• صارفین کی تعداد :
  • 2479
  • 10/26/2008
  • تاريخ :

پاکستان کے خلاف الزام تراشیاں اور اصل حقائق

پاکستان کا جهنڈا

پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کا بھرپور ساتھ دینے کے باوجود افغانستان پر امریکی حملوں اور بڑی تعداد میں نیٹو فورسز کی تعیناتی کے بعد کرزئی حکومت کی بھرپور تائید وحمایت کے علاوہ افغانستان کی تعمیر نو میں ہر ممکن تعاون کرنے اور پاکستان میں 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو تمام تر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو کامیاب بنانے اور پاک افغان بارڈر پرغیر قانونی نقل و حرکت روک کر دراندازی کی حوصلہ شکنی کرنے میں پاکستان نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن یہ امر افسوسناک ہی نہیں باعث تشویش بھی ہے کہ صدر کرزئی اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر آج تک نہ صرف خود بلکہ ان کی کابینہ کے ارکان اور ذمہ دار امریکی حلقوں کی طرف سے یہ مضحکہ خیز الزام تراشی کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا کہ پاکستان سے افغانستان میں دراندازی ہو رہی ہے۔

 

فاٹا کے علاقے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی جنت بن چکے ہیں یہاں تک کہ القاعدہ کی قیادت بھی اب فاٹا کے علاقوں سے عراق اور افغانستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لئے ہدایات جاری کر رہی ہے۔ پاکستان کی حکومت ان کی بھرپور سرپرستی کر رہی ہے اور دراندازی کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ لہٰذا افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی، تخریب کاری، نیٹو اور افغان فورسز کے خلاف مزاحمت بدامنی اور لاقانونیت کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔

 

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے حکومتی سطح پر اس کی ہمیشہ تردید تو کی جاتی رہی اور افغان حکومت کی احسان فراموشی پرافسوس بھی کیا جاتا رہا لیکن ان الزامات کی شدت، تسلسل اور پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کے حوالے سے منہ توڑ اور مبنی بر حقیقت جو اب پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے جس کا کریڈٹ صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے۔ ایوان صدر میں ملاقات کے لئے آنے والے نائب امریکی وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر سے بات چیت کے موقع پر صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ افغانستان پاکستان میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اور دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے انہیں یہ امداد افغانستان اور بعض دوسرے ممالک سے مل رہی ہے۔

 

افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ سے حاصل ہونے والی بھاری رقوم پاکستان میں دہشت گردوں کو فراہم کی جا رہی ہیں جنہیں وہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ بلا تاخیر پوری سنجیدگی سے اس کا نوٹس لے ہم ایک جامع حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اس لئے امریکہ کو زمینی حقائق کا ادراک کرنا چاہئے ہم نے افغانستان کے راستے منشیات کی سمگلنگ کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے جس پر افغان سمگلر پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ کے لئے عسکریت پسندوں کو مالی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ہتھیار پھینکنے والوں کے ساتھ مذاکرات ،قبائلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز،روزگار کی فراہمی اور امن دوست قبائلی عوام کے ساتھ مل کر مشترکہ کارروائی جیسے اقدامات بطور خاص قابل ذکر ہیں اور سکیورٹی فورسز نے بڑی قربانیوں کے ساتھ علاقے میں تیزی کے ساتھ قیام امن میں کامیابی حاصل کی ہے اور بہت سے علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی واپسی بھی شروع ہو گئی ہے۔

 

امر واقع یہ ہے کہ افغانستان اور امریکہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف کی جانے والی الزام تراشیوں کے حوالے سے یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین سطح سے زمینی حقائق، معروضی حالات اور پا کستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی کے پس پردہ عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف افغان حکومت اور ان کے سرپرستوں کے الزامات کامنہ توڑ جواب دیا گیا ہے بلکہ ان حقائق پر سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے جو بعض عالمی اداروں کی رپورٹس کی صورت میں سامنے آ چکے ہیں۔ ان میں اہم ترین حقیقت افغانستان میں افیون کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ اور ہیروئن کی تیاری کے لئے جگہ جگہ لیبارٹریوں کا قیام اور اس مذموم دھندے میں صدر حامد کرزئی کے بھائی کا ناقابل رشک کردار سرفہرست ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس وقت افغانستان میں افیون کی پیداوار 48 میٹرک ٹن کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اتحادی افواج کے بعض افسر اور اہل کار بھی افیون کی کاشت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ فوج میں شامل متعدد افسر اور اہلکار نشہ کے عادی ہیں۔

 

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس نے پاک افغان سرحد پر دراندازی کو روکنے اور سمگلنگ پر قابو پانے کے لئے 11سو چیک پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں جبکہ افغانستان نے صرف چار سو چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔ اس طرح افغان سمگلرز دشوار گزار پہاڑوں کے چور راستوں سے منشیات کی سمگلنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس سمگلنگ سے حاصل ہونے والی رقوم افغانستان میں را، موساد اور  کے جی بی کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو دے کر انہیں چور راستوں کے ذریعے پاکستان میں داخل کر دیا جاتا ہے۔

 

افغانستان اور پاکستان کی ملحقہ سرحدوں پر واقع افغان شہروں میں بھارت کو سراسر غیر ضروری طور پر 19قونصل خانے کھولنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں اتنے قونصل خانوں کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بھارت اور افغانستان کے درمیان لوگوں کی آمد و رفت تو نہ ہونے کے برابر ہے دراصل یہی قونصل خانے دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ ہیں اور یہ دہشت گرد منشیات کی سمگلنگ سے حاصل ہونے والی رقوم کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوتے اور دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں امن و سکون کو برباد کرنے میں مصروف ہیں۔ فاٹا، سوات دیر اور دوسرے قبائلی علاقوں میں مساجد، سکولوں، کالجوں، سرکاری ہسپتالوں اور تجارتی مراکز کو خودکش بم دھماکوں میں اڑانے میں پاکستانی قبائلی نہیں بلکہ یہی دہشت گرد ملوث ہیں جو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔

 

پاک فوج نے جو مداخلت کار گرفتار کئے ہیں ان میں دو سو کے لگ بھگ غیر مسلم شامل ہیں جنہوں نے لباس اور داڑھی کی صورت میں یہاں تک کہ مسلمان اور قبائلی ہونے کا روپ دے رکھا تھا۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس نے افغانستان میں ہر قسم کی دراندازی کو روکنے اور خود پاکستان میں افغان دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے داخلے پر کڑی نظر رکھتے ہوئے دونوں جانب منقسم قبائلی خاندانوں کی آزادانہ آمد و رفت پر بھی پابندی لگاتے ہوئے ایک لاکھ 17ہزار فوجی افسر اور جوان تعینات کر رکھے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں پاک فوج کے دو ہزار کے لگ بھگ افسر اور جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ اس پس منظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ اس کے اتحادی اور افغان صدر پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی ترک کرکے زمینی حقائق کا ادراک کریں اور تاریخ کی روشنی میں اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ افغان عوام نے کبھی غیر ملکی تسلط  کو قبول نہیں کیا۔

 

افغانستان میں نیٹو افواج کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت نے صدر حامد کرزئی اور اتحادی قوتوں کو اپنی ناکامی کا احساس دلا دیا ہے۔ صدر کرزئی نے اس بنیاد پر طالبان کو شریک اقتدار کرنے اور امریکہ و برطانیہ نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کا عندیہ دیا ہے صدر آصف علی زرداری کے مبنی بر حقیقت موقف اور افغانستان میں اتحادیوں کو درپیش صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ یہ قوتیں حقیقت ِ حال کو سمجھنے میں تاخیر نہ کریں اس لئے کہ محض پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی نہ مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی انہیں ہزیمت سے بچا سکتی ہے۔

                 

                            روزنامہ جنگ

آپ قارئین اس پورے مسئلے میں کس کو قصور وار سمجھتے ہیں ؟ اس موضوع پر نیچے دیۓ ہوۓ خانے میں ہمیں اپنی راۓ سے آگاہ کریں ۔ شکریہ


متعلقہ تحریریں:

 پاکستان میں نئی امریکی سفارت کاری ۔ ایک خطرناک کھیل

پاکستان ایٹمی اثاثے، مغرب کی تشویش