• صارفین کی تعداد :
  • 5796
  • 9/1/2008
  • تاريخ :

اھل بیت سے محبت کا تقاضا

اھل بیت

محبت اھل بیت (ع) کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ایک عادی یا معمولی محبت کی طرح نہیں ہے جیسے ہم کو کسی سے محبت ہوجاتی ہے بلکہ محبت اھل بیت ان کی پیروی اور ان کے دامن سے متمسک رھنے کا مقدمہ ہے اس میں اور عام محبت میں فرق ہے جیسا کہ امام شافعی نے ایک ہزار دوسو سال قبل انحرافات و خلط ملط شدہ عقائد کے بارے میں خبر دار کیا تھا کہ و لما رایت الناس قد ذھبت بھم مذاھبم فی اظھر الغی و الجھل رکبت علی اسم اللہ فی سفن النجاۃ و ھم آل بیت المصطفی خاتم الرسل و امسکت حبل اللہ و ھو ولائھم۔

امام شافعی کہتے ہیں جب میں نے دیکھا کہ لوگ اپنے اعتقادات کی بنا پر جھل و نادانی کے سمندر میں غرق ہو رہے ہیں اور سرگردان ہیں تو میں خدا کا نام لیکر نجات کی کشتیوں پر سوار ہو گيا کہ اس سمندر میں نہ ڈوبوں یہ نجات کی کشتیاں رسول اسلام خاتم الانبیاء (ص) کے اھل بیت ہیں میں نے ان نجات کی پر سوار ہوکر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور یہ رسی اھل بیت کی ولایت ہی ہے  امام شافعی اس طرح ہمیں سمجھانا چاھتے ہیں کہ اھل بیت کو حاشیے پر مت رکھو وہ متن قرآن میں ہیں۔

 

        میں یہ نہیں سمجھتا ہے الکتاب و العترۃ (حدیث) میں واو عطف کا ہو بلکہ میری نظر میں واو معیت کے معنی میں ہے یعنی قرآن مع العترۃ عترت قرآن کے ساتھ ساتھ ہے اھل بیت سے متمسک رھنا قرآن سے متمسک رھنے کے معنی میں ہے ، امام شافعی کہتےہیں میں نے خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور یہی ولایت اھل بیت ہے جیسا کہ ہمیں حبل المتین قرآن سے متمسک ہونے کا حکم ملا ہے۔

 

       قرآن کریم میں اھل بیت (ع) کے بارے میں بہت سی آیات ہیں آیۃ محبت ،آيۃ تطہیر آیۃ صلواۃ وغیرہ میں صرف اس آیت کے بارے میں گفتگو کروں گا جس کی دیگر فاصل مقررین نے بھی قراءت کی ہے ۔

 

ذالک الذی یبشراللہ عبادہ الذین آمنوا و عملوا الصالحات قل لا ا‎‎سئلکم علیہ اجرا الاّالمودۃ فی القربی پانچویں صدی ہجری کے مشہور عالم دین حاکم جسکانی نے اپنی کتاب شواھدالتنزیل میں لکھا ہے کہ سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ لما نزلت قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی نازل ہوئي تو لوگوں نے رسول اللہ سے سوال کی یہ اھل قربی کون ہیں جن کی محبت کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ؟آپ (ص) نے فرمایا یہ علی و فاطمہ اور ان کے بیٹے حسن و حسین ہیں یہ میرے اھل بیت ہیں۔

       حافظ ابو نعیم اصفھانی نے حلیۃ الاولیاء میں جابر سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (ص) کی خدمت میں آیا اور کہا مجھے مسلمان بنائيں آپ نے فرمایا کہ شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے  اور محمد اس کے رسول ہیں ،اس شخص نے کہا کیا آپ اس کے بدلے مجھ سے اجر و پاداش لیں گے تو آنحضرت نے لا الا المودۃ فی القربی نہیں  میں تم سے صرف اپنے اھل بیت کی دوستی اور محبت کا طالب ہوں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ محبت اھل بیت علیھم السلام کی پیروی کا مقدمہ ہونا چاہیے۔

       امام احمد بن حنبل نے فضائل الصحابۃ ،قرطبی نے اپنی تفسیر اور ابن جریر طبری نے اس آیت کی تفسیر میں ، حاکم نے مستدرک میں اور محب الدین طبری نے ذخائر میں ،ابن حجر نے صواعق میں سیوطی نے الدر المنثور میں اس آیت کے ذیل میں اس حدیث کو نقل کیا ہے ،میں  بہت سی حدیثیں لکھ کر لایا ہوں لیکن دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے۔

       حدیث ثقلین کے بارے میں یہ عرض کروں کہ اس میں ایک صفت مشبہ اور دوسرا اسم مصدر ہے جس کے معنی عام ہیں مسلم نے اپنی صحیح میں جو صحاح ستہ میں سے ایک ہے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا میں بھی بشر ہوں اور نزدیک ہے کہ خدا کا فرشتہ میرے پاس آۓ اور میں اس کی دعوت پر لبیک کہوں میں تمہارے درمیان دو گراں بھا چیزیں چھوڑے جارہاہوں پہلی کتاب خدا کہ جو نور اور ھدایت ہے پس کتاب خدا کو تھام لو اور اس کی اتباع کرو اس کے بعد رسول اللہ نے قرآن کی اتباع کے بارے میں کافی تاکید فرمائی اس کے بعد فرمایا میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اپنے اھل بیت اور عترت کے بارے میں آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ تکرار فرمایا۔

 

       ترمذی جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو عرفہ میں لوگوں سے خطاب فرماتے ہوئے دیکھا آپ فرمارہے تھے اے لوگو میں نے تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑی ہیں اگر تم ان کا دامن تھامے رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔   

       رسول اللہ نے فرمایا میں تمہارے درمیان دو گران بھا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ان کا دامن تھامے رہوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے وہ کتاب اللہ اور میری عترت اور میرے اھل بیت ہیں جناب ڈاکٹر زمانی نے فرمایا کہ بعض روایات میں "سنتی" کا لفظ بھی آیا ہے میں اس مسئلے پر بحث نہیں کرنا چاھتا لیکن جن روایات میں لفظ سنتی آیا ہے تو اصولا اھل بیت کی پیروی کرنا سنت پر عمل کرنے کا واضح نمونہ ہے اس میں کسی طرح کا فرق نہیں ہے اور نہ عترت و سنت میں کوئی تضاد ہے اس میں کسی طرح کا اختلاف بھی نہیں ہے دونوں ایک ہیں ۔

       امام شافعی کے جند اشعار ہیں وہ کہتے ہیں کہ "اے سوار جو خانہ خدا کی طرف جارہا ہے منی کے پاس رک جا اور جو لوگ عبادت خدامیں مشغول ہیں اور جو خانہ خدا کی طرف جارہے ہیں اسی طرح سے وہ حاجی جو مشعر سے منی کی طرف روانہ ہورہے ہیں ان سے بلند آوازمیں کھ دے کہ اگر محبت آل محمد (ص)  رافضی کہلانے کا سبب ہے تو تمام جن و انس یہ شہادت دیں کہ میں رافضی ہوں ۔

       خداوندا ہمیں ہمیشہ کے لۓ اھل بیت کے چاھنے والوں میں شمار کر اور یہ بات یاد رھے کہ اھل بیت کی دوستی کو معمولی دوستی نہ سمجھیں بلکہ یہ محبت ان کی راہ پر گامزن رہنے کا مقدمہ ثابت ہو۔


متعلقہ تحریریں :

 حضرت فاطمہ زہرا (س) کا مثالی کردار