ابر کوہسار
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا |
ابر کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا |
کبھی صحرا ، کبھی گلزار ہے مسکن میرا |
شہر و ویرانہ مرا ، بحر مرا ، بن میرا |
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو |
سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو |
مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے درافشاں ہونا |
ناقۂ شاہد رحمت کا حدی خواں ہونا |
غم زدائے دل افسردۂ دہقاں ہونا |
رونق بزم جوانان گلستاں ہونا |
بن کے گیسو رخ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں |
شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں |
دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں |
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں |
سیر کرتا ہوا جس دم لب جو آتا ہوں |
بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں |
سبزۂ مزرع نوخیز کی امید ہوں میں |
زادۂ بحر ہوں پروردۂ خورشید ہوں میں |
چشمۂ کوہ کو دی شورش قلزم میں نے |
اور پرندوں کو کیا محو ترنم میں نے |
سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قم میں نے |
غنچۂ گل کو دیا ذوق تبسم میں نے |
فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے |
جھونپڑے دامن کہسار میں دہقانوں کے |
شاعر کا نام : علامہ محمد اقبال
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
عصرِ حاضر ملک الموت ہے، تیرا جس نے