• صارفین کی تعداد :
  • 6490
  • 9/20/2008
  • تاريخ :

آیت اللہ العظمی سید عبد الكریم موسوی اردبیلی

آیت اللہ العظمی سید عبد الكریم موسوی اردبیلی

حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید عبد الكریم موسوی اردبیلی نے 13 رجب 1344ھ ش كی صبح كو ایك تہی دست باعلم گھرانے میں ولادت پائی۔ آپ كے والد کا نام  سید عبدالرحیم اور والدہ سیدہ خدیجہ تھیں۔ آپ كے یہاں اس سے قبل آٹھ بیٹیاں پیدا ہو چكی تھیں ۔ موسوی اردبیلی صاحب آخری اولاد اور اكلوتے بیٹے ہیں۔ 1346ھ ش میں چیچك كے مرض میں والدہ كا انتقال ہو گیا اور بہنوں نے پرورش كی۔ آپ كی بچپن كی یادداشتوں میں سے ایك وہ خواب ہے جس كے بارے میں آپ فرماتے ہیں كہ:

”مجھے بچپنے میں امام زمانہ (ع) كی زیارت كا بہت شوق تھا چنانچہ امام زمانہ (ع) سے ملاقات كے متعلق كتابوں میں جتنے اعمال مرقوم ہیں سبھی كو بجا لاتا تھا یہاں تك كہ مستحبات پر بھی عمل كرتا تھا ایك رات میں نے آپ كو خواب میں دیكھا میں نے ایك بچے كے مانند ان كے دامن كو تھام لیا۔ ان كے قدموں پر گر پڑا اور عرض كی مجھے كچھ عطا كیجئے۔ آپ نے اپنی انگشت مبارك سے ایك فیروزہ كی انگوٹھی اتار كر میری انگلی میں پہنا دی جب میں نے والد صاحب سے یہ خواب بیان كیا تو انھوں نے كہا اب مجھے تمہاری طرف سے كوئی فكر نہیں ہے كیونكہ تم امام زمانہ (ع) كے سایہ میں رہو گے۔

 

خاندان كی مالی، مذھبی اور سیاسی حالت

آپ كے والد ایك عالم باعمل تھے، اپنی اولاد كی مذھبی طریقے سے تربیت كرنا چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں مصر رہتے تھے ۔ اس زمانہ میں ایران میں رضا شاہ پہلوی كی حكومت تھی وہ اپنے برطانوی آقاؤوں كی پیروی میں ہر روز طاقت و وحشت كے زور پر سیاست چلاتا تھا ۔ ایك روز اتحاد شكل كے عنوان سے لوگوں كے لباس اور ٹوپی كو بدل دیا۔ دوسرے دن بے پردگی كا اعلان كر دیا۔ ایك زمانہ میں مجلس عزاداری اور وعظ و خطابت كے جلسوں پر پابندی لگا دی۔ اس كے بعد عالم كا لباس پہننے پر پابندی لگا كر علماء كے ساتھ سختی كرنے لگا۔ اس كی ان حركتوں كی وجہ سے علماء خانہ نشین ہو گئے اور صبر و انتظار كی سیاست پر عمل پیرا ہو گئے۔ بعض نے لباس بدل لیا اور صف علماء سے نكل گئے اور دوسرا پیشہ اختیار كر لیا۔ كچھ لوگوں نے مقاومت كی، سختیاں اور تكلیفیں برداشت كیں ۔ كبھی چھپ كر اور كبھی علی الاعلان مقابلہ كیا مرحوم میر عبدالرحیم انھیں افراد میں سے تھے۔

آپ پہلوی حكومت كے مظاہر كو خلاف شرع اور حرام قرار دیتے تھے۔ اس طرز تفكر كے نتیجہ میں آپ پر دباؤ بڑھ گیا اس صورت حال كے تحت كبھی آپ كو مہینوں گھر ھی پر رہنا پڑتا تھا اور صرف ضروری كاموں كی انجام دھی كے لیے رات میں گھر سے نكلتے تھے اور جلدی واپس لوٹ آتے تھے۔ اس زمانہ كے حالات اتنے بھیانك تھے كہ چند دوستوں اور جاننے والوں كے علاوہ كوئی ان كے گھر آنے كی جراٴت نہیں كرتا تھا ۔ اس صورت حال كے نتیجہ میں مفلسی اور ناداری بڑھتی چلی گئی۔ بعض شب و روز تك اہل خانہ كو كھانا میسر نھیں ہو تا تھا۔

ستمبر1941ع م كو روس نے ایران پر حملہ كیا اور آذربایجان میں داخل ہو گیا ۔ رضاپھلوی ایران سے بھاگ گیا ۔ اگرچہ ایران كے حالات آشفتہ ہو گئے تھے لیكن عوام كو سكون مل گیا اور علماء پر جو پابندیاں عائد كی گئی تھیں ان میں كچھ كمی آ گئی نتیجہ میں آپكے خاندان والوں كی آمد و رفت سے پابندی اٹھ گئی ۔

 

تعلیم كا آغاز

حضرت آیة اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے بچپنے ہی میں چھ سال كی عمر سے مكتب میں داخل ہو كر تعلیم كا سلسلہ شروع كیا ۔ قرآن مجید تمام كرنے كے بعد رسالہٴ عملیہ، گلستان، تاریخ عجم، درایۂ نادری، تاریخ وصاف، حساب، فارسی اور دوسری كتابیں بھی اساتذہ سے پڑھیں ۔ 1318ھ ش میں عربی كی تعلیم شروع كی ۔ 1319ھ ش میں حوزۂ علمیہ كی اعلیٰ تعلیم كے حصول كے لئے اردبیل میں واقع مدرسہٴ علمیہٴ ملا ابراہیم میں داخل ہوئے۔

اس زمانہ میں اردبیل میں تین دینی مدرسے مدرسہٴ مرزا علی اكبر، مدرسہٴ صالحیہ اور مدرسہٴ ملا ابراہیم تھے۔ پہلا پرائمری اسكول میں تبدیل ہو گیا تھا دوسرے میں قفقاز كے ایرانی مھاجرین كو ٹھہرا دیا گیا تھا، صرف مدرسہٴ ملا ابراہیم طلباء كی تعلیم كے لئے باقی بچا تھا۔ اس زمانہ میں كسی كو دینی تعلیم حاصل كرنے كا شوق نھیں تھا چنانچہ اس مدرسہ میں صرف چار طالب علم تھے ۔ ایسے بحرانی حالات میں آپ نے دینی تعلیم كا آغاز كیا اور اسی مدرسہ میں 1322ھ ش تك جامع المقدمات، سیوطی، جامی، مطول، حاشیہٴ ملا عبداللہ، شرح تہذیب، معالم اور شرائع تمام كی۔ ایران میں متحدہ روس كے داخل ہوجانے سے لوگوں كو حكومت كے ظلم و ستم سے نجات مل گئی تھی اور جوانوں میں تعلیم حاصل كرنے كا شوق بڑھ گیا تھا۔ چنانچہ بھت سے جوان دینی و حوزوی تعلیم حاصل كرنے كے لئے مدرسہٴ ملا ابراہیم میں داخل ہوئے۔ ان جوان اور بانشاط طلباء كے داخل ہوجانے كی بنا پر آپ نے حوزوی علوم كی ابتدائی كتاب صرف، نحو اور منطق كا درس دینا شروع كیا۔ اس كے علاوہ شھر اردبیل كے مضافات میں بیس سال تك رضاخانی حكومت كی وجہ سے جو عقائد اور تھذیب كی دنیا میں خلا پیدا ہو گیا تھا اسے پر كرنے كی غرض سے مواعظ اور تقاریر كرتے رہے۔

قم كی طرف  روانگی

 

حضرت آیة اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے 1943ع م كے رمضان المبارك میں یہ طے كیا كہ قم ھجرت كركے وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل كریں۔ چنانچہ اسی مھینہ كے آخر میں اردبیل سے روانہ ہو كر قم آ گئے اور مدرسہٴ فیضیہ میں اقامت گزین ہوئے۔ تین سال تك قم ہی میں قیام پذیر رہے۔ اس زمانہ میں آپ نے لمعتین، رسائل، مكاسب، كفایتین تمام كی اور درس خارج، تفسیر قرآن اور فلسفہ كے دروس میں شركت كے ساتھ ھی معالم، لمعتین اور قوانین كا درس بھی دیتے رہے۔ اس زمانہ میں آپ نے آیت اللہ العظمیٰ محمد رضا گلپایگانی سے كچھ مكاسب اور كفایہ جلد اول، آیت اللہ العظمیٰ حاج سید احمد خوانساری سے مكاسب بیع، كفایہ جلد دوم اور شرح ہدایہ مبیدی اور آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ مرتضیٰ حائری سے رسائل، آیت اللہ حاج مہدی مازندرانی سے منظومہ، آیت اللہ محمد حسین طباطبائی سے اسفار كا درس لیا۔ مزید برآں آپ نے كبھی بھی معارف اسلام كی ترویج سے غفلت نہیں كی ۔ آپ نے تبلیغ كے زمانہ میں ایران كے مختلف علاقوں میں مجالس كو خطاب كیا۔ اور اپنی مذھبی تقریروں كے ذریعہ معاشرہ میں نشاط اور معنویت كی روح پھونكتے رہے۔

 

جس زمانہ میں حوزۂ علمیہ قم كے زعیم آیت اللہ حجت كوہ كمرہ ای، آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری اور آیت اللہ صدرالدین اصفھانی تھے اور شھر كے علماء كے امور آیت اللہ فیض اور آیت اللہ روحانی كے ذریعہ حل ہوتے تھے۔ اس زمانہ میں حضرت آیة اللہ العظمیٰ امام خمینی، حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید محمد رضا گلپایگانی، حضرت آیة اللہ العظمیٰ حاج شیخ محمد علی عراقی (اراكی) اور حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید محمد داماد قدس اللہ اسرارھم، دوسرے درجہ كے علماء شمار ہوتے تھے۔ اور حوزوی دروس كی اعلیٰ سطح كی تدریس كرتے تھے۔ اسی زمانہ میں حوزۂ علمیہ قم كے بعض علماء نے یہ طے كیا كہ حوزۂ علمیہ كی ترقی كے لئے آیت اللہ العظمیٰ بروجردی كو قم دعوت دی جائے۔ ان كی مسلسل كوششوں سے وہ قم تشریف لائے اور درس دینے لگے ۔آپ نے حوزۂ علمیہ میں ھر طریقہ سے چار چاند لگائے۔ اس زمانہ میں ایران پر غیروں كے حملہ كرنے كی وجہ سے ملك كی اور اس كے ساتھ قم كی سیاسی حالت بحران كا شكار تھی ۔ دوسری طرف آذربایجان میں روسی فوج كی موجودگی كی بنا پر آذری لوگوں كی مدد كا سلسلہ منقطع ہو گیا اور آذری طلباء تنگدستی میں مبتلا ہوگئے۔ اس بحران كے زمانہ میں آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی نے نجف اشرف میں انتقال كیا ۔ آپ كے انتقال سے دنیائے شیعیت خصوصاً ایران كو شدید جھٹكا لگا ۔ ایران كی حكومت آپ كی رحلت كو اھمیت دے كر ایك طرف تو اپنے مخالفوں كو كمزور كرنا چاھتی تھی اور دوسری طرف حوزۂ علمیہ نجف كو قم منتقل كرنے كی كوشش كررھی تھی كہ ھو سكتا ہے كہ نمایاں علماء سے فائدہ حاصل كركے ملك كی سیاسی صورتحال كو مستحكم بنا یا سكے۔ اس مقصد میں كامیابی حاصل كرنے كے لئے محمد رضا پہلوی نے آیت اللہ العظمیٰ اصفھانی كے انتقال كے موقع پر آیت اللہ العظمیٰ بروجردی كے نام تعزیت كا ٹیلی گرام بھیجا ۔ اس عمل سے حوزۂ علمیہ كی بڑھتی ھوئی قدرت ظاہر ھوئی۔ یہ الگ بات ھے كہ پھلوی نظام بعد میں ایسے ایسے اشتباھات سے پیدا ہونے والے خطرات كی طرف متوجہ ھوا اور اس نے اس كے برخلاف اپنی پوری طاقت صرف كی۔ مگر علماء اور حوزات علمیہ كی روز افزوں محبوبیت و اقتدار كو نہ روك سكا ۔

 

ایك طرف آیت اللہ العظمیٰ بروجردی نمایاں علمی شخصیت اور دوسری طرف حكومت وقت كی سیاسی بے طرفی سے اور حوزۂ علمیہ قم كو مستحكم بنانے كے سلسلہ میں فضلاء كی كوشش سے ھر طرف سے طلباء و علماء قم آنے لگے۔ حوزۂ علمیہ نجف نے اپنے سابقہ اطمینان كو محفوظ ركھا ۔ وہاں كے علمی ماحول كو پرسكون قرار دیا جاتا تھا۔ آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی اس زمانہ میں علم كے تشنہ تھے۔ اور تحصیل و تدریس كے لئے پرسكون و مناسب جگہ كی تلاش میں تھے اس كے لئے آپ نے نجف كو مناسب پایا اس لئے نجف كی طرف رخ كیا۔

 

نجف كی طرف سفر

حضرت آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے حوزۂ علمیہ قم كے تین فضلاء كے ساتھ نجف اشرف جانے كا پروگرام بنایا ۔ دو افراد نے ارادہ ترك كردیا تو آپ شیخ ابوالفضل حلال زادہ اردبیلی كے ساتھ پھلی ذی الحجہ 1363 ھ ق كو قم سے روانہ ہوئے۔ چونكہ اس زمانہ میں كوئی قانونی طور پر عراق كا سفر نھیں كر سكتا تھا وھاں جانا بھت مشكل تھا ۔ مجبوراً خفیہ طور پر خرم شھر كے راستے سے عراق كے شھر بصرہ میں داخل ھوئے۔ بے پناہ مشكلات اور سختیاں اٹھانے كے بعد بصرہ، عباسیہ اور دیوانیہ سے ہوتے ہوئے خدا كے لطف و كرم سے اسی سال سات ذی الحجہ كو عصر كے وقت حوزہٴ علمیہ نجف اشرف پھنچ گئے۔ آنے والی رات شب عرفہ تھی لہٰذا دونوں ھم سفر ابتدائی امور انجام دینے كے بعد حوزۂ علمیہ نجف اشرف كی دیرینہ سنت كے مطابق اسی شب كربلا كے لئے روانہ ھو گئے۔ اور پھر دو روز بعد نجف اشرف واپس آ گئے اور تعلیم كا آغاز كیا۔

 

موصوف نجف اشرف میں قیام كے زمانہ كو حصول تعلیم كا بھترین زمانہ سمجھتے ہیں۔ طلباء كے لئے امن و سكون فراھم تھا كہ طلباء پڑھنے پڑھانے اور تحقیق كے علاوہ اور كوئی كام انجام نھیں دیتے تھے۔ آپ بھی جوش و ولولہ كے ساتھ اس عھد كے حوزۂ علمیہ كے بڑے اساتذہ كے دروس میں شریك ھوئے۔ اور ان كے خرمن سے خوشہ چینی كے ساتھ حوزۂ علمیہ كے دروس میں پیش آنے والے علمی مسائل كی علمی تحقیق میں مشغول ھوئے اور اساتذہ كے دروس كو قلمبند كر لیا۔

نجف میں علمی فعالیت

حضرت آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے نجف اشرف میں قیام كے دوران اصول فقہ كے مباحث قطع و ظن، براءت و اشتغال اور كچھ الفاظ كی بحث اور فقہ میں اعادۂ صلاة، اوقات، قبلہ، لباس مصلی و مكان مصلی، خلل صلاة و شروط صلاة تا آخر مكاسب آیت اللہ العظمیٰ خوئی اور بحث طہارت كو آخر وضو تك مرحوم آیت اللہ العظمیٰ حكیم سے اور اجتھاد و تقلید كی بحث میرزا عبدالھادی شیرازی اول كتاب بیع كو مرحوم آیت اللہ العظمیٰ میلانی سے ، بیع صبی كو مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد كاظم شیرازی سے اور كچھ عرصہ وہ آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد كاظم آل یاسین اور فلسفہ میں اول طبیعیات سے آخر منظومہ تك مرحوم صدر سے پڑھی۔ اسی زمانہ میں خوئی صاحب، میلانی صاحب اور محسن الحكیم كے دروس بھی قلمبند كئے۔ ھرچند نجف اشرف میں آپ كا قیام بھت كم رھا ۔ دو سال سے كچھ زیادہ لیكن یھی كوتاہ مدت آپ كے لئے علمی لحاظ سے بھت قیمتی تھی۔ اس زمانہ كے حوزات میں فقہ، اصول، فلسفہ كے سلسلہ میں باریك بینی اور موشگافیاں تھیں۔ اس نے آپ كی علمی اور ثقافتی شخصیت كو بھت متاثر كیا اس كی وجہ یہ تھی كہ اس وقت حوزہ علمیہ نجف میں شیعی فقہ و اصول كے بھترین اساتذہ موجود تھے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے كہ آیت اللہ العظمیٰ خوئی كا وہ جملہ نقل كر دیا جائے جو انھوں نے نجف اشرف میں ان كے مختصر قیام كے بارے میں فرمایا تھا :تین طلباء قم سے نجف اشرف گئے اور مختصر قیام كے بعد واپس لوٹ آئے۔ خوئی صاحب نے اظھار افسوس كیا اور كھا :

”كاش وہ نجف میں ر ھتے اور قم واپس نہ جاتے۔“

ان تین افراد میں سے ایك آیت اللہ العظمیٰ اردبیلی تھے۔

 

ایران واپسی

اس زمانہ میں عراق كے سیاسی حالات بتدریج بگڑ رھے تھے۔ عوام نے برطانیہ كی قائم كردہ ھیئت حاكمہ كے خلاف شورش بپا كی اور اسے منحل كرنے كا مطالبہ كیا۔ شورش بڑھتی رھی ۔ بغداد، نجف اور بعض دوسرے شھروں میں خونریزی بھی كی جس كے نتیجہ میں صالح جابر كی حكومت كا تختہ پلٹ گیا۔ مرحوم سید محمد صدر نے حكومت بنائی۔ چند دنوں بعد محمد صدر كی حكومت بھی ٹوٹ گئی اور بیرونی طاقتوں كا مھرہ نوری سعید وزیر اعظم بن گیا۔ اسی زمانہ میں آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی كو ایك خط ملا جس میں لكھا تھا كہ آپ كے والد بیمار ہیں ۔ آپ پریشان ھو گئے ۔ عراق كے بدلتے ھوئے حالات اور والد كی بیماری كے پیش نظر آپ نے بادل ناخواستہ عراق چھوڑ كر ایران كا رخ كیا۔

آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی 1948ع میں عراق سے واپس لوٹنے كے بعد قم تشریف لائے۔ فیضیہ میں قیام پذیر ھوئے ۔ نجف سے روانگی كے وقت ان كا محكم ارادہ تھا كہ جلد از جلد عراق واپس جائیں گے۔ اسی لئے نجف اشرف میں جو انكا اثاثہ تھا اسے ساتھ نھیں لائے تھے مگر تقدیر میں كچھ اور لكھا تھا چنانچہ پھر عراق جاكر علم حاصل كرنے كے اسباب فراھم نہ ھو سكے۔

 

جب قم پھنچے تو والد كی شفایابی اور حوزہ كے دروس كی كمی و كیفی حالت سے آگاہ ھوئے۔ چند ماہ قم ھی میں قیام كیا ۔ اس زمانہ میں آیت اللہ العظمیٰ بروجردی مرحوم كے فقہ كے درس خارج میں اور آیت اللہ داماد كے اصول كے درس خارج میں شریك ھوتے رھے نیز آیت اللہ طباطبائی كے منظومہ كے درس میں شركت كی۔ ماہ رجب میں اردبیل گئے ۔ والد ماجد سے ملاقات كی۔ والد كی تمنا تھی كہ وہ اپنی باقی عمر نجف اشرف یا قم میں بسر كریں لیكن اھل و عیال كے ساتھ نجف جانا ممكن نہ تھا۔ لھٰذا قم آ گئے۔ ایك چھوٹا سا گھر لیا اور قم ھی میں درس و تدریس كا سلسلہ شروع كر دیا۔ انكے والد قم كی سخت گذر بسر كی بنا پر زیادہ دن قم میں نھیں رہ سكے۔ 1951ع میں ان كا انتقال كیا۔

قم میں قیام كے دوران رونما ھونے والے حادثات

1- سلسلہٴ تعلیم

جیسا كہ بیان كیا جاچكا ھے كہ قم میں آپ كی اھم ترین مشغولیت یہ تھی كہ آپ تعلیم و تحقیق كا سلسلہ جاری ركھے ھوئے اور اس زمانہ كے بڑے اساتذہ یعنی آیت اللہ العظمیٰ بروجردی اور آیة اللہ العظمیٰ سید محمد داماد طباطبائی كے درس میں شریك ھونے كے علاوہ حضرت آیة اللہ العظمیٰ امام خمینی كے درس اخلاق اور حضرت آیة اللہ العظمیٰ گلپایگانی كے فقہ كے درس خصوصی میں شریك ھوتے تھے۔ اسی طرح آیة اللہ حاج شیخ مرتضیٰ حائری اور آیت اللہ العظمیٰ حاج سید احمد خوانساری كے درس میں شركت كرتے تھے۔

 

2 - سلسلہ تدریس

حوزات علمیہ كا باقی رھنے والا اور بھترین طریقہ پڑھنے كے ساتھ پڑھانا ہے۔ اس سے طالب علم كی علمی و تربیتی روح كی پرورش ھوتی ہے اور اس كا اثر دیرپا ھوتا ھے ۔ چنانچہ قم میں قیام كے دوران اساسی كاموں كی انجام دھی كے ساتھ خوش فھم اور محنتی طلباء كو رسائل، مكاسب، كفایہ اور منظومہ كا درس دیا كرتے تھے ۔ عام طور پر درس عمومی ھوتا تھا ۔ ھاں بعض ارادتمند شائقین كو فقہ و اصول كا خصوصی درس خارج دیتے تھے۔

3- قرآن كی خدمت

قم میں قیام كے دوران آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے جو كام انجام دئے ھیں ان میں قرآن كی خدمت بھی ھے۔ ھفتہ میں دو دن فضلاء كو تفسیر قرآن كا درس دیتے تھے۔ قم میں اقامت كے زمانہ میں ان پانچ درس كا سلسلہ مستقل طور پر جاری رھتا تھا۔ قم سے ھجرت كے بعد بھی یہ سلسلہ مذكورہ اراكین كے توسط سے جاری رھا۔ اور آج1999ع تك جاری ھے۔ آپ نے اردبیل اور تھران میں قیام كے دوران بھی درس كا سلسلہ جاری ركھا۔ آج بھی آپ قرآن كی تحقیق، تفسیر اور علوم قرآن ھی میں مشغول ھیں۔ چنانچہ اس تحقیق كا ماحصل كبھی كبھی مقالہ كی صورت میں جرائد میں شائع ھوتا ہے۔

 

4۔ جریدہ كا اجراء

قم میں قیام كی مدت میں آپ اور حوزہ كے فضلاء علماء كی ایك جماعت نے پھلی بار” مكتب اسلام“ نامی جریدہ كا اجراء كیا۔ جریدہ بھت مقبول ھوا ۔ موصوف نے جو كہ اس جریدہ كے بانیوں میں سے تھے كچھ مقالات لكھے۔ انھیں میں سے " دین از نظر قرآن " كا مجموعہ ھے۔ " قرآن یا آفتابی كہ غروب ندارد "اور " طوفان نوح " قابل ذكر مقالات ھیں۔ آپ نے نو شماروں میں فقط تعاون كیا ھے۔ قم سے ھجرت كے بعد آپ نے جریدہ سے تعاون قطع كر دیا۔

 

5۔ تبلیغی سفر

علماء كے اصلی فریضہ خدا كے دین و احكام كا دنیا میں تبلیغ و ترویج كرنا ھے۔ باوجودیكہ حكومت وقت كا علماء پر دباؤ رھتا تھا اور انھیں پریشان كیا جاتا تھا۔ موصوف كے اساسی كاموں میں تبلیغی امور بھی شمار ھوتے تھے۔ چھٹی كے زمانے میں تبلیغ كے لیے مختلف جگھوں پر تشریف لے جاتے تھے۔ آپ ارومیہ، مشھد، بندرانزلی، درگز، ھمدان، اردبیل، بابل اور بھشھر وغیرہ جاتے ھیں۔ آپ كی ولولہ انگیز تقریروں كے بارے میں مومنین كے پاس بھت سی یادداشتیں ھیں۔

 

6- سیاسی فعالیت

اس میں كوئی شك نھیں ھے كہ اسلام نے انسان كی دنیوی اور اخروی كامیابی پر توجہ دی ھے۔ علماء كو سیاسی صورتحال سے تشویش تھی لھٰذا وہ ابتدا ھی سے ان مسائل میں دخیل رھتے تھے۔ جو مسلمانوں كی تقدیر اور ان كے مستقبل سے مربوط تھے۔ وہ اپنے فریضہ كو بحسن و خوبی انجام دینے كی كوشش كرتے تھے ۔ ان حوادث میں سے ایك حادثہ عالمی صلح كا معاہدہ ھے جو كہ ڈاكٹر مصدق كی وزارت عظمیٰ كے زمانہ میں ھوا تھا۔ شروع میں تو ایران كی سیاسی اور دینی شخصیتوں نے اس كی تائید كی مگر كچھ لوگ منجملہ ان كے سید علی اكبر برقعی اور شیخ محمد باقر كمرہ ای اپنے نظریہ پر مصر رہے اور " وین "میں منعقد ھونے والی كانفرنس میں شریك ھوئے۔ برقعی كی واپسی پر ماركسیسم كی طرف تمایل ركھنے والے گروھوں نے ان كا استقبال كیا ۔ قم كے طلباء نے ان كی مخالفت كی جس كے نتیجہ میں فساد ھو گیا۔ كوتوالی كے سامنے گولی چلائی گئی جس میں ایك آدمی ھلاك ھوا اور بھت سے لوگ زخمی ھوئے۔ ان فسادات كا سلسلہ دو روز تك جاری رھا۔ شاہ كے درباری اور بعض دوسرے گروہ اپنے اپنے مقاصد كے لحاظ سے صورتحال كو دیكھ رھے تھے۔ ڈاكٹر مصدق نے صورتحال پر قابو پانے اور ان كی تحقیق كے لیے جناب ملك اسماعیلی كو آیت اللہ بروجردی كی خدمت میں روانہ كیا۔ اس واقعہ میں آیت اللہ موسوی اردبیلی طلباء كو بلانے والے افراد میں سے ایك تھے ۔ آیت اللہ بروجردی كی طرف سے آپ نے اسماعیلی سے ملاقات كی اور پھر حضرت معصومہ كے صحن میں مجمع كو خطاب كیا اور آیت اللہ العظمیٰ بروجردی كا پیغام سنایا۔

 

اردبیل واپسی

آپ بے پناہ علمی، تبلیغی، ثقافتی اور سیاسی فعالیت كے نتیجہ میں ماہ رمضان 1959ع میں بیمار ھو گئے۔ ڈاكٹروں كو دكھایا تو انھوں نے كھا كہ محل سكون كو بدل دیں اور زیادہ كام نہ كریں۔ چنانچہ 1960ع میں مجبوراً تعطیل كا زمانہ گذارنے كے لئے اردبیل چلے گئے۔ اردبیل پھنچ كر اسی سال گرمی میں مرحوم حاج میر صالح كی مسجد میں وعظ و تبلیغ كا سلسلہ شروع كیا اور مدرسہٴ ملا ابراہیم كی تجدید كا اقدام كیا۔ گرمیوں كا زمانہ ختم ھو گیا تو باوجودیكہ باطنی طور پر آپ قم جانا چاھتے تھے لیكن اردبیل كے علماء اور عوام نے اصرار كیا كہ آخرسال تك وقتی طور پر اردبیل ھی میں قیام كریں لیكن ان كاموں كے ادھورا رہ جانے كی وجہ سے جو آپ نے شروع كیے تھے، مدت دراز تك آپ اردبیل میں 1969ع تك قیام پذیر رھے۔ اردبیل میں طویل المدت قیام كے دوران آپ نے جو كام انجام دئے ان میں سے بعض درج ذیل ھیں :

*  علمی فعالیت

آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی نے اردبیل میں قیام كے ساتھ ھی اردبیل میں بعض فضلاء و طلباء جو كہ قم میں زیر تعلیم تھے اردبیل واپس آگئے اور آپ سے رسائل، مكاسب، كفایہ پڑھنے لگے۔ كچھ دنوں كے بعد آپ نے اصول كا اور فقہ میں مكاسب وغیرہ كا درس شروع كیا۔ تدریس، حوزۂ علمیہ كی ادارت، مدارس كی عمارتوں كی تجدید كے علاوہ طلباء كو شھریہ دینا اور ان كی مدد كرنا اور ان میں سے بعض كو تبلیغ كے لیے شھر اور دیھات بھیجنا اور ممكنہ حد تك ان كی مشكلوں كو حل كرنا بھی آپ ھی كے ذمہ تھا۔

*  تبلیغ

اس مدت میں آپ كے تبلیغی كام كبھی معطل نھیں ھوئے۔ نماز مغربین كے بعد منبر سے تقریر كرتے۔ تفسیر قرآن مجید بیان كرتے ۔ اور لوگوں كے گھروں پر ھفتہ وار جلسہ كرتے۔

* اقتصادی فعالیت

امام موسیٰ صدر جو كہ آپ كے دیرینہ اور طالب علمی كے زمانہ كے دوست تھے۔ نے جنھوں نے لبنان میں مفلسی سے جنگ اور محروموں كی مدد كے لیے ایك ادارہ قائم كیا ۔ آیت اللہ موسوی اردبیلی نے اس سے متاثر ھو كر ناداری سے جنگ اور محروموں كی مدد كے لیے شھر اردبیل میں ایك كارخانہ لگانے كا عزم كیا۔ تحقیق كے بعد كچھ لوگوں كو مستحق صدقات اور انفاق كی جمع آوری كے لیے معین كیا گیا اور یہ طے پایا كہ تھی دست لوگوں كو دست كاری سكھائی جائے اور ان كی بنائی ھوئی چیزوں كو بازار میں لایا جائے اور آمدنی كو انھیں سے مخصوص كیا جائے۔ شروع میں جوراب اور كپڑا بنایا جاتا تھا اس كام كے لیے ایك عمارت بنائی گئی جس سے بعض خاندانوں كو روزگار فراھم ھو گیا۔ یہ مركز اپنی ترقی كی منزلیں طے كر رھا تھا كہ شاہی حكومت كی آنكھوں میں كھٹكنے لگا۔ اس نے اسے بند كرنے كی ٹھان لی ۔ اس زمانہ میں ساواك (انٹیلی جنٹ) كے بڑے بڑے ذمہ داروں نے كھا تھا كہ ”ھم ان لوگوں كو قابو میں كرنا بلكہ انھیں گرانا چاھتے ھیں لیكن اب انھوں نے ایسے كام شروع كر دئیے ھیں كہ اگر اب ھم سے ٹكرانا چاھیں تو سینكڑوں یا ھزاروں لوگوں سے ٹكرانا پڑے گا۔ بھت كوشش كی گئی كہ ان كو لوگوں كی زندگی سے الگ كر دیا جائے لیكن اگر ان كے یہ كام پایدار ھو گئے تو از سر نو لوگوں كی زندگی میں دخیل ھو جائیں گے جیسے بھی ممكن ھو اس كام كو روكا جائے۔ “چنانچہ جس روز لوگ اس ادارہ كو دیكھنے، اس كے مقاصد سے آگاہ ھونے اور اس كی ترقی كی خاطر مدد كے لیے آنے والے تھے عین اسی دن ساواكیوں نے ادارہ پر حملہ كیا اور اسے بند كر دیا۔ آیت اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی كو بھی گھر میں نظر بند كر دیا گیا ساواك نے لوگوں كو دھمكی دی كہ جو بھی اس ادارہ كی مدد كرے گا اسے گرفتار كر لیا جائے گا اور اسے سخت سزا دی جائے گی ۔ اس طرح انھوں نے اس مركز كی فعالیت كو روك دیا۔

*   سیاسی فعالیت

آپ كے سیاسی افكار كی بنیاد بچپنے كے زمانے اور خاندانی تربیت پر استوار ھے ۔ آپ نے اپنے سیاسی نظریہ كو گفتگو، تقریروں اور تبلیغ میں ثابت كر دیا ھے منجملہ ان كی شھر ارومیہ میں سات سالہ تبلیغ كی طرف اشارہ كیا جا سكتا ہے۔ 1960ع میں آپ اردبیل میں مقیم ھوئے اور اسی وقت سے سیاسی جنگ آپ كی فعالیت كا جزو لاینفك ھو گئی۔ اور اسی وجہ سے آپ پر حكومت كی نظر رھتی تھی۔

شاہ كی حكومت آپ كی فعالیت، مجلسوں، تبلیغ، تقریروں، تدریس، معمولی آمدو رفت اور خطوط كے سلسلہ میں حساس تھی اور ان كی تحقیق كرتی تھی یھاں تك كہ جب آپ مدرسہ بناتے یا ناداروں كی مدد كرتے تھے تو اس وقت صرف آپ ھی پر نظر نھیں ركھی جاتی تھی بلكہ وہ طلباء بھی جلاوطنی اور شكنجہ سے محفوظ نھیں رھتے تھے جو كہ آپ سے تعلیم حاصل كرتے تھے ۔ جب اسرائیل اور عرب كے درمیان چھ روزہ جنگ ھوئی تھی اس وقت آپ شاہ كی حكومت سے برملا طور پر الجھ گئے تھے۔ اس زمانہ میں شاہ كی حكومت كی تبلیغی مشینری اسرائیل كی طرفداری كر رھی تھی اور ھر چیز اسرائیل كے حق اور عرب مسلمانوں كے خلاف بیان كررھی تھی۔ آپ نے منبر سے شدید طور پر عرب مسلمانوں كی طرفداری كی جس كے نتیجہ میں شاہ كی حكومت نے آپ كو گرفتار كركے تبریز بھیجنے كا منصوبہ بنایا۔ اس حادثہ كی وجہ سے اردبیل كے علماء اور پیش نماز حضرات متحد ھوگئے۔ سب نے آپ كی مسجد میں پھنچ كر اعلان كیا كہ اگر شاہ كی حكومت آپ كو گرفتار كركے جلاوطن كرے گی تو ساری مساجد كو بند كردیا جائے گا اور سبھی اردبیل سے نكل جائیں گے شاہ كی حكومت نے علماء سے مقابلہ كیا ۔ اس سے برآمد ھونے والے نتائج سے اسے تشویش ھوئی لھٰذا اس نے آپ كی گرفتاری كا فیصلہ واپس لے لیا۔ دوسرا موقع جو قابل ذكر ھے وہ كیپٹلسم كا پاس كرنا ھے۔ آپ نے لوگوں كو آگاہ كیا، لوگوں نے اعتراض كرنے كے لیے بازار بند كردئے۔ لیكن شاہ كی حكومت بازار بند كرنے میں ركاوٹ بن گئی اور ان پر نظر ركھی۔ انھیں ا تنی تكلیف اور اذیت دی گئی كہ اردبیل چھوڑ كر دوسری جگہ ھجرت كرنے پر مجبور ھوگئے۔

*  جمال ابہی كی كتاب

 

چند چیزوں كی وجہ سے اردبیل بہائیوں كا پسندیدہ شھر تھا:

1- حروف میں سے حی : علی محمد باب كے اٹھارہ پیرووں میں سے ایك آدمی ملایوسف اردبیلی تھا جسے اردبیل والے نھیں جانتے ھیں لیكن بہائیوں كی تاریخی كتابوں میں اس كا نام بیان ھوا ھے ۔ البتہ اردبیل كے نزدیك ملا یوسف نام كا ایك گاؤں ھے ۔ بعض بہائی كھتے ھیں كہ یہ گاؤں مذكورہ ملا یوسف ھی كی طرف منسوب ھے۔ اور اسی وجہ سے اس دیھات كو متبرك اور مقدس جگہ سمجھتے ھیں ۔

2- تقریباً 1338ھ ق میں اردبیل میں امین العلماء نام كا ایك آدمی رھتا تھا لوگوں میں مشھور تھا كہ یہ بہائیت كی طرف مائل ھے۔ ماہ رمضان میں اسے ایك شخص نے كچھ كھاتے پیتے دیكھ لیا۔ اس نے اس سے كھا كہ رمضان میں تم كھلم كھلا كیوں كھا رھے ھو؟ اس نے جواب دیا كہ آج 21/رمضان ھے آج كے دن علی علیہ السلام كو شھید كیا گیا ھے خدائی نظام برباد ھو گیا ھے اور كسی كو كسی سے كوئی ربط نھیں ھے اگر تم بھی اپنا روزہ توڑ دو گے تو كوئی حرج نہیں ھے۔ اسے غیظ آگیا اور چاقو سے اس كا كام تمام كر دیا۔ بہائی لوگ اسے بہائیت كا ایك شھید خیال كرتے ھیں۔

3- اردبیل میں بہائیوں كے دو یا تین گھر وقف تھے ۔ ان میں سے ایك كو انھوں نے خفیہ طور پر بہائیت كے كتابخانے میں تبدیل كر دیا تھا ۔

4-اردبیل شھر میں بعض حكومت كے آدمی جیسے سیاح اور انصاری بہائی تھے۔ ان چیزوں كی وجہ سے بہائی مبلغین خصوصاً گرمی كے زمانہ میں كہ اردبیل كا موسم معتدل ھوتا ھے كی آمد و رفت بھت زیادہ ھوتی تھی ۔ان مبلغین كے مخاطب زیادہ تر جوان اور اسٹوڈنٹ ھوتے تھے۔ بہائیوں كی ان نشستوں میں جانے والے بعض جوان آیت اللہ موسوی اردبیلی كی خدمت میں حاضر ھوتے ۔ سنی ھوئی باتوں كو ان سے نقل كرتے تھے اور مناسب جواب طلب كرتے تھے۔ آپ كی رھنمائی یہ ھوتی تھی كہ ان كی باتوں اور دلیلوں كو سنو مگر جواب نہ دو۔ جواب كسی مناسب موقع پر دیا جائےگا ۔ انھوں نے بھت سا مواد حاصل كركے آپ سے اس كے جواب حاصل كیے ۔ جوابات كی تنظیم اور انھیں مستند بنانے كے لیے خود بہائیوں كے اصلی منابع كی تحقیق ضروری تھی۔ چنانچہ یہ كام انصاری كے ذریعہ جو كہ بہائیت كے ھی زمرہ میں تھا انجام پذیر ھوا۔ ان سوالات و جوابات اور بہائیوں كے بارے میں مفصل یادداشتوں كے مجموعہ سے آپ نے جمال ابہی نامی كتاب تالیف كی جس كے پھلے ایڈیشن كی تعداد ھزار تھی اور اب نایاب ھے۔ موسیٰ صدر نے یہ كتاب دیكھی تو انھیں بھت پسند آئی ۔ آپ اس كا عربی ترجمہ كرانا چاھتے تھے لیكن انھیں اس كی فرصت نہ مل سكی۔

اردبیل سے تھران

اردبیل میں آپ كی بڑھتی ھوئی سیاسی فعالیت اس بات كا باعث ھوئی كہ حكومت كے امنیتی ادارے آپ كے اوپر سخت طریقہ سے نظر ركھیں۔ یھاں تك كہ ساواك والوں نے آپ كے گھر پر حملہ كیا۔ جس كے نتیجہ میں آپ كا آرام و سكون آپ كے گھر میں بھی سلب ھو گیا۔ آپ نے اردبیل سے كسی دوسرے شھر میں ھجرت كرنے كا امام خمینی سے مشورہ كیا۔ امام خمینی نے فرمایا كہ” ھم بھتر نہیں سمجھتے كہ علماء شھروں كو ترك كركے تھران یا قم چلے جائیں۔ لیكن ایسا لگتا ھے كہ آپ حالات كی وجہ سے سفر كرنے پر مجبور ھیں۔اپنے حالات كو آپ بھتر سمجھتے ھیں آپ مناسب منصوبہ بنا سكتے ھیں۔“ آپ نے امام خمینی كے مشورہ كے بعد كہ امام خمینی نے آپ كو مناسب فیصلہ كرنے كا اختیار دے دیا تھا اردبیل سے ھجرت كرنے كا ارادہ كیا۔ لیكن ھجرت كے لیے ساواك كے ایجنٹوں كو غافل كرنے اور پیش آنے والے خطرات كا سد باب كرنے كے لیے زمینہ كا ھموار كرنا ضروری تھا۔

1968ع میں مشھد كے زلزلہ كی وجہ سے مشھد كے مضافات كو شدید نقصان پھنچا۔ حكومت وقت نے لوگوں كو اپنا گرویدہ بنانے كے لیے یہ چال چلی كہ عوام سے مدد حاصل كركے متاثر ھونے والے لوگوں میں تقسیم كی جائے لہٰذا مكرر بیانیے آئے اور پوسٹر لگائے گئے۔ شھروں میں كیمپ لگائے گئے اور لوگوں سے مدد طلب كی لیكن وہ اپنی كوشش میں كامیاب نہ ھوسكی۔ دوسری طرف شھروں كے علماء نے مستقل طور پر عوام سے امداد حاصل كی ۔ اس سلسلہ میں آیت اللہ موسوی اردبیلی نے بعض دوسرے احباب كے ساتھ اردبیل میں ایك اطلاعیہ صادر كیا اور لوگوں كو مسجد میں جمع كیا اور اعانت كی جمع آوری میں مشغول ھوگئے۔ مشھد میں آیت اللہ میلانی كی سكونت كی وجہ سے یہ طے پایا كہ جو امدادی سامان جمع ھوا ھے اسے زلزلہ آنے والے علاقہ میں خرچ كرنے كے لیے میلانی صاحب كی خدمت میں ارسال كیا جائے۔ اس واقعہ كی وجہ سے آیت اللہ موسوی اردبیلی امداد رسانی كے سكریٹری مقرر ھوئے اور جمال ابہی كتاب كی طباعت كے بھانہ سے آپ كسی كو یہ بتائے بغیر كہ اردبیل لوٹنے كا ارادہ نھیں ھے تھران چلے گئے۔

تھران میں سكونت و فعالیت

حضرت آیت اللہ موسوی اردبیلی 1968ع گرمی كے زمانہ میں تھران پھنچے كے چند روز كے بعد نصرت روڈ پر واقع مسجد امیرالمومنین میں نماز جماعت پڑھانے كے اسباب فراھم ھوگئے۔ گھر مل جانے كے بعد آپ كے اھل و عیال بھی اردبیل سے تھران چلے گئے۔

تھران میں سكونت پذیر ھونے كے بعد آپ نے نماز جماعت پڑھانے اور تقریروں كے علاوہ بعض جوان اور مستعد طلبہ كے لیے نصرت مسجد میں فقہ، كتاب خمس اور اسفار كی پھلی جلد كا درس شروع كیا۔ اسی طرح اپنے بعض ھم فكر دوستوں كے ساتھ فلسفی مباحثے شروع كیے، چند روز كے بعد اپنے ھم فكر دوستوں، شھید آیت اللہ بھشتی، شھید آیت اللہ مطھری، شھید حجۃ الاسلام مفتح كے ساتھ علوم قرآن كی تحقیق كا آغاز كیا۔ علوم قرآن كی گھری تحقیق كےلئے مناسب جگہ اور بڑے كتب خانہ كی ضرورت تھی۔ اس كے لئے مسجد امیرالمومنین كے جوار میں ایك جگہ مل گئی جھاں تحقیقی كام كرنے كے لئے ایك كتب خانہ بنایا گیا۔ مزید برآں نماز مغربین كے بعد مسجد امیرالمومنین میں مستقل طور پر تفسیر قرآن كا درس دیتے تھے۔

چونكہ اس زمانہ میں الحادی افكار كا زور تھا اس لئے ایك ایسے ادارہ كی تاسیس ضروری تھی كہ جس میں دینی معارف كی تحقیق و بیان كا كلاس قائم كیا جاسكے اور عقیدتی و ثقافتی مسائل بیان كئے جائیں ۔ اس مقصد كیلئے آپ نے پرچم روڈ پر مركز توحید اور مسجد تعمیر كرائی، جس میں ایران كے مفكرین و مقررین نے درس دئے جو كہ آج تك اپنا فریضہ انجام دے رھے ھیں ۔ ان سب كو موسسہٴ خیریہ مكتب امیرالمومنین چلاتا ھے اس كی تفصیل بعد میں بیان ھوگی۔

اس قسم كی فعالیتیں 19۷9ع تك جاری رھیں ۔ اسی سال ملت ایران كے مبارزات میں شدت پیدا ھوئی حضرت آیت اللہ موسوی اردبیلی نے جو كہ امام خمینی كے قریبی اور انقلاب اسلامی كے ركن شمار ھوتے تھے، انقلاب سے پھلے بھی تمام سیاسی میدانوں میں اور انقلاب كی پھلی دھائی میں جو بنیادی كردار ادا كیا ھے اسے اس مختصر سے كتابچہ میں بیان نھیں كیا جاسكتا لہٰذا ھم اس زمانہ میں آپ كی علمی اور ثقافتی سرگرمیوں كو مختصر طور پر بیان كرتے ھیں۔

 

علمی و ثقافتی فعالیت

فقہ و اصول كے درس خارج كے ساتھ طلبہ كو منظومہ كی پھلی جلد كا درس اور اصول فلسفہ و روش ریالیسم كا درس دیتے رھے۔ اسٹوڈنٹ كے لئے تكامل، فلسفہ، تاریخ اور دیگر فلسفی اھم مباحث كا سلسلہ جاری ركھا ۔ مسجد میں آنے والے نمازیوں كے لئے تفسیر كا درس شروع كیا، مبانی فلسفی اور علوم قرآنی كے مسائل سے متعلق متفكرین كے مختلف گروھوں سے بحث و گفتگو تھران میں قیام كے زمانہ میں علمی و ثقافتی مشغولیتوں میں سے ھے۔ ان فعالیتوں كی وسعت سے شاہ كی حكومت چكنا چور ھوگئی اور ساواك نے مركز تحقیقات پر حملہ كركے تمام اسباب و وسائل كو برباد كردیا ۔ كتب خانہ بھی تاراج ھوگیا یھاں تك كہ موسسہ میں مشغول محققین كی یادداشتیں بھی برباد ھوگئیں اور مركز بند ھوگیا۔

 

مكتب امیرالمومنین (ع) كی تاسیس

1969ع میں آپ نے ثقافتی امور كو منظم كرنے كے لیے بعض احباب كے تعاون سے موسسہ خیریہ مكتب امیرالمومنین كی تاسیس كی۔ الحمد للہ یہ موسسہ تاسیس سے آج تك بھت سے كارنامے انجام دے چكا ھے ۔ تین مساجد، ایك ثقافتی مركز، چار پرائمری جونیر ھائی اسكول اور یونیورسٹی بن چكی ھے اور ابھی تك اس كی فعالیت جاری ھے ۔ انقلاب اسلامی كی پھلی دھائی یعنی 19۷9ع سے 1989ع تك ملك كے مخصوص حالات كی وجہ سے آپ كی زندگی میں بھی ایك انقلاب آ گیا تو آپ نے اپنی فعالیت كو دو حصوں میں تقسیم كیا۔ ایك میں آپ علمی اور ثقافتی امور انجام دیتے تھے اور دوسرے میں سیاسی مسائل اور حكومتی و اجرائی كام انجام دیتے تھے۔ ھم كھہ چكے ھیں كہ ہم اس مختصر كتابچہ میں صرف علمی اور ثقافتی خدمات كو بیان كریں گے كیونكہ دوسرا حصہ تفصیل طلب ھے جس كی گنجائش اس كتاب میں نھیں ھے۔

 

انقلاب كی پھلی دھائی كے كارنامے

انقلاب كے ابتدائی گیارہ برسوں میں آپ كی علمی اور ثقافتی مشغولیت نے خاص صورت اختیار كی تھی۔ آپ كی نئی مشغولیتوں میں عدالت كے كیفری اور جزائی و حقوقی قوانین كی تدوین اور ان كی فقہ اسلامی اور موازین شرع سے تطبیق تھی۔ چونكہ انقلاب سے قبل یھاں تك كہ عمومی مجازات سے متعلق قوانین بھی یوروپی تھے بناء بر ایں فقھاءاور حقوق داں افراد پر مشتمل ایك كمیٹی بنائی گئی اور مفكرین كے تعاون سے یہ مھم سر ھوئی اور نئے قوانین شرع كے مطابق منظم كركے پیش كردئے گئے۔ واضح ھے كہ یہ كام حسب ضرورت اور شرع كے مطابق قوانین كی تدوین كے پیش نظر انجام پایا لیكن اس كے یہ معنی نھیں ھیں كہ یہ قانون بالكل كامل اور جامع ھے اس میں كوئی نقص نھیں ھے بلكہ ممكن ھے كہ یہ نظر ثانی كا محتاج ھو۔

دوسری طرف كبھی عدالتوں میں ایسے مسائل سامنے آتے ھیں جنكا تدوین یافتہ قوانین میں كھیں ذكر نھیں ھے اور قاضی بھی موجودہ قوانین سے مسئلہ كا استخراج نھیں كر سكتا تو اس وقت قانون اسلامی كا آرٹیكل نمبر 16۷قاضی كا فریضہ معین كرتا ھے كہ وہ تدوین یافتہ قوانین میں ھر دعوے كا حكم تلاش كرنے كی كوشش كرے اگر حكم نہ مل سكے تو معتبر منابع اسلامی یا معتبر فتاویٰ سے مدد لے كر حكم صادر كرے ۔ واضح ھے كہ تمام قضاة، جج اس مھم سے بہ آسانی عھدہ بر آنھیں ھوسكے خصوصاً نئے پیدا ھونے والے مسائل كو تلاش نھیں كرسكتے كیونكہ فقہ كے معتبر منابع میں بھی ان كا حكم نھیں ھے۔ ایسے مواقع پر عدلیہ كے نئے مسائل كے شرعی احكام كا استخراج آپ كی دوسری ذمہ داری تھی ۔

عدلیہ كی دوسری مشكل رٹائر ھوجانے والے قاضیوں، ججوں كو نئے قاضیوں كے ساتھ مناسب جگہ پر مقرر كرنا كہ ان میں سے اكثر ادارہ كے كاموں سے واقف نھیں تھے اور چونكہ شریعت اسلام كے لحاظ سے قضاوت كیلئے مبانی فقھی میں درجہ ایك پر فائز ھونا شرط ھے اس لئے ضروری تھا كہ قضاوت میں فضلاء اور حوزہ كے طلبہ سے استفادہ كیا جائے۔ بلكہ حوزۂ علمیہ قم و نجف میں اساتذہ زیادہ تر كتاب صلوة و كتاب صوم پڑھاتے تھے اور كتاب قضا، حدود، دیات و قصاص پڑھانے كا حوزات میں رواج نھیں تھا ۔ جو لوگ عدلیہ میں شامل تھے ان میں سے اكثر مسائل قضا سے واقف نھیں تھے دوسری طرف قضا كی كتب میں جو كچھ لكھا ھے وہ آج كے معاشروں كی حالت كے مطابق نھیں ھے۔ یہ ساری چیزیں اكٹھا ھوگئیں اور عدلیہ كے لئے بھت مشكلات كھڑی ھوگئیں۔

بیك وقت ان دو مشكلوں كو حل كرنے كے لئے آیت اللہ موسوی اردبیلی نے قضاوت كیلئے كتاب قضا كا درس خارج شروع كیا اور ساتھ ھی ”فقہ القضا“ لكھ ڈالی اوراس میں ان نئے مسائل سے بحث كی جو كہ فقہ كی پھلی كتابوں میں نھیں تھے لیكن موجودہ زمانہ میں ان كا پیدا ھونا احكام شرعی كو سمجھنے كا اقتضا كرتا تھا۔

آپ كی دوسری فعالیت اقتصادی مسائل جیسے بینك اور سكہ، ملك كے ھونے والے معاملہ اور ملك پر حاكم اقتصادی نظام سے علمی و فقھی بحث كرنا تھی كہ اس چیز كی اسلامی جمھوریہ ایران كو شدید ضرورت تھی اور اس سے قبل اس سلسلہ میں وسیع پیمانے پر كوئی اجرائی كام نھیں ہوا تھا ۔ اس سلسلہ میں خصوصاً نظام اقتصاد و سوشلسٹ اقتصاد اور پھراسلام كے اقتصادی نظام سے ان كے موازنہ كے لیے وسیع مطالعہ كی ضرورت تھی اس كو بھی آیت اللہ موسوی اردبیلی نے انجام دیا اس كے نتائج لكھے گئے۔

 

دوبارہ قم ھجرت

4 مئ 1989ع كو امام خمینی نے وفات پائی۔ حضرت آیت اللہ موسوی اردبیلی نے جو كہ امام خمینی كی حیات میں بھی ذمہ داریوں سے الگ ھونے كا بارھا تقاضا كرچكے تھے لیكن امام خمینی نے مثبت جواب نھیں دیا تھا اسی سال ماہ شھر یور میں قم ھجرت كی۔ آپ كی نئی مشغولیات حسب ذیل ھیں:

 

1 -تدریس، بحث و تحقیق

آپ نے قم مقدسہ میں ابتدائے قیام ھی سے فقہ و اصول كے درس خارج كا آغاز كیا۔ اس مدت میں آپ نے 199۷ع میں اصول كے درس خارج كا ایك دورہ مكمل كیا اور اسلام كے فقہ جزائی جو كہ قضا، قصاص، دیات اور شھادات كی تدریس كی اور انھیں لكھا بھی۔ اب تك فقہ القضا، فقہ الحدود والتعزیرات، فقہ الدیات اور فقہ القصاص شائع ھوچكی ھیں اور فقہ الشھادات زیر طبع ھے۔ اسی زمانہ میں حوزۂ علمیہ قم كی تعطیلات میں كتاب الشركۃ مباحث اجتھاد و بیمہ كا درس بھی دیا۔ ان میں سے فقہ الشركۃ و كتاب التامین ایك جلد میں چھپ چكی ھے۔

كیفری بحث كو ختم كرنے كے بعد آپ نے اسلام كے مدنی و حقوقی مباحث كی تدریس كا سلسلہ شروع كیا اور اھمیت اور معاشرے كی ضرورت كے تحت مضاربہ كو اولویت دی اور اس كی تدریس كو ختم كیا۔ یہ بھی انشاء اللہ جلد ھی زیور طبع سے آراستہ ھوگی۔

 

2- مفید یونیورسٹی

جس زمانہ میں حضرت آیت اللہ موسوی اردبیلی قم میں زیر تعلیم تھے اس زمانہ میں ھر ایك درد آشنا طالب علم كے مانند حوزہ كے نواقص كے بارے میں سوچتے تھے، ان كی آرزو تھی كہ حوزہ كے نواقص برطرف ھوجائیں۔

حوزہ میں بڑا نقص یہ ھے كہ اس كا نصاب تعلیم قدیم ھے اس میں كسی قسم كی رد و بدل نھیں ھوئی ھے۔ لہٰذا انقلابات كے نتیجہ میں انسان كی زندگی اور معاشرہ میں جو نئے مسائل وجود میں آگئے ھیں ان كے احكام ان كتابوں میں دستیاب نھیں ھوتے، یا ان كے بارے میں سیر حاصل بحث نھیں ھوئی ھے۔ مثلاً حقوق خصوصاً بین الاقوامی حقوق، جیسے سرحدوں كے احكام، قومیت، اقتصادی مسائل، بینك، بغیر سود كا بینك، بیمہ اور سكہ وغیرہ اھم مسائل ھیں نیز حكومتی و سیاسی مسائل، نئے اجتماعی نظام سے متعلق فقہی بحث و تحقیق، اسی طرح سماجیات، جدید فلسفہ و كلام اور سیاسی علوم وغیرہ سے حوزات علمیہ میں مكمل طور پر بحث نھیں كی جاتی جبكہ اسلامی معاشرہ كو ان كی شدید ضرورت ھے ۔ اب بھی اس سلسلہ میں بڑا خلاء پایا جاتا ھے ۔ دوسری طرف یہ بھی واضح ھے كہ حكومت اسلامی چلانے كے لئے ماھر اور پابند افراد كی ضرورت ھے جوكہ حوزوی علوم سے مكمل آشنائی كے ساتھ جدید علوم سے بھی بھرہ ور ھوں اور نئے مسائل كو حل كرنے اور پیش آنے والے مسائل كے سلسلہ میں اسلام كے نقطہ نظر كو بیان كرنے كی بھرپور صلاحیت ركھتے ھوں۔

 

ان مشكلوں كو حل كرنے اور حوزات كے نقص كو برطرف كرنے كےلئے آپ نے اس وقت مفید یونیورسٹی كی بنیاد ركھنے كا فیصلہ كیا جبكہ آپ نے دوبارہ قم میں سكونت اختیار كی۔ اس یونیورسٹی كی تعمیر و تاسیس كا مقصد یہ ھے كہ اس میں علوم انسانی كی تعلیم دی جائے اور دیگر مكاتب كے ساتھ اسلام كے نظریات كی بھی تحقیق كی جائے۔

فی الحال اس میں حقوق اور اقتصاد، فلسفہ، علوم سیاسی اور علوم قرآن كی ام -فل تك تعلیم دی جاتی ھے آئندہ یونیورسٹی ھی میں ڈاكٹریٹ تك كی تعلیم كا بندوبست كیا جائے گا۔ مزید بعض دوسرے شعبوں كا بھی اضافہ كیا جائے گا۔ وزرات تعلیم كے قوانین كے مطابق اس وقت یونیورسٹی میں چھ سو طلبہ تعلیم پارھے ھیں اور ساتھ ھی حوزہ كی تعلیم و تحقیق كا سلسلہ بھی جاری ركھے ھوئے ھیں، اس یونیورسٹی میں داخلہ كی شرط یہ ھے كہ طالب علم نے لمعہ اور اصول مظفر تمام كی اور ملك كے ٹیسٹ میں كامیابی حاصل ھو مزیدبرآں مذكورہ یونیورسٹی میں داخل ھونے كے بعد لازم ھے كہ طالب علم یونیورسٹی كی تعلیم كے ساتھ ساتھ حوزہ كی تعلیم بھی جاری ركھے ۔

 

فھرست تالیفات

1- فقہ و اصول

فقہ القضا (مطبوعہ) ،

فقہ الحدود والتعزیرات (مطبوعہ) ،

فقہ الدیات (مطبوعہ) ،

فقہ القصاص (مطبوعہ) ،

فقہ الشركة والتامین (مطبوعہ) ،

فقہ المضاربۃ،

حاشیہ برخیارات مكاسب،

اصول فقہ كامل دورہ .

2- دوسرے موضوعات

جمال ابہی (در رد بہائی) (مطبوعہ)

مقالاتی در تفسیر قرآن (مطبوعہ)

اخلاق میں دئے گئے دروس

چار جلد اقتصاد

ھمپاے انقلاب

اقتصاد اسلامی كا ایك دورہ

                                              (گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)