• صارفین کی تعداد :
  • 2812
  • 9/2/2008
  • تاريخ :

چڑيل

  احمد نديم قاسمي  کي کوئي کتاب

جي ہاں ہے تو عجيب بات مگر بعض باتيں سچي بھي ہوتيں ہيں، دن بھر وہ برساتي نالوں ميں چقماقي کے جھولياں چنتي ہے اور رات کو انہيں آپس ميں بجاتي ہے، اور جس اسے جنگارياں جھڑنے لگتي ہيں تو زور زور سے ہنستي ہے، اور پھر اس کي ہنسي شديد ہونے لگتي ہے، تو ہم پر رحمتيں برسا خوتون، تو آسمان پر ستارے گنکنے لگتے ہيں، جھيل کي سطح پر چمٹے ہوئے چاند کو لطيف جھونکے لا تعداد  دنوں کي قطاروں ميں تقسيم کر ديتے ہيں اور ہوائيں گھني پريوں ميم سے سمت سمٹ اور لچک لچک کر نکلتي ہوئي گنگنانے لگتي ہيں، اور يہ گنگناہٹ سنسناتے ہوئے سناٹے کا روپ دھار کر پہاڑيوں اور واديوں پر مسلط ہوجاتي ہے، اور صرف تبھي ٹوٹتي ہے جب پوپھتے گلابي کنکروں سے پٹي ہوئي ڈھيريوں پر ايک سايہ سا منڈلانے لگتا ہے۔

 

اول اول جب وہ ان ڈھيريوں پر آئي تو چيت کے مہينے کي ايک رات آدھي سے زيادہ گزر چکي تھي، آسمان پر بادلوں کي جنگ جاري تھي، اور برساقي بالے گرج رہے تھے، کسي کھوہ ميں ايک گڈريا دبکا بيٹھا تھا، يہ قريب سے گزري تو چڑيل چڑيل پکارتا چيختا چلاتا کنکر اڑاتا اندھيرے ميں جذب ہو گيا، دوسرے روز چرواہوں نے بہت  دور سے اسے ڈھيريوں پر چقماق چنتے ہوئے ديکھا تو گڈرئيے کے واويلا ميں سچائي کي رمق نظر آئي۔، گھروں کے صدر دروازوں پر تعويز لٹکائے گئے، وہقانوں کے چھيروں کے اردگرد پير جي کا دم کيا ہوا پاني چھيڑکا جانے لگا، اور نمبر دار نے مولوي جي کو دين وسط ميں بٹھا کر کہا کہ تين  مرتبہ قرآن مجيد پڑھ کر چھو کرو اور پيٹ بھر حلوہ۔۔۔۔ سنتا سنگھ جوار روالپنڈي کے سفادوں کا حال سن کر گھر کي چار ديواري ميں بند ہوگيا تھا اور باہر آيا، اور مکان کے قفل پر سيندور چھڑک کر اندر بھاگ گيا اور لالہ چومي لال نے اڑوس پڑوس کے پنڈتوں کو فورا جمع کيا اور ايک بھجن منڈالي قائم کرلي، ہو ہق کے ورد اور رام رام کے جاپ سے گائوں بھڑوں کے چھتے کي طرح سر سرانے لگا، اس روز مدرسہ  بھي بند رہا، کيوں کہ گائنوں نے اپنے کليجے کے ٹکڑوں کو کليجيوں ميں سے چمٹائے رکھا اور اور مدرسے کے برآمدے ميں بيٹھ کر چڑي کي باتيں کرتے رہے۔

 

مگر چند ہي دنوں کے بعد مراد نے گائوں ميں يہ خبر پھيلا دي کہ وہ چڑيل نہيں، چڑيل نہيں، مولوي جي نے پوچھا  تھا، ارئے بھئي تمہيں کيا معلوم کے سکندراعظم کے زمانے ميں کالي ڈھيري کي ايک چوٹي پر ايک ہندوستاني چڑيل نے ايک يوناني کي کھوپڑي توڑ کر اس کا گودا نگل ليا تھا، جب سےاس ڈھيري پر کسي نے قدم نہيں رکھا اور اکثر ديکھا گيا ہے، کہ طوفاني راتوں ميں ڈھيري پر دئيے جلتے ہيں اور تالياں بجتي ہيں اور ڈرائونے قہقہوں کي آوازيں آتي ہيں، دادا سے پوچھ لو۔

 

دادا جسے قرآن مجيد کي کئي آيتوں سے لے کر ابابيلوں کي چونچ اور گدھ کي آنکھوں کے مرکب سے ايک اکسيري سرمے کا نسخہ تک ياد تھا، بولا کون نہيں جانتا کوئي ماں کا لال کالي ڈھيري پر چڑھ کر تو دکھائے، کہتے ہيں کہ اکبر بادشاہ دلي سے صرف اس لئے يہاں آيا تھا کہ اس چوٹي کا راز معلوم کرے مگر مارے ڈر کے پلٹ گيا تھا۔

مراد بوالا ميري بات بھي تو سنو۔

ہاں ہاں بھئي دادا نے کہا سچ مچ مراد کي بات بھي تو سنو، ہمارے تمہارے جيسا نادان تو نہيں کہ سني سنائي ہانگ دے کا پڑھا لکھا ہے انگريز کو اردو پڑھاتا رہا ہے فوج ميں۔۔

کہو بھئي مراد اور مراد بولا وہ چڑيل نہيں بلکہ بلا کي خوبصورت عورت ہے اتنے لمبے بال اور گھنے بال ہيں اس کے معلوم ہوتا ہے اس کے بدن پر گاڑھے دھوئيں کا ايک لہراتا ہوا سا خول چڑھا ہوا ہے، اور رنگ تو اس  غضب کا ہے کہ چاندي کي کرنوں کي ايسي کي تيسي، آنکھيں بادامي ہيں پتھر کو ٹکٹکي باندھ کر ديکھے تو چٹخا دے، پلکيں اتني لمبي  اور ايسي شان سے مڑي ہوئي جيسے تير کمان ۔۔۔۔۔اور داد۔۔۔۔کہتے جائو۔۔۔۔کہتے جائو۔۔۔دادا مسکرا رہا تھا، مولوي جي تصبيح پر سينکڑا خمت کرا ليا تھا، اور مراد بوالا۔۔۔۔دادا۔۔۔۔اس کي دونوں ابروئوں  کے درميان ايک نيلي سي بنديا بھي۔

ارے دادا جيسے سنبھل کر بيٹھ گيا اور مولوي جي نے تسبيح کو متھي ميں مروڑ کر ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا۔

ميں نہيں کہتا تھا کہ وہ کالي ڈھيري کي چڑيل ہے، جس نے يوناني سپاہي کي کھوپڑي کا گودا نکال تھا، يہ ماتھے کي بنديا يا  ہندو عورت ہي کا نشان تو ہے، خدا لگتي کہوں گا مراد۔۔۔۔دادا بولا۔۔۔مولوي جي کي بات جچ رہي ہے، نفل پڑھو شکرانے کے کہ بچ کر آئے ہو۔۔۔۔نہيں وہ چڑيل نہيں، مراد کي آواز ميں اعتماد تھا، اگر وہ چڑيليں ايسي ہيں تو ميں ابھي کالي ڈھيري پر جانے کيلئے تيار ہوں۔۔۔ مگر دادا۔۔۔۔ميرا دل کہتا کہ وہ چڑيل نہيں۔

 

تو پھر کون  ہے آخر؟ دادا نے لوگوں کي آنکھوں ميں دبکے ہوئے سوالوں کو زبان سے ادا کرديا، ہوگئي کوئي مراد بوالا مگر ميں سچ کہتا ہو کہ ايران ميں بھي ديکھا اور عراق ميں اور مصر ميں بھي کہيں کشمير سيب کي سي رنگت تھي تو کہيں چنبيلي کي سي ليکن گندم کا ساندي کنارے ريت کا سا، سنہري سنہري، يہ ہمارے ہندوستا ميں ہي ملتا ہے۔

ہندوستان ميں اور بھي تو بہت کچھ ہے، نمبردار  کا بيٹا رحيم جو لاہور کے ايک کالج ميں پڑھتا تھا، اور ايسٹر کي چھٹياں گزرانے گائوں ميں آيا تھا، بھاري بھاري کتابوں کي اوٹ سے بولا، يہاں بنگلا کے گلے سڑے ڈھانچے بھي ہيں اور بہادر کے يتيم اور سارے ہندوستان کي وہ بيوائيں بھي ہيں جب کے آبرو کے راکھوالوں پر مشرق و مغرب کے ميدانوں ميں گدھوں، مچھليوں اور کيڑو نے ضيافتيں اڑائيں اور جن کے لہو کي پھوانے فاشزم کا فانسو بھجايا اور جن کے خون کي حددت نے کئي اور کافور شميعيں روشن کيں اور پھر ہندوستان ميں تمہارا امر تسر روالپنڈي اور ملتان بھي تو ہيں،  جہاں صرف اس لئے عورتوں کي آبرو ريزي کي جار ہي ہے کہ ان کے ماتھے پر نيلي سی بندياں ہے اور جہاں بچوں کو۔۔۔۔۔۔ نہيں نہيں بھئي دادا بوکے بچوں  کو نہيں بچوں کو ابھي تک کسی نےکچھ نہيں کہا۔

 

تحرير : احمد نديم قاسمي

           پيشکش: شعبه  تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

 توبہ شکن

 ماسي گُل بانو

 آنندي