بھی نہ رہے گا۔ پہچان ختم ہو جائے گی۔نہ مسلمان نہ پاکستان! سب اِدھر اُدھر۔۔۔!

 

کپڑے ہم انگریزی پہن سکتے تھے مگر مکمل اور مناسب انداز میں۔ اِرم گھر میں شلوار قمیص اور دوپٹہ اوڑھتی۔ کالج میں پینٹ شرٹ پر بڑا سا مفلر لیتی جو اس پر بہت سوٹ کرتا تھا۔

امی جی ہمیشہ کہتیں۔ ’’ ملکوں کے بدل جانے سے ذمے داریاں تھوڑی سی بدل جاتی ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمیں عزت سے جینا ہے اور جو حدیں مقرر ہیں، اُن سے باہر نہیں ہو سکتے۔ یہی حرام‘ شراب‘ بے حیائی نے ۔۔۔ دیکھو کن حالوں پہنچا دِیا ہے! توبہ استغفار۔۔۔ اللہ نے شاید لوگوں کو اس لئے دُنیا میں پھیلا رکھا ہے جانے کب کس سے ہدایت پا جائے۔۔۔ پر بیٹا کچھ تو ایسا کرو کہ اُنہیں تم بھی کچھ سِکھا سکو۔‘‘

امی جی کی آواز اب قدرے تیز ہو چکی تھی۔ اب انہیں کون چپ کرائے گا۔

’’ ماں جی کیوں اتنا بولتی ہو آپ۔‘‘ میں ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ ’’ چپ ہو جائیے ‘ جس کو سنا رہی تھیں وہ جانے کب سے اپنے کمرے میں جا چکی ہے۔‘‘

’’ تم تو سُن رہے ہو نا! بتا دینا لاڈلی کو‘ زمین بدلی ہے خود تو نہیں بدلے۔ ‘‘

وہ واقعتا خفا تھیں اِرم سے ۔ بس اِتنی سی بات تھی کہ وہ دیر تک اپنی کسی سہیلی کے گھر رک کر پڑھنا چاہتی تھی۔ امی جی کے انکار کرنے کے بعد انہیں  Too much over protectiveہونے کا تعنہ مل گیا تھا۔ بس پھر وہ بپھر گئی تھیں۔

’’ اپنے گھر جانا پھر کرنا سب کچھ۔ مسلمان لڑکیاں اپنی حیا اور سادگی کے ساتھ رہتی ہیں۔ تم سب نے پڑھائی کے بہانے صرف کھی کھی کرنی ہے یا پھر فیشن کی باتیں۔ وہ بھی یہاں ‘ جہاں رشتوں کا لحاظ نہ بڑے چھوٹے کی تمیز نہ عزت۔۔۔ ‘‘

 

’’ ارے امی‘ جانے دیجئے ‘ دیکھئے اس نے پوچھا تو! ‘‘ میں نے ارم کی طرفداری کی۔

’’ اِسی بات کا تو غم ہے کہ پوچھا کیوں۔ اس نے وہیں کہہ دینا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ ابھی تک اسے کیا یہی تربیت ملی ہے؟ ‘‘

’’ چلیے میں سمجھا دوں گا مگر آپ تو ریلیکس ہو جائیں۔‘‘

میں انجانے میں ابا جی ہی کی کاپی کرتا تھا۔ صلح صفائی‘ بیچ کی راہ‘ اعتدال پسندی‘اپنی ماں سے بے حد پیار اور ان کی سب سے زیادہ عزت ۔

امی جی اپنے کمرے میں جا چکی تھیں ۔ میں نے انہیں ایسے دیکھا جیسے ابا جی بی بی جی کو دیکھا کرتے تھے۔ جیسے اب کبھی نہ دیکھیں گے۔ وہ کتنے پیار سے ہر مہینے بی بی جی کو ہزاروں روپے بھیجتے تھے۔ جنہیں وہ دعاؤں کے ساتھ رکھ لیتی تھیں اور ہر بار کہتیں۔

’’ زمینوں کا ہزاروں آ جاتا ہے پُتر۔۔۔ کیوں تکلیف کرتے ہو۔‘‘

ابا جی ہمیشہ کہتے۔

’’ میرے پاس جو کچھ ہے، سب آپ کا ہے۔ میں تو برکت کے لئے بھیجتا ہوں۔ پھر ہر بیٹے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ماں باپ سے پیار کرے۔ ان کی خدمت کرے۔ مجھے اس خدمت سے مت روکیے۔ ویسے بھی میں اِتنا دور ہوں۔‘‘ ان کی آواز بھرا جاتی۔

 

دِل سے دور نہ ہونا بیٹے، یہ سارے فاصلے تو رب دے فیصلے ہیں۔ اس کو یہی منظور تھا۔ رزق کے سلسلے میں تو دِل نہ میلا کیا کر۔ سب یہاں میرا خیال رکھتے ہیں ۔تو بھی سب کا خیال رکھا کر۔‘‘

’’ آپ خوش ہیں ناں مجھ سے؟‘‘ وہ ہر بار بے قراری سے پوچھا کرتے۔

’’ ماں واری بیٹے ۔۔۔ بہت زیادہ۔‘‘

پھر بی بی کی ہنسی اسپیکر پر مہک بن کر لپٹ جاتی۔ ابا جی کی آنکھیں جھلملا جاتیں اور امی جی پیار سے ۔ ’’ چائے پیتے ہیں ۔ ‘‘ کہتی ہوئی اُٹھ جاتیں۔

یہ سب کچھ ہر ہفتے ہوا کرتا تھا۔

 

امی ابا جی اپنے اپنے گھروں میں فون کا اسپیکر آن کرکے ہی بات کیا کرتے تھے۔مجھے اور ارم کو بھی بٹھا لیا کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ اپنوں سے رابطہ ضرور رہنا چاہیے۔ چاہے پل بھر کا ہی کیوں نہ ہو اور دیر بعد ہی کیوں نہ رکھا جائے۔

جب ہم سب مل کر ایک ہی جگہ رہتے ہیں تو مذہب تہذیب خود بخود انسانوں کی تعمیر کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب ہم دور رہتے ہیں تو یہی رابطے ہماری تعمیر کرتے ہیں۔ انہیں اس کا احساس اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ سب مل کر رہ رہے ہیں اور ہم تھوڑے سے لوگ یہاں رہ کر ان جیسا ہونے کی محنت مسلسل میں مبتلا۔۔۔

’’ بیٹے رشتوں اور رابطوں کو نبھانا ہی تو اصل تربیت ہے۔ ‘‘

اور پھر واقعی ہمیں یونہی لگتا جیسے ہم امریکا بیٹھ کر پاکستان میں رہتے ہیں۔

ماں باپ کی عزت۔۔۔

سمجھداری کے لیکچر۔۔۔

نماز‘ قرآن کی باتیں۔۔۔

عید‘ شب برات کا اہتمام۔۔۔

پاکستان کی محبت۔۔۔

کلچر‘ تہذیب‘ فیشن‘ فلم‘ سیاست‘ کیسی باتیں تھیں جو ختم ہی نہ ہوتی تھیں۔ جو کوئی بھی ہم سے ملنے آتا۔ وہ جلدی جاتا ہی نہ تھا۔ امی ابا جی کی باتیں۔ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی باتیں۔ سیدھا سادہ رہن سہن۔ مقابلے بازی پر ہنسنے والے میرے ابا جی۔ سب کو اتنے مختلف اور اچھے لگتے کہ کوئی بات کہنے میں انہیں ڈر نہ لگتا تھا۔ میرے ابا جی ہمیشہ کہا کرتے۔

 

’’ میں نے اپنے دین اور کلچر کو امریکا میں آ کر جانا ہے اور دِل میں بسایا ہے۔ وہاں تو میں نا شکرا تھا۔ اپنے رب کا بھی اور انسان کا بھی۔ خدا جانے لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ پردیس انسان کو گم کر دیتا ہے۔ میں تو دیے کی طرح روشن ہو گیا ہوں۔ پور پور اپنے رب کو ماننے لگا ہوں اور اس کی رضا پر راضی رہنے کی دعائیں کرنے لگا ہوں۔ ‘‘ ان کی آنکھوں میں نمی سی تیر جاتی۔

نماز کا ہمیشہ اہتمام کرتے اور ہمیں بھی کہتے۔

’’ میں نہیں کہتا کہ پانچ نمازیں پڑھا کرو حالانکہ فرض ہیں اور نہ پڑھنے والوں کو سخت سرزنش ہے۔ لیکن یار ’’ ایک ‘‘ پڑھنے سے تو سٹارٹ کرو۔

میری بی بی جی کہتی ہیں۔ ’’ جو شخص ایک نماز بھی روز پڑھتا ہے وہ ایک روز پانچ بھی پڑھے گا۔ اللہ کی توفیق ہو گی اُسے۔‘‘

 

ان کے انتہا پسند دوست ان کی اس چھوٹ دینے پر خفا ہو جاتے تو وہ ہنس کر کہتے۔

’’ یار ‘ رحم کرو ان بچوں پر ‘ بھول گئے اپنا وقت۔ مسجد کے سامنے سے گزر جاتے تھے اور کبھی نماز نہ پڑھی تھی۔ لگا تار تین جمعے ادا کرنے بھی مشکل لگتے تھے۔‘‘

’’ یارو‘ اپنے بچوں میں دین سے پیار پیدا کرو‘ آسانیوں سے نہ کہ سختیوں سے۔ سختی سے سیکھا ہوا علم نہ پائیدار ہوتا ہے اور نہ ہی لگاتار۔ ‘‘

اُنہوں نے مذہب کو اتنا آسان اور پیارا بنا کر ہمیں سکھا یا تھا کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ کب وہ اتنا مضبوط تناور درخت بن گیا۔

ارم ہر ہفتے ہم سب کے لئے ناشتا بناتی۔ سب سے پہلے اُٹھ جاتی۔ ابا جی ضرور ہی اس کی حمایت میں امی جی سے کہتے۔

 

’’ سونے دِیا کرو۔ سارا ہفتہ کم ہے صبح اُٹھنے کے لئے۔ ‘‘

امی جی کہتیں ۔ ’’ ویک اینڈ پر سب کا آرام کرنے کو دِل کرتا ہے۔ لیکن اچھی لڑکیاں دوسروں کے آرام کا خیال سب سے زیادہ رکھتی ہیں اور ذمے دار لڑکیاں ہر روز جلدی اُٹھتی ہیں۔‘‘

ان کا منطقی ہونا کبھی کبھی ارم کو گھبرا ڈالتا۔ لیکن وہ بھی چپکے چپکے امی جی اور بی بی جی کا مکسچر بن گئی تھی۔

 

ہمارے گھر میں سارے کلچر آباد رہتے تھے لیکن ان سب پر حاوی پاکستانی کلچر تھا جو ہم پر ماں باپ نے تھوپا نہیں تھا۔ محبت سے پروان چڑھایا تھا ۔ وہ کہتے تھے۔

’’ ہر ملک کے بنیادی کلچر میں ان کے مذہب کی بنیادیں ہوتی ہیں ، انسان غرض کی خاطر اپنا مذہب بدل لیں یا تہذیب و تمدن بدل لیں ، اپنی بنیادیں نہیں بدل سکتے۔ یہ مضبوط بنیادیں اچھے ماں باپ رکھتے ہیں ۔ تم جہاں بھی جا کر رہو‘ جس کے ساتھ چاہے رہو۔ تم اندر سے پاکستانی ہو اور پاکستان کا بنیادی مذہب اور کلچر مسلم ہے۔ اس کی کمی تم ہر جگہ پاؤ گے۔ اگر تم نے اپنے بچوں اور گھروں کی بنیادیں مضبوط نہ رکھیں تو تمہیں اندر ہی اندر روگ لگ جائے گا۔ ‘‘

عید‘ شب برات کے دن میں ڈھونڈو گے! ریڈیو پر ، دیوانہ وار اُردو کے اسٹیشن لگاؤ گے! اور اندر ہی اندر کہیں کسی کونے میں تمہارا دل کرے گا کہ تمہاری بیوی ، تمہاری فیملی ایک ساتھ بیٹھ کر اپنی زبان میں چاہے اچھی ہوں یا بری ۔۔۔ ہر بات شےئر کیا کریں! باتیں کیا کریں۔ اور تم بچپن کی شرارتوں کے قصے سناؤ!

بی بی جی کے صحن میں لگے امرود اور بیری کے پیڑوں پر لٹکنے پر ناراضگیوں کی کہانی سناؤ۔ ۔۔ اپنے ابا جی کی باتیں کرو۔

 

نماز و حدیث کی تلقین کرو۔ بھولنے پر پھر نئے سرے سے یاد کراؤ! یہ سب کیا ہے بیٹے؟ یہ سب ایک بندھن ہے۔ ناتا ہے اپنے وطن سے۔ جو ایک حوالے کی طرح ساری عمر ہر ایک کے ساتھ رہتا ہے۔ ہر جگہ‘ ہر پل ایک رشتہ ۔۔۔ایک گہرا پیار بن کر جتنا مرضی بھاگ کر دیکھ لو‘ سکون اپنے ہی گھر میں ملتا ہے۔‘‘

یہی بات اینا گریٹا نے بھی کہی تھی۔

’’ امریکا میں سالوں سے رہ رہی ہوں لیکن جو مزا اسپین میں ہے وہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہاں کی بات ہی اور ہے۔ سڑکیں ، سینما، چرچ، آنٹی کا گھر اور پھر ہمارا گھر ، میرا اسکول، میری فرینڈز، شاپنگ سینٹرز۔۔۔ ‘‘

پھر وہ گھنٹوں باتیں کرتی رہتی۔

 

I don"t know why sometime, i miss my homeland too much...

اور میں کہ دیتا۔ ""Sometime we all miss ours own homeland"

’’ اپنے وطن سے رشتہ بہت علیحدہ سا ہوتا ہے ۔ اتنا مضبوط اور گہرا کہ ہمیں خود بھی پتا نہیں لگتا! اور اس کا ادراک اس دن ہوتا ہے جب وہاں دنگے فساد ہو جائیں یا پھر کوئی اسے برا کہہ دے۔ ‘‘

’’ ہاں۔۔۔!! لیکن ایسی باتیں نہ تو کوئی سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ ‘‘

اینا گریٹا کی ایسی ہی عجیب باتیں جو مجھ سے ملتی جلتی تھیں ، مجھے اس کے ارد گرد رکھتی تھیں۔ شاید ابھی تک اس کے گرد چکر پھیریاں کھانے کا یہی جواز تلاش کر پایا تھا لیکن جو کچھ بھی تھا اور جو ہو رہا تھا وہ میں کسی سے شیئر نہ کر سکتا تھا ۔ نہ ارم سے حالانکہ وہ مجھ سے صرف دو سال ہی چھوٹی تھی۔ مگر وہ حقیقتاً گھر میں چھوٹی ہی تھی یا پھر میں ہی رسک نہ لینا چاہتا تھا۔ امی ، ابا جی سے بھی نہیں ، انہیں کیا بتاتا کہ میں ایک غیر مسلم ، غیر زبان اور غیر ملک کی حسین ترین اینا گریٹا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ انہوں نے تحمل سے سننا تھا اور آخر میں ضرور پوچھتے،

 

’’ شکیل‘ تم اپنی نسل کو کون سی تربیت دینا پسند کرو گے۔۔۔ مسلم یا غیر مسلم۔ ‘‘

"Of course, Muslim!"

میں بڑے یقین سے یہی کہتا پھر ابا جی مجھ سے ضرور پوچھتے کہ ’’ کیا اینا گریٹا سے پوچھا ہے؟ ‘‘

اس سے پہلے کہ میں کچھ اور سوچتا اور سوال جواب کے تانے بانے بنتا ، میں نے اینا گریٹا سے خود ہی پوچھ لیا۔

’’ بھئی شکیل، میرے لئے تو مذہب صرف سنڈے چرچ تک ہی ہے۔ چلو تمہاری خاطر مسجد سے بدل لیں گے۔ ‘‘

لیکن مجھے شاید یہ سب سے پہلی بات اینا گریٹا کی بالکل اچھی نہیں لگی۔ اس کی غیر سنجیدگی یا پھر مذہب سے نا واقفیت کچھ بھی اچھا نہ لگ رہا تھا۔ اگر یہی سوال وہ مجھ سے کرتی تو میرا جواب بلا سوچے سمجھے شدید انکار میں ہوتا۔ مجھے یاد آ رہا تھا۔ جب امی جی مجھے اور ارم کو کلمے سکھا رہی تھیں تو سب سے زیادہ ارم ہی شورمچا رہی تھی۔ ‘‘

’’ کیا ضروری ہے کہ کلمے بھی سیکھے جائیں۔ مسلمان ہونا کافی نہیں ہے؟ ‘‘

تب امی نے گرج کر ناراضگی کا اظہار کیا تھا پھر ذرا سی نرمی آواز میں پیدا کی ۔ جیسے غصہ اندر ہی اندر پی رہی ہوں۔

’’ دیکھو‘ اگر تم یہ سب نہیں سیکھو گے تو اپنے بچوں کو کیا سکھاؤ گے؟ ‘‘

’’ میں تو سب کو آپ کے پاس بھیج دوں گی۔ ‘‘ ارم کے پاس اس مسئلے کا یہی حل تھا۔

امی نے محبت سے اسے گلے لگا لیا تھا اور اتنی ہی محبت سے گویا ہوئیں۔

’’ سارے مسئلوں کا حل ہے اس دنیا میں۔ لیکن ایک مسئلے کا حل نہیں ہے کہ اچھے ماں باپ کیسے تیار کیے جائیں جو باتیں ایک اچھے ماں باپ چلتے پھرتے ، باتوں سے ، عمل سے اپنے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں وہ کوئی اسکول ، کالج ہزاروں کتابیں اور ہزاروں استاد بھی نہیں کر سکتے۔ اسلام ٹی وی اور ریڈیو سے نہیں پھیلا، انسانوں سے پھیلا ہے۔ اچھے انسانوں سے۔

پیغمبروں سے۔۔۔

ولیوں سے۔۔۔

اسلام اور ہماری اسلامی تہذیب کسی میڈیا کی محتاج نہیں ہے، یہ اچھے انسانوں سے لے کر اچھے ماں باپ کی محتاج ہے۔ یہ سب صدقۂ جاریہ ہے۔

 

وہ پیار سے اسے روشن کر رہی تھی۔ اچھے انسان سے لے کر اچھے ماں باپ بننے کی تربیت کر رہی تھی۔ جس کی بنیاد مذہب اور کلچر میں رکھی ہوئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر اُدھورے تھے۔

ابا جی کتنے جذب سے کہا کرتے تھے۔

’’ کلمہ ہے تو مسلمان ہے۔ بڑے ہی کم لوگوں کو ہدایت ملتی ہے اس کلمے کی، جس کو بھی توفیق ہوئی ۔۔۔ ولی ہوگئے۔‘‘

ابا جی کے پاس ہزاروں غیر مسلموں کے مسلمان ہونے کی اطلاع تھی۔’’ نصیب والے ہیں جو ہدایت پا گئے بغیر کسی لالچ کے ‘‘ صرف اللہ کی خاطر‘ کلمہ پڑھنا بڑے نصیب کی بات ہے۔ ہم صدیوں سے ناشکرے ‘ مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے۔ بغیر کسی لالچ کے اس کا کلمہ بھی نہ پڑھ سکے‘ ناشکرے ‘ بد نصیب ہم لوگ‘ اللہ فضل کرے ہم پر۔۔۔

اور اس اینا گریٹا نے بغیر سوچے سمجھے‘ بغیر جانے کہ مذہب اسلام کیا ہے‘ کہہ دِیا کہ چرچ نہ سہی ‘ مسجد ہی سہی۔ صرف مجھ سے شادی کی خاطر! صرف اپنی خوشیوں کا لالچ۔۔۔ تم! اینا گریٹا تم! میں ابھی تک حیران تھا۔

’’ ارے یار‘ تمہیں تو نہیں کہا کہ مذہب بدل لو۔‘‘ اینا گریٹا نے مجھے چونکا دِیا۔

 

’’ میں چرچ کا احترام ضرور کرتا ہوں لیکن اپنی مسجد سے بدل نہیں سکتا۔‘‘ میری آواز میں نہ چاہتے ہوئے بھی سختی سی آ گئی تھی۔ شاید میرے ماں باپ کی تربیت کی یہ پہلی جیت تھی۔

’’ تمہیں کون کہہ رہا ہے۔ میں بدل رہی ہوںناں۔‘‘ اینا گریٹا نے یقین دِلایا۔

’’ تمہیں معلوم ہے مذہب اِسلام کیا ہے؟‘‘ میں نے اُ س کی طرف دیکھا۔

’’ ضرورت کیا ہے جاننے کی‘ بس یہ بتاؤ کہ کرنا کیا ہے Change کرنے کے لئے؟ مسجد جانا ہے یا یہیں اس یونیورسٹی کمپاؤنڈ میں مسلمان ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ اس نے لاپروائی سے کندھے اُچکائے۔

’’ ضرورت ہے مذہب جاننے کی‘ اینا گریٹا۔۔۔! ‘‘ میری آواز بلند ہو رہی تھی۔

’’ فیملی بنانی ہے‘ Grow کرنا ہے۔ اس دُنیا کو اچھے لوگ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ ‘‘ میں بحث پر اُتر آیا۔

’’ جرنلزم زیادہ پڑھ لیا ہے تم نے۔ دیکھو مذہب اہم ہے لیکن میں نارمل ہوں ‘ مذہب کو لائٹ سا لیتی ہوں۔ ‘‘

’’ بچوں کو کیا سکھاؤ گی۔ ‘‘

 

’’ کیا سکھاؤ گی تم اپنے بچوں کو۔‘‘ یہی بات ایک دفعہ امی جی نے غصے سے ارم سے پوچھی تھی۔ جب وہ مفلر نہیں لینا چاہتی تھی کہ شو خراب ہوتی ہے۔

’’ جو وہ بننا چاہیں‘ جو وہ سیکھنا چاہیں۔ ‘‘ اینا گریٹا نے اطمینان سے میرے قریب ہو کر مسکراتے ہوئے کہا۔

اور مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ارم نے امی جی سے کہا تھا ۔

’’ اچھے انسان اور اچھا مسلمان۔‘‘

 

امی جی نے پلٹ کر کہا تھا کہ ’’ جب کوئی بھی انسان دیسی پھل پھول‘ بدیسی زمین اور آب و ہوا میں پروان چڑھانا چاہے تو اس پر دُہری ذمہ داری آن پڑتی ہے۔ دیسی زمین کی نمی اور آب و ہوا دینا بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ ان معصوم پودوں کو تناور درخت بنانے کے لئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ تھوڑا تھوڑا سب ہی کو دان دینا پڑتا ہے۔ کبھی وقت کا۔۔۔ کبھی خواہشوں کا۔۔۔ بچے اور پودے سب ایک جیسے ہی تو ہیں۔‘‘

’’ تم چپ کیوں ہو؟ ‘‘ اینا گریٹا نے مجھے ہلا کر جیسے ایک گہرے خواب سے بیدار کر دِیا ہو۔

’’ ہم اپنے بچوں کو کلچر کیا دیں گے؟

اسپین کا!

پاکستان کا!

یا پھر امریکن!‘‘

میں ابھی بھی جیسے خواب کے اندھیرے میں جگنو چاہتا تھا۔

’’ امریکن! ‘‘

یہ بات اینا گریٹا نے ہنستے ہوئے کہی تھی مگر لہجے کا حتمی سا انداز مجھے حیران کر گیا۔

’’ میرا خیال ہے کہ امریکن کلچر سب سے اچھا رہے گا۔ دیکھو اگر تم پاکستانی زبان اور کلچر سکھاؤ گے تو میرے لئے اجنبی ہو گا۔ اگر میں Spainish سکھاؤں گی تو تمہارے لئے۔ اس سے بہتر ہے کہ بچوں کو کنفیوژ نہ کیا جائے اور سیدھی سادھی انگریزی پر گزارہ کر لیا جائے اور مذہب وہ جو چاہے اپنا لیں۔ ان کی مرضی، ان کی چوائس اور آزادی۔

مذہب!

چوائس!

آزادی!

سائیکالوجی!

 

میرا رواں رواں بے چین ہو گیا تھا۔ میری بی بی جی نے تو میری امی جی سے ہی کہہ رکھا تھا کہ جب لڑکی ماں بنتی ہے تو سمجھو اس کی آزادی، انجوائے شنجوائے سب ختم۔۔۔ یہ ایک ذمہ داری ہے اس سے بھاگنا بزدلی، ریت میں منہ چھا کر زندگی گزارنا ہے۔ اللہ نے تمہیں شکیل اور ارم دیے ہیں ۔ ان کی تربیت ہی تمہاری انجوائے منٹ ہے۔‘‘

اُنہوں نے اتنی خوبصورتی سے انجوائے منٹ کہا تھا کہ میرے ابا جی واری صدقے ہو گئے تھے اور ہر شخص بی بی جی سے پوچھ رہا تھا کہ یہ لفظ انجوائے منٹ کہاں سے سیکھا تھا اور وہ بس دھیمے دھیمے مسکرا رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں۔

’’ امریکن کی ماں ہوں۔‘ ‘

ابا جی نے تڑپ کر بی بی جی کو گلے لگا لیا تھا۔

’’ میں ایک پاکستانی کا بیٹا ہوں۔‘‘

’’ اینا گریٹا! میرے بچے پاکستانی ہوں گے۔‘‘

’’ امریکہ میں! ‘‘ وہ حیرانی سے میرے پاگل پن پر ہنس پڑی۔

ہاں ‘ یہاں پر‘ میری طرح !

ایک اچھی ماں کے ساتھ رہیں گے!

مذہب ‘ کلچر کی باتیں سیکھیں گے!

عید‘ تہوار‘ شب براتیں منائیں گے!

بڑے چھوٹے کی عزت کریں گے!

ماں باپ کی خدمت‘ ذمہ داری کی طرح اُٹھائیں گے!

صدقہ جاریہ کے دیے روشن کریں گے!

اور اپنے ماں باپ کی باتیں اپنے بچوں کو سکھائیں گے!

اپنا ماضی‘ حال شیئرکریں گے!

اور کہیں گے کہ اسلام انسانوں نے پھیلایا ہے۔ کسی میڈیا نے نہیں‘ وہ دنیا کو بتائیں گے کہ اسلام ایک سچے پیار کی طرح جادو اور سحر کر دینے والا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہو‘ ایک ایڈریس کی طرح ساتھ رہتا ہے۔

اسلام ایک کلچر کا نام ہے‘ جس میں زندگی ہے!

پیار فلسفہ ہے!

عزت اور وقار سے جینے کا گر ہے!

اُمید اور اعتبار کا موسم ہے!

ڈاکٹر نگہت نسیم

میں جو اینا گریٹا پر مرتا تھا‘ ایک چکور کی طرح چک پھیریاں کھاتا رہتا تھا۔ ساری دُنیا کی لڑکیاں چھوڑ کر صرف اسی کے ساتھ رہنا چاہتا تھا ‘ اسے یہ سب کچھ نہ سمجھا سکتا تھا کہ اس کے پاس سالوں سال سے سینہ بہ سینہ چلنے والے مذہب کا بیک گراؤنڈ تھا اور نہ تہذیب۔ بہت دِنوں کی کشمکش کے بعد میں نے اس سے آخر کہہ ہی دِیا۔

’’ اگر تم مذہب بدل لو تو ہم شادی ضرور کر سکیں گے لیکن ایک مضبوط اور اچھی فیملی نہیں بنا سکیں گے۔ کیوں کہ ہماری زبان ایک نہیں ہے۔ کلچر ایک نہیں ہے۔ ۔۔ ہمارے تہوار الگ ہیں۔

ہمارا وڑھنا بچھونا ایک جیسا نہیں ہے بلکہ ہمارا تو کچھ بھی ایک جیسا نہیں ہے۔ تم کتنا کچھ بدلو گی میری خاطر‘ اور میں کتنا کچھ برداشت کر لوں گا تمہاری خاطر۔۔۔ پھر ایک دن ہماری محبت دم توڑ دے گی اور ہم میں سے کوئی نہ کوئی فیملی کے دائروں کو توڑ کر آزاد ہو جائے گا اور باقی سب لوگ بکھر جائیں گے۔ ‘‘

 

وہ سراسیمگی سے سن رہی تھی‘ اس کی بلوریں آنکھیں آنسوؤں سے بھر رہی تھیں۔

’’ اینا گریٹا پلیز! سمجھنے کی کوشش کرو‘ ہمارا کلچر بیک گراؤنڈ ایک جیسا نہیں ہے جو مذہب کی طرح  By birth growنہیں کرتا بلکہ اچھے ماں باپ بدیسی زمین میں اپنی تربیت کے ہنر سے ایک پودے کو تناور درخت میں بدل دیتے ہیں۔یہ صرف وہ ماں باپ ہوتے ہیں جن کا کلچر ، بیک گراؤنڈ اور زبان ایک ہو۔ جو کلچر میں مذہب اور مذہب میں کلچر آباد رکھتے ہوں۔ میں ساری عمر یہ جنگ نہیں لڑ سکتا۔ Sorryاینا! مجھے معاف کر دینا‘ پلیز۔ ‘‘ میں واپس مُڑ رہا تھا۔

اینا گریٹا روتی ہوئی اپنی Accomodationکی طرف بھاگ رہی تھی۔ اس کی دوست ایمی کہہ رہی تھی۔۔۔ ’’ میں تمہیں یہی سمجھا رہی تھی کہ مسلمان سے کبھی دِل نہ لگانا کہ وہ کسی بھی وقت مسلمان ہو سکتا ہے اور انجام کم و بیش یہی ہوتا ہے ‘ تم تو خوش نصیب ہو جو شادی نہ ہوئی۔ ‘‘

لیکن اینا گریٹا دوڑتی جا رہی تھی۔ اس نے کچھ نہیں سُنا تھا۔

پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ میں نے اس کا دِل توڑا تھا۔ چوٹ بھی گہری تھی۔ میں کیا کرتا‘ میرے اندر ماں باپ کی تربیت کا دِیا جلتا رہتا تھا ۔ ابا جی ٹھیک کہتے تھے کہ ’’ لڑکے لڑکیاں اس لئے غیر مسلم سے شادی نہیں کرتے کہ وہ اچھے مسلمان نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے کلچر اور وطن سے پیار نہیں کرتے۔ ‘‘

’’ توبہ جی ! کتنا مشکل ہے ۔ باہر سے انگریزی ‘ گھر میں بھی انگریزی ‘ میری تو زبان ہی تھک جائے۔ ‘‘ امی جی نے اتنی خوبصورتی سے کہا تھا ۔ ’’ اپنی زبان میں شکایت کا مزہ ہے۔ ‘‘

 

باوجود صدمے کے‘ میں ہنس پڑا ان کی باتیں یاد کر کے۔

کانووکیشن کے گروپ فوٹو میں اینا میرے ساتھ نہیں تھے۔

’’ ارے‘ اسے کیا ہوا‘ آج تم سے اتنی دور کیوں کھڑی ہے۔ کھٹ پٹ ہو گئی ہے کیا؟‘‘ امی جی نے رازداری سے پوچھا۔

’’ نہیں بھئی!‘‘ میں نے تصویریں اُٹھاتے ہوئے کہا۔

’’بیٹا!‘‘

امی جی نے مجھے سیدھا کھڑا کر دِیا لیکن میری آنکھوں کی نمی شاید ان سے آنکھیں نہ ملانے کا جواز بن رہی تھی۔

’’ مجھے فخر ہے کہ تو میرا بیٹا ہے۔ ‘‘

اُنہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا ۔ آج بھی ہمیشہ کی طرح وہ سب کچھ جان چکی تھیں۔ بغیر کچھ کہے‘ بغیر بتائے وہ دِلوں کی تہوں تک ہو آئی تھیں لیکن کسی کو بھی خبر ہی نہ ہوئی تھی۔

’’ نہیں امی جی ! میں خوش نصیب ہوں کہ آپ کا بیٹا ہوں۔ ‘‘ میں نے ان کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا۔

’’ اللہ پاک تمہیں ایک اچھا ساتھی عطا کرے!‘‘ اُنہوں نے میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بڑے جذب سے کہا۔

’’ آمین! ‘‘ میرا روم روم کہہ رہا تھا۔

 

         تحریر : ڈاکٹر نگہت نسیم  ( القمر آن لائن )


متعلقہ تحریریں:

 آخری کوشش

 اپنے دکھ مجھے دے دو